رفع الیدین
پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو تکبیر تحریمہ، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد کندھوں یا کانوں تک اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے۔[ا] اسے عرف عام میں رفع الیدین کہتے ہیں۔ رفع یدین مالکی (صرف کچھ[حوالہ درکار])، شافعی، حنبلی، ظاہری اور اہل حدیث/سلفی مکاتب فکر میں رائج ہے۔ اور جعفریہ مکتب فکر میں بھی کچھ تبدیلی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
رفع الیدین کرنے کے دلائل
- اہل سنت کی مستند کتب احادیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، جس وقت رکوع کرتے اس وقت بھی اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس وقت بھی کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے“۔[1][2]
امام محمد بن اسمعیل بخاری نے رفع الیدین کے متعلق ایک الگ سے کتاب تصنیف کی ہے اور اس کا نام رکھا ہے: ”جزء رفع الیدین“ انھوں نے اس میں ان دونوں جگہوں پر رفع الیدین کرنے کو ثابت کیا ہے اور اس موقف کی مخالفت کرنے والوں کی تردید کی ہے۔
- ہمیں خبر دی اسمعیل بن ابی اویس نے: مجھے حدیث سنائی عبد الرحمٰن بن ابی الزناد نے عن موسیٰ بن عقبہ ہرمز الاعرج عن عبید اللہ بن ابی رافع عن علی بن ابی طالب (کی سند ہے کہ) بے شک جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے تکبیر (تحریمہ) کہتے تو رفع الیدین کرتے تھے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے اور رکعتوں سے اٹھتے تو اسی طرح (رفع الیدین) کرتے تھے۔[3]
یہ روایت بلحاظ سند حسن ہے۔ مسند احمد بن حنبل[4] وغیرہ میں بھی موجود ہے۔ اسے ابو عیسیٰ محمد ترمذی[5] نے حسن صحیح کہا ہے اور ابن خزیمہ[6] اور ابن حبان[7] اپنی صحیحین میں لائے ہیں۔ امام احمد بن حنبل نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ اس کے راوی عبد الرحمٰن بن ابی الزناد جمہور محدیثین کے نزدیک صدوق و حسن الحدیث ہیں۔ شمس الدین الذہبی نے کہا: ”حديثة من قبيل الحسن“ (ھو حسن الحديث وبعضهم يراه حجة)[8] امام بخاری کے استاذ علی بن مدینی نے روایت کو قوی قرار دیا ہے۔ یہ روایت ابن ابی الزناد کے حافظہ بگڑنے سے پہلے کی ہے۔[9]
- امام بخاری نے فرمایا اسی طرح کے سترہ صحابہ سے مروی ہے کہ وہ رکوع کے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔[10] ان میں سے ابو قتادہ انصاری، ابو اسید ساعدی بدری، محمد بن مسلمہ بدری، سہل بن سعد ساعدی، عبد اللہ بن عمر بن خطاب، عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب ہاشمی، خادمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انس بن مالک، ابو ہریرہ دوسی، عبد اللہ بن عمرو بن عاص، عبد اللہ بن زبیر بن عوام قرشی، وائل بن حجر حضرمی، مالک بن حویرث، ابو موسیٰ اشعری اور ابو حمیدی ساعدی انصاری ہیں۔[ب]
- سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب نماز میں داخل ہوئے تو رفع الیدین کیا اور اللہ اکبر کہا، پھر کپڑا لپیٹ لیا، دایاں ہاتھ مبارک بائیں ہاتھ مبارک پر رکھا، جب رکوع کا ارادہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ کپڑے سے نکالے، پھر رفع الیدین کیا اور اللہ اکبر کہا:، جب (رکوع کے بعد) سمع الله لمن حمده کہا، تو رفع الیدین کیا، سجدہ دونوں ہتھیلیوں کے درمیان کیا۔[11]
- ابوالزبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ”سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے، جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔“ [12]
- سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں، آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہا: اور رفع الیدین کیا، پھر اللہ اکبر کہا: اور رکوع کے لیے رفع الیدین کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا: اور رفع الیدین کیا، پھر فرمایا، تم ایسا ہی کیا کرو! آپ دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔ [13]حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ورجاله ثقات ”اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔“ [14]
- ابوقلابہ تابعی رحمہ اللہ سے روایت ہے: ”انہوں نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ نماز پڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور رفع الیدین کرتے، جب رکوع کو جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔“[15]
- سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں نماز پڑ ھ کر دکھائی، نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور دو رکعتوں سے اٹھتے وقت رفع الیدین کیا تو دس کے دس صحابہ کرام نے کہا : صدقت، هكذا يصلّي النّبيّ صلى الله عليه وسلم ”آپ نے سچ کہا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔“[16] اس روایت کی سند صحیح ہے[17]
