آیت اللہ العظمیٰ سید نجم الحسن تقوی، معروف بہ نجم الملة و الدین یا نجم العلماء ، برصغیر کے چند شیعہ مجتہدین اور مرجع تقلید میں سے ایک تھے ـ

نجم الحسن امروہوی

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 25 مئی 1863ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 18 اپریل 1938ء (75 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فقیہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ہندوستان کے شہر امروہہ کے رہنے والے تھے ـ

علامہ مفتی سید محمد عباس شوشتری کے شاگرد خاص اور داماد تھے ـ

ولادت

ترمیم

آپ کی ولادت 6 ذی الحجہ سنہ 1279ھ کو امروہہ میں ہوئی ـ

آپ کے والد کا نام علی اکبر یا اکبر حسین تھا ـ۔

نسب نامہ: نجم العلماء مولانا سید نجم الحسن ابن سید اکبر حسین ابن سید مبارک علی ابن سید علی بخش ابن سید غلام حسن ابن سید غلام احمد خاں ابن سید تاج محمود خاں ابن سید رحمت اللہ ابن سید عصمت اللہ ابن سید محمود ابن سید محمد اشرف دانشمند ابن سید محمد سعید خان ابن سید محمد عرف منگن ابن سید داؤد عرف پیارے ابن سید خیر الدین ابن سید علی الدین ابن سید سیف الدین ثانی ابن سید عبد المجید ابن سید حسین ابن سید سیف الدین اول ابن سید داؤد نذر ابن سید نذر اللہ ابن سید زید ثانی ابن سید عبد العزیز ابن سید ابراہیم ابن سید محمود ابن سید زید ابن سید عبد اللہ زربخش ابن سید یعقوب ابن سید احمد نقیب قم ابن سید محمد اعرج ابن سید احمد ابن امام زادہ سید موسیٰ المبرقع ابن امام محمد تقی علیہ السّلام

تعلیم

ترمیم

آپ نے ابتدائی تعلیم خود امروہہ میں حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے لکھنؤ چلے گئے۔ وہاں آپ نے ادبیات عرب کی تعلیم علامہ مفتی سید محمد عباس شوشتری سے حاصل کی اور فقہ کی تعلیم مولانا ابوالحسن ابن علی شاہ سے ـ

اس کے علاوہ علوم عقلیہ میں علامہ ابوالحسن ابن بندہ حسین سے کسب فیض کیا ـ

اس کے بعد خود مدرسہ مشارع الشرائع ( ناظمیہ ) میں تدریس میں مشغول ہو گئے ـ اور آخر حیات تک لکھنؤ میں ہی طلاب علوم دینیہ کی پرورش اور دین و مذہب کی خدمت سے وابستہ رہے ـ

اسی مقصد کی خاطر آپ نے لکھنؤ میں مدرسۃ الواعظین کی تاسیس کا فریضہ انجام دیا ـ

علامہ سید محسن امین عاملی نے لکھا ہے کہ آیت اللہ سید نجم الحسن، آیت اللہ سید محمد کاظم طباطبائی یزدی (صاحب کتاب عروۃ الوثقیآیۃ اللہ اسماعیل صدر، آیۃ اللہ عبداللہ مازندرانی اور آیۃ اللہ حسین ابن خلیل طبیب تہرانی جیسے متعدد فقہا کی جانب سے اجازہ روایت کے حامل تھے ـ [1]

علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی کی نگاہ میں

ترمیم

علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی نے آپ کو عالم جلیل و کامل کہہ کر یاد کیا ہے نیز آپ کو لکھنؤ کے عظیم علما میں شمار کیا ہے :

”وھو من اعاظم العلماء بلکھنؤ“. [2]

تالیفات

ترمیم

شیخ آقا بزرگ تہرانی کے بیان کے مطابق آپ کی مشہور تالیفات مندرجہ ذیل ہیں :

1: شریعة الاسلام : یہ کتاب اردو زبان میں آپ کے فتاوی کا مجموعہ اور رسالہ عملیہ تھی ـ [2]

2: سرادق عفت : شریعت اسلام میں حکم حجاب کے بارے میں اردو زبان میں ایک استدلالی کتاب ہے ـ [3]

3: نبوت و خلافت : نبوت و امامت کے بارے میں یہ کتاب بھی اردو زبان میں ہے اور انگریزی زبان میں بھی اس کتاب کا ترجمہ ہو چکا ہے ـ [4]

