نقطویہ یا نقطوی یا پسی خانی، محمود پسی خانی گیلانی کے پیروکار تھے تقریباً سنہ 800 ھ، سلطنت امیرتیمور گورکن کے زمانے میں، مذہب نقطویہ کی بنیاد رکھی۔ محمود، اس سے پہلے حروفیہ فرقہ کے بانی سید فضل اللہ نعیمی استرآبادی کا پیروکار تھا، لیکن سید فضل اللہ نے اس کی خودپسندی اور نافرمانی کی وجہ سے دھتکار دیا اور تب سے اس کو محمود مطرود یا محمود مردود کہا جانے لگا۔

عقائد

ترمیم

ان کے نزدیک نماز، حج اور قربانی بے عقلی کے مترادف ہے۔ طہارت اور غسل کے مسائل کی تضحیک کرتے تھے۔

ان کا عقیدہ تھا کہ مذہب اسلام منسوخ ہو چکا ہے اس لیے اب نئے دین کی ضرورت ہے۔[1]

نقطوی تحریک کے بانی چند ایرانی علما تھے۔ جب شاہ عباس صفوی کو ان کے عقائد معلوم ہوئے تو اس نے اس فرقہ کے ماننے والے ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کچھ افراد جان بچا کر ہندوستان آنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان میں شریف آملی بڑا با کمال عالم تھا۔ اکبر کے عہد میں ہندوستان کے حالات اس قسم کی تحریکوں کے لیے پہلے ہی سازگار تھے۔ اکبر بادشاہ اور اس کے حاشیہ نشینوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اکبر بادشاہ اسے اپنے مرشدوں کی طرح مانتا تھا۔ ابو الفضل کا بھی اس فرقہ کے ساتھ گہرا تعلق و ہم آہنگی تھی۔

شریف آملی نے اپنے فرقے کی کتابوں سے ثبوت پیش کر کے اکبر بادشاہ کو نیا دین بنانے کی ترغیب دی۔ علمائے سوء کی تائید و حمایت سے ان کے عقائد شہنشاہ جلال الدین اکبر کے خود ساختہ دین الہی میں جلوہ گر ہو گئے۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. دبستان مذاہب، ص300
  2. البینات شرح مکتوبات، جلد اول، مقدمہ از پروفیسر محمد اقبال مجددی، صدر شعبہ تاریخ، اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور، ص41-42