13 نومبر 2015ء کی شام فرانس کے دار الحکومت پیرس اور سینٹ-ڈینس میں اجتماعی قتل اور حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ حملہ کا آغاز مرکزی یورپی وقت کے مطابق 21:16 کو ہوا،[5] تین علاحدہ علاحدہ دھماکے اورچھ جگہوں پر اجتماعی شوٹنگ کی واردات ہوئیں، اسی کے ساتھ سینٹ ڈینس کے شمالی مضافات میں فرانسیسی سٹیڈیم کے قریب بھی بم دھماکے ہوئے۔[5][6] اسٹیڈیم کے قریب تین دھماکے ہوئے ہیں، دھماکوں کے وقت اسٹیڈیم میں فرانس اور جرمنی کے درمیان میں فٹ بال میچ ہو رہا تھا اور میچ دیکھنے کے لیے فرانس کے صدر فرانسوا اولاند اور وزیر اعظم بھی موجود تھے لیکن انھیں اسٹیڈیم سے بحفاظت نکال لیا گیا۔ نیز متعدد مسلح افراد نے 100 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا اور جب پولیس نے انھیں چھڑانے کی کوشش کی تو ان لوگوں نے یرغمال افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دار الحکومت پیرس کے مختلف علاقوں میں مسلح افراد کے حملوں اور دھماکوں میں کم سے کم 40 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ فرانسیسی ذرائع ابلاغ نے پولیس کے حوالے سے کہا ہے کہ پیرس کے بٹا کلان تھیٹر میں یرغمال بنائے گئے تقریباً سو افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ پیرس کے ان حملوں میں کل 128 افراد ہلاک اور 250 زخمی ہوئے، جبکہ 99 افراد انتہائی تشویشناک حالت میں ہیں۔[7] دوسری جانب آٹھ حملہ آور مارے گئے جن میں سات حملہ آوروں نے خودکشی کی ہے۔[8] ان حملوں کو دوسری جنگ عظم کے بعد فرانس میں پیش آنے والا سب سے ہلاکت خیز واقعہ مانا جا رہا ہے۔[9]

پیرس اور سینٹ-ڈینس میں حملے کے مقامات
مقامپیرس اور سینٹ-ڈینس، فرانس
تاریخ13 نومبر 2015ء (2015ء-11-13) –
14 نومبر 2015 (2015-11-14)
21:16 – 00:58 (مرکزی یورپی وقت)
حملے کی قسمبڑے پیمانے پر شوٹنگ، گولہ، یرغمالی
ہلاکتیںکم از کم 128 [1][2](بشمول 8 حملہ آور)[2][3]
زخمی300+[2]
مرتکبینداعش
شرکا کی تعدادکم از کم 8[2]

فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے پیرس میں ہونے والے حملوں کے بعد ٹیلیوژن پر 23:58 (CET) بجے عوام سے خطاب میں کہا کہ شہر میں فوج طلب کر لی گئی ہے اور ملک میں ریاستی طور پر ہنگامی حالت نافذ کر کے فرانس کی سرحد کو عارضی طور پر مقفل کر دیا گیا ہے۔[10] بعد ازاں شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، پیرس میں 71 سال بعد کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔ آخری بار 1944ء (دوسری جنگ عظیم کے زمانہ میں) میں کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔

14 نومبر 2014ء کو داعش نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی[11][12] اور فرانسیسی صدر اولاند نے اسے جنگجویانہ عمل سے تعبیر کیا۔[13]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Rawlinson, Kevin (13 نومبر 2015)۔ "Fatal shootings and explosion reported in Paris – live"۔ The Guardian. Retrieved 13 نومبر 2015.
  2. ^ ا ب پ ت "Paris attacks"۔ BBC News.
  3. Claire Phipps، Kevin Rawlinson (13 نومبر 2015)۔ "All attackers dead, police say, after shootings and explosions kill at least 150 in Paris – live updates"۔ The Guardian۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 نومبر 2015 
  4. "Paris attacks: More than 100 killed in gunfire and blasts, French media say"۔ CNN۔ 14 نومبر 2015۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 نومبر 2015 
  5. ^ ا ب "Soudain, l'une des bombes explose en plein match"۔ 20 minutes (Switzerland) (بزبان فرانسیسی)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 نومبر 2015۔ On entend clairement, sur cette vidéo, la détonation de 21h16 
  6. Adam Nossiter، Rick Gladstone (13 نومبر 2015)۔ "Paris Attacks Kill More Than 100, Police Say; Border Controls Tightened"۔ The New York Times۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 نومبر 2015 
  7. (fr) ;ما الذي نعرفه عن هجمات باريس الذي تسببوا في مقتل 128 شخص، لا موند، 13 نومبر 2015
  8. (fr) فرانسوا أولاند: «عملية حرب»، ارتكبها «جيش إرهابي»، لا موند، 14 نومبر 2015
  9. (fr) الهجوم الأكثر دومية منذ 1945، لا موند، 14 نومبر 2015
  10. Kevin Rawlinson (13 نومبر 2015)۔ "Fatal shootings and explosion reported in Paris – live"۔ The Guardian۔ 14 نومبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 نومبر 2015 
  11. L'organisation État islamique revendique les attentats de Paris، on france24.com (accessdate=نومبر 14, 2015)
  12. Paris attacks: ISIS claims responsibility for gunfire, blasts that killed 128 people۔ سی این این۔ نومبر 14, 2015.
  13. "Paris attacks: Hollande blames Islamic State for 'act of war'"۔ BBC News۔ 14 نومبر 2014۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 نومبر 2015 

بیرونی روابط

ترمیم