4: توحيد : اردو زبان میں اللہ کی توحید پر مشتمل ہے ـ اس کتاب کا تذکرہ آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الذریعة میں دو مقام پر کیا ہے ـ نیز انگریزی اور گجراتی زبان میں بھی اس کتاب کا ترجمہ ہو چکا ہے ـ [5][6]

5: محاسن : داڑھی منڈانے کی حرمت پر مشتمل ہے ـ یہ کتاب بھی اردو زبان میں ہے ـ [7]

اولاد

ترمیم

آقا بزرگ تہرانی نے آپ کے دو بیٹوں کا تذکرہ کیا ہے : علامہ سید محمد، جنھوں نے والد کے فتاوی کو کتابی شکل دے کر شریعۃ الاسلام کے نام سے موسوم کیا ـ

یہ کتاب اردو زبان میں طبع ہوئی ـ

دوسرے بیٹے علامہ سید محمد کاظم، جنھوں نے علامہ سید حسن صدر کی مشہور کتاب الشیعہ و فنون الاسلام کا اردو میں ترجمہ کیا ـ

آقا بزرگ تہرانی نے آپ کے دونوں بیٹوں کو فاضل کامل سے تعبیر کیا ہے ـ [2]

١. مولانا سید محمد صاحب کے دو صاحبزادے عالم دین تھے:

١-١. تاج العلماء مولانا سید محمد زکی صاحب۔ آپ کے بیٹے امیر العلماء مولانا سید حمید الحسن صاحب آپ کے جانشین تھے۔ امیر العلماء مولانا سید حمید الحسن صاحب کے صاحبزادے مولانا سید فرید الحسن صاحب مدرسہ ناظمیہ کے پرنسپل ہیں۔

١-٢. عماد العلماء مولانا سید محمد رضی صاحب جن کا ننیہالی تعلق خاندان اجتہاد سے تھا۔ آپ کراچی ہجرت کر گئے۔


٢. مولانا سید محمد کاظم صاحب کے دو صاحبزادے تھے:

٢-١. زبدۃ العلماء مولانا سید محمد صادق صاحب۔ آپ کے پوتے یعنی سید محمد حامد صاحب کے بیٹے مولانا سید کاظم رضا تقوی صاحب عالم دین ہیں اور آپ کے پروتے یعنی سید محمد حامد صاحب کے پوتے مولانا سید سکندر کاظم تقوی بھی عالم دین ہیں۔

٢-٢. محسن الملت مولانا سید محمد محسن صاحب

وفات اور مدفن

ترمیم

17 صفر سنہ 1360ھ میں لکھنؤ میں ہی آپ کا انتقال ہوا ـ اور مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ میں آپ کو دفن کیا گیا ـ

شاگرد

ترمیم

مولانا مرحوم کا حلقہ درس کافی وسیع تھا، اس لیے ان کے شاگردوں کی تعداد کا احصاء ناممکن ہے۔ یہاں چند شاگردوں کے ناموں کی فہرست لکھ رہے ہیں۔

  • خطيب اعظم سید سبط حسن جائسی
  • مترجم و مفسر قرآن مولانا سید فرمان علی
  • عالم نبیل و فاضل جلیل مولانا سید محمد ہارون زنگی پوری
  • ادیب و شاعر برجستہ مولانا سید محمد داؤد زنگی پوری

حوالہ جات

ترمیم
  1. أعيان الشيعة (محسن امین عاملی)، ج: 10، صفحہ: 205
  2. ^ ا ب پ نقباء البشر فی القرن الرابع عشر، ج: 5، ص: 497
  3. الذريعة إلى تصانيف الشيعة (آقا بزرگ تہرانی)، ج: 12، صفحہ: 164
  4. الذريعة إلى تصانيف الشيعة (آقا بزرگ تہرانی)، ج: 24، صفحہ: 40
  5. الذريعة إلى تصانيف الشيعة (آقا بزرگ تہرانی)، ج: 4، صفحہ: 483
  6. الذريعة إلى تصانيف الشيعة (آقا بزرگ تہرانی)، ج: 23، صفحہ: 253
  7. الذريعة إلى تصانيف الشيعة (آقا بزرگ تہرانی)، ج: 20، صفحہ: 123