نثار بزمی
نثار بزمی (1 دسمبر 1924ء - 22 مارچ 2007ء) پاکستانی فلمی صنعت کے موسیقار تھے۔
نثار بزمی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 دسمبر 1925ء جلگاؤں |
وفات | 22 مارچ 2007ء (82 سال)[1] کراچی |
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
فنکارانہ زندگی | |
پیشہ | نغمہ ساز ، موسیقی ہدایت کار ، فلم اسکور کمپوزر |
اعزازات | |
ویب سائٹ | |
IMDB پر صفحہ | |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمابتدائی زندگی
ترمیمممبئی کے نزدیک خاندیش کے قصبے میں مولوی گھرانے کے سید قدرت علی کے گھر پیدا ہوئے۔ اصل نام سید نثار احمد تھا۔ نثار بزمی کے والد سید قدرت علی کا تعلق موسیقی سے نہ تھا۔ بچپن میں نثار بزمی مشہور بھارتی موسیقار امان علی خان سے متاثر تھے۔ انھی کی رفاقت کی وجہ سے 13 سال کی عمر میں نثار بزمی بہت سے راگوں پر عبور حاصل کر چکے تھے۔
آخری ایام
ترمیمان کا انتقال 22 مارچ 2007ء کو 83 سال کی عمر میں کراچی میں ہوا ۔
فنّی سفر
ترمیمبطور موسیقار
ترمیم1944ء میں انھوں نے ممبئی ریڈیو سے نشر ہونے والے ڈرامے ’ نادر شاہ درانی ‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ اس کھیل کے سارے گیت سپر ہٹ ہوئے اور اس کے ساتھ ہی کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ یہ سال ان کی زندگی کا سنہری سال ثابت ہوا۔ نثاربزمی کی شہرت اگلے 2 برس میں آل انڈیا ریڈیو کے اسٹوڈیوز سے نکل کر بمبئی کے فلمی اسٹوڈیوز میں پہنچی اور ڈائریکٹر اے آر زمیندار نے انھیں اپنی فلم ’جمنا پار‘ کے گانے کمپوز کرنے کی پیشکش کی۔ یہ فلم 1946ء میں ریلیز ہوئی اور پھر اگلے 12 برس کے دوران میں نثار بزمی نے 40 فلموں کی موسیقی دی۔ لتا، آشا بھوسلے، مناڈے اور محمد رفیع سے گانے گوائے۔ رفیع کی آواز میں فلم ’ کھوج‘ کا گانا "چاند کا دل ٹوٹ گیا، رونے لگے ہیں ستارے" سن 40 کے عشرے کے آخری برسوں میں آل انڈیا ریڈیو سے خوب خوب چلا۔
بمبئی میں بے پناہ پیشہ ورانہ مصروفیت کے باوجود بزمی صاحب معاوضے کے اعتبار سے موسیقاروں کے تیسرے درجے میں شامل تھے۔ اس حیثیت میں انھوں نے پہلی بار آنند بخشی کو بطور نغمہ نگار فلم ’بھولا آدمی‘ میں متعارف کروایااور کلیان جی آنند جی کی جوڑی کو سازندوں کی جگہ سے اٹھا کر موسیقاروں کی صف میں شامل کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان آمد
ترمیم1962میں نثار بزمی پاکستان آئے۔ بمبئی میں وہ ایک نام ور موسیقار شمار ہوتے تھے اور لکشمی کانت پیارے لال جیسے میوزیشن اُن کی معاونت میں کام کر چُکے تھے۔ لیکن پاکستان میں قدم جمانا بھی کوئی آسان کام نہ تھا کیونکہ یہاں کے فلمی فلک پر بھی اُس وقت موسیقی کے کئی آفتاب اور مہتاب روشن تھے۔
فلمی موسیقی میں یہ زمانہ تھا خواجہ خورشید انور اور رشید عطرے کا۔ اسی زمانے میں بابا جی اے چشتی، فیروز نظامی، رابن گھوش، ماسٹر عنایت حسین، ماسٹر عبداللہ، سہیل رعنا اور حسن لطیف بھی اپنے فن کا جوہر دکھا رہے تھے۔ زیادہ کمرشل سطح پر یہ زمانہ منظور اشرف، دیبو، ناشاد، اے حمید (موسیقار)، سلیم اقبال، تصدق، لال محمد اقبال، رحمان ورما، بخشی وزیر، خلیل احمد اور وزیر افضل کا زمانہ تھا۔
پہلی پاکستانی فلم
ترمیممعروف موسیقاروں کے اس جھرمٹ میں اپنے لیے جگہ کرنا کوئی آسان کام نہ تھا اس لیے 115 برس کی شدید جدوجہد کے بعد بھی پاکستان میں نثار بزمی کو صرف ایک فلم ’ہیڈ کانسٹیبل‘ٰ ملی۔ تاہم مزید ایک برس کی شبانہ روز محنت کے بعد نثار بزمی کو منزل کا سراغ مل گیا جب فضل احمد کریم فضلی نے اپنی معروف فلم ’ ایسا بھی ہوتا ہے‘ کے لیے انھیں موسیقار نامزد کر دیا۔
