فضل احمد کریم فضلی
فضل احمد کریم فضلی (پیدائش: 4 نومبر، 1906ء - وفات: 17 دسمبر، 1981ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، ناول نگار، فلم ساز اور سول سرونٹ تھے۔ وہ اپنے ناول خونِ جگر ہونے تک کی وجہ سے اردو ادب میں مشہور و معروف ہیں۔ انہوں نے چراغ جلتا رہا نامی فلم بھی بنائی جس کا افتتاح محترمہ فاطمہ جناح نے کیا تھا۔ انہوں نے اوکسفورڈ یونیورسٹی سے ادب میں ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔
فضل احمد کریم فضلی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (اردو میں: سید فضل احمد کریم نقوی) |
پیدائش | 4 نومبر 1906 بہرائچ، اتر پردیش، برطانوی ہند |
وفات | 17 دسمبر 1981 (75 سال) کراچی، پاکستان |
مدفن | پاکستان ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی |
شہریت | ![]() ![]() |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ الٰہ آباد جامعہ اوکسفرڈ |
تعلیمی اسناد | ڈاکٹر آف لیٹرز |
پیشہ | ناول نگار، فلم ساز، شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
اعزازات | |
![]() | |
درستی - ترمیم ![]() |
حالات زندگیترميم
فضل احمد کریم فضل 4 نومبر، 1906ء کو بہرائچ، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔[1] اصل نام سید فضل احمد کریم نقوی اور تخلص فضلی تھا۔ ان کا آبائی وطن الہ آباد تھا۔ خاندان کے سارے افراد علم دوست اور شعرو سخن کا ذوق رکھتے تھے۔ ان کے والد سید فضل رب فضل اپنے عہد کے خوشگوار شعرأ میں شمار کیے جاتے تھے۔ اس طرح فضلی صاحب کو شعر و سخن کا ذوق ورثہ میں ملا۔ فضلی صاحب کم عمری ہی میں غالب، ذوق، اکبر اور اقبال سے متعارف ہو چکے تھے۔ پھر والد محترم کی وجہ سے بہت سے شعرأ حضرات بھی ان کے گھر آتے تھے جن میں صفی لکھنوی، ظریف لکھنوی، اثر لکھنوی اور جگر مراد آبادی بھی شامل تھے۔ اس سے سارے ماحول اور پس منظر کا نتیجہ یہ ہوا کہ فضلی صاحب نے بارہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا۔ شروع میں اصلاح کے لیے وہ اپنے شعر والد کو دکھایا کرتے تھے۔ لیکن ان کے والد نے فضلی صاحب کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ وہ انہیں یہ ہدایت فرماتے تھے کہ پہلے تعلیم مکمل کرلو پھر شاعری کرنا لیکن وہ خفیہ طور پر شعر کہتے اور دوستوں کی فرمائش پر نجی محفلوں میں پڑھتے تھے۔[2]
فضل احمد کریم فضل نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی۔ پانچ سال کی عمر میں رسم بسم ﷲ ہوئی اور پھر قرآن پاک کی تعلیم شروع ہوئی۔ ڈیڑھ سال میں انہوں نے قرآن پاک ختم کر لیا۔ 1926ء میں انہوں نے ایوننگ کر سچین کالج الہ آباد سے انٹر اور پھر الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔ 1930ء میں کلیکٹری اور آئی سی ایس کے امتحانات دیے۔ آئی سی ایس کے امتحان میں وہ تیسرے نمبر پر رہے۔ اس کے بعد تربیت کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی بھیج دیے گئے۔ وہاں انہوں نے اپنے تحقیقی مقالے The Orignal Development of Persain Ghazal پر ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔[2]