شہرت
ترمیماس فلم کے بعد پاکستانی فلم انڈسٹری کے دروازے نثار بزمی پر کھُل گئے۔ 1966 میں انھوں نے ’لاکھوں میں ایک‘ٰ کی موسیقی مرتب کی تو پاکستان کی فلمی دنیا میں موسیقی سے تعلق رکھنے والے ہر شخص پر یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ بمبئی کا یہ موسیقار محض تفریحاً یہاں نہیں آیا بلکہ ایک واضح مقصد کے ساتھ یہاں مستقل قیام کا ارادہ رکھتا ہے۔
نئے گلوکار
ترمیممہدی حسن اور نور جہاں جیسے منجھے ہوئے گلوکاروں کے ساتھ ساتھ انھوں نے رونا لیلٰی اور اخلاق احمد جیسی نوخیز آوازوں کو بھی نکھرنے سنورنے کا موقع دیا۔’ دِل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ‘ٰ رونا لیلٰی کا یہ گیت تین عشروں کے بعد بھی اپنی تازگی اور شوخی برقرار رکھے ہوئے ہے۔
مہدی حسن اور نور جہاں
ترمیممہدی حسن کا گیت ’ٰ رنجش ہی سہی دِل ہی دُکھانے کے لیے آ ۔۔۔‘ اور ’اک ستم اور میری جاں ابھی جاں باقی ہے۔۔۔‘، آج بھی سنیئے تو دِل اُداس ہوجاتا ہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے بارے میں کئی موسیقاروں کو شکایت تھی کہ وہ ریکارڈنگ سے صرف دس منٹ پہلے آتی ہیں اور پہلی ہی ٹیک میں گانا ریکارڈ کرواکے رخصت ہو جاتی ہیں۔
ایک انٹر ویو کے دوران ملکہ ترنم نے اعتراف کیا کہ وہ یقیناً ایسا کرتی ہیں لیکن صرف نام نہاد موسیقاروں کے ساتھ۔ میڈم نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ نثار بزمی صاحب کی ریہرسل پر میں ہمیشہ وقت سے پہلے پہنچتی ہوں اور سُروں کے اتار چڑھاؤ کی مشق کرتی ہوں کیونکہ وہ ایک عظیم موسیقار ہیں اور فن کی باریکیوں سے نہ صرف خود آگاہ ہیں بلکہ دوسروں کو سمجھانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
اعزازات
ترمیمانعامات
ترمیم1968ء میں فلم ’صاعقہ‘ کی موسیقی پر اور 1970ء میں فلم ’انجمن‘ کے میوزک پر نثار بزمی نے نگار ایوارڈ حاصل کیا، لیکن یہ محض ابتدا تھی۔ 1972ء میں ’میری زندگی ہے نغمہ‘، 1979ء میں ’خاک اور خون‘ اور صدارتی تمغا حسن کارکردگی سے بھی نواز ا گیا ۔
اہم فلمیں
ترمیم- صاعقہ،
- تاج محل،
- آسرا،
- انیلہ،
- جیسے جانتے نہیں،
- عندلیب،
- ناز،
- بے وفا،
- نورین،
- الجھن،
- محبت رنگ لائے گی،
- آشنا،
- تہذیب،
- ناگ منی،
- میری زندگی ہے نغمہ،
- امراؤ جان ادا،
- سرحد کی گود میں،
- ملاقات،
- دِل کا شہر،
- پیاسا،
- آس،
- انمول،
- بات پہنچی تیری جوانی تک،
- نمک حرام،
- انتظار (1974 )،
- مستانی محبوبہ،
- لیلٰی مجنوں،
- دشمن،
- دوتصویریں،
- ہار گیا انسان،
- جاگیر،
- اِک گناہ اور سہی،
- پہچان،
- گنوار،
- شرارت،
- اجنبی،
- تلاش،
- آگ اور آنسو،
- ناگ اور ناگن،
- سچائی،
- نیا سورج،
- جان کی بازی،
- آس پاس،
- ہم ایک ہیں،
- جو ندیا مرک (پشتو) ۔
کمال فن
ترمیمپاکستان آنے کے بعد چند ہی برس کے عرصے میں انھوں نے بطور موسیقار ایک معزز مقام حاصل کر لیا۔ کیونکہ غزل کی گائیکی کے لیے درکار نیم کلاسیکی دھنوں سے لے کر فوک اور پوپ میوزک کی دھڑکتی پھڑکتی کمپوزیشن تک انھیں ہر طرح کی بندشوں میں کمال حاصل تھا۔ وہ سروں کے معاملے میں بہت سخت تھے۔لیکن دل کے بڑے نرم یہی وجہ ہے کہ آخری عمر انھوں نے گوشہ نشینی میں گزاری۔ دنیا ان کی فنی خدمات کو بڑے طویل عرصے تک یاد رکھے گی۔