لندن سے واپسی پر بنگال میں ان کی تعیناتی ہوئی جہاں سے انہوں نے بنگالی زبان بھی سیکھ لی۔ وہ سیکریٹری محکمہ تعلیمات مشرقی پاکستان رہے اور کچھ عرصے وہ وزارت امور کشمیر کے سیکرٹری بھی ہوئے۔ فضلی کراچی میں الہ آباد یو نیورسٹی اولڈ بوائز ایسو سی ایشن کے صدر بھی رہ چکے تھے۔ اولڈ بوائز کے جلسوں میں تشریف لاتے تو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے تھے۔ ان کی شخصیت کا ایک پہلویہ تھا کہ وہ آئی سی ایس ہوتے ہوئے بھی عجز و انکسار کے مجسمہ تھے۔[2]
ادبی خدماتترميم
فضل احمد کریم فضلی نے اپنا پہلا ناول خونِ جگر ہونے تک لکھ کر علمی و ادبی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ اور ساتھ ساتھ ذہنوں کو جھنجلا کے رکھ دیا تھا[2]۔ اس ناول میں سماجی حقیقت کو غیر آرائشی انداز میں سامنے لاتا ہے۔ اس ناول کا پس منظر 1945ء کا بنگال ہے۔ فضلیؔ نے اس ناول کی جزئیات حقیقی زندگی سے تلاش کیں اور انہیں اس طرح باہم مرتب کیا کہ ایک مؤثر اور معنی آفریں ناول تخلیق ہو گیا۔[3] ان کی دیگر تصانیف میں سحر ہونے تک اور شعری مجموعوں میںچشم غزال، نغمہ زندگی شامل ہیں۔[2]
فلم سازیترميم
فضل احمد کریم فضلی کے دو بھائی حسنین فضلی اور سبطین فضلی فلمی دنیا سے سے وابستہ تھے۔ فضلی نے ریٹائرمنٹ کے بعد خود بھی فلمی دنیا کا رخ اختیار کیا اور دبستان محدود کے نام سے ایک فلمی ادارہ قائم کیا۔ بطور فلم ساز ان کی پہلی فلم چراغ جلتا رہا تھی جس کا افتتاح 3 مارچ 1962ء میں محترمہ فاطمہ جناح کے ہاتھوں سر انجام پایا تھا۔ چراغ جلتا رہا کے بعد فضلی نے ایسا بھی ہوتا ہے اور وقت کی پکار کے نام سے دو اور فلمیں بھی بنائیں۔[2]
تصانیفترميم
- خون جگر ہو نے تک (ناول)
- سحر ہونے تک (ناول)
- نغمہ زندگی (مجموعہ کلام)
- چشم غزال (مجموعہ کلام)
نمونہ کلامترميم
غزل
غموں سے کھیلتے رہنا کوئی ہنسی بھی نہیں | نہ ہو یہ کھیل تو پھرلطف زندگی بھی نہیں | |
نہیں کہ دل تمنا میرے کوئی بھی نہیں | مگر ہے بات کچھ ایسی کہ گفتنی بھی نہیں | |
حسن ہر شے میں ہے گر حسن نگاہوں میں ہو | دل جواں ہوتو ہر اک شکل بھلی لگتی ہے | |
ادائیں ان کی سناتی ہیں مجھ کو میری غزل | غزل بھی وہ کہ جو میں نے ابھی کہی بھی نہیں | |
وہ کہہ رہے ہیں مجھے قتل کرکے اے فضلی | کہ ہم نہیں جو ترے قدر داں کوئی بھی نہیں |
وفاتترميم
فضل احمد کریم فضلی 17 دسمبر، 1981ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے اور انہیں پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کراچی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔[2][1]
حوالہ جاتترميم
- ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات ناموران پاکستان، لاہور، اردو سائنس بورڈ، لاہور، 2006ء، ص 623
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 522
- ↑ اردو ناول کے رنگا رنگ موضوعات، ڈاکٹر شائستہ حمید، اخبارِ اردو، شمارہ فروری 2014ء، ادارہ فروغِ قومی زبان، اسلام آباد