- امام بیہقی فرماتے ہیں کہ امام حافظ ابو عبداللہ الحاکم نے ہمیں حدیث سنائی، کہا کہ ہمیں ابو عبد اللہ محمد بن الصفار الزاہد نے اپنی کتاب میں سے حدیث بیان کی کہ ابو اسماعیل محمد بن اسماعیل سلمی کہتے ہیں ، کہ میں نے ابو النعمان محمد بن فضل کے پیچھے نماز پڑھی ، تو انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے ، اور رکوع سے اُٹھتے وقت، اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے ، پھر ان سے اس بارے میں پوچھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حماد بن زید کے پیچھے نماز پڑھی ، انھوں نے نماز پڑھی تو نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، رکوع سے سر اٹھاتے وقت، اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھایا ، میں نے اس بارے میں ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا، میں نے عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ (استاد ابو حنیفہ رحتمہ اللہ علیہ ) تابعی کو دیکھا کہ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھایا۔ میں نے پوچھا، تو انہوں نے کہا میں سیدنا عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ بھی نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اُٹھاتے تھے۔ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا، میں نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ بھی نماز شروع کرتے وقت اور رکوع کرتے وقت رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اُٹھایا کرتے تھے، اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی برحق ، رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت ، اور رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھاتے تھے۔ اس کے راوی ثقہ ہیں۔[18]
- ”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تھے تو ہاتھوں کو کندھوں تک اُٹھاتے تھے، اور جب رکوع کرتے تھے تب بھی اسی طرح کرتے تھے ، اور جب سجدہ کرتے تھے، (یعنی سجدے کے لیے رکوع سے سیدھے ہوتے تھے) تب بھی اسی طرح کرتے تھے، سجدے سے اُٹھتے وقت اسی طرح نہیں کرتے تھے جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تھے تو رفع الیدین کرتے تھے۔ “[19]
- ”سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب وہ نماز شروع کرتے ، اور جب رکوع میں جاتے اور اسی طرح جب رکوع سے سیدھے ہوتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔“[20]
- سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی دونوں ہاتھ اٹھاتے۔[21]
- امام بیہقی اور حاکم نے کہا ہے کہ: ”سنت رفع الیدین ابوبکر صدیق ، عمر ، عثمان اور علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے۔“[22]
- سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ، حسن بصری ، حمید بن ہلال اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ بغیر کسی استثنی کے فرماتے ہیں: ”تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز کی ابتداء میں ، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کیا کرتے تھے۔[23]
- حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنے استاد حافظ ابوالفضل رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: ”انھوں نے صحابہ کرام کے متعلق تتبع کیا تو وہ پچاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جو رفع الیدین کی روایت بیان کرتے ہیں۔“[24]
- حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ہاتھ پنکھوں کی طرح ہوتے تھے کہ رکوع کرنے اور رکوع سے سیدھے ہونے کے وقت ہاتھ اوپر اٹھاتے تھے۔[25]
- حمید بن ہلال رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نماز میں رفع الیدین کرتے تھے، ان کے ہاتھ پنکھوں کی طرح اوپر نیچے ہوتے تھے۔[26]
- ”ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کودیکھا کہ آپ تکبیر تحریمہ کہتے اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔“[27]
- ربیع بن صبیح کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن سیرین، حسن بصری، ابونضرة، قاسم بن محمد (سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے ) عطاء بن ابی رباح (ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے استاد ) طاؤس یمانی ، مجاہد ، حسن بن مسلم، نافع (امام مالک کے استاد ) اور عبداللہ بن ابی نجیح رحمہ اللہ کو دیکھا کہ جب نماز شروع کرتے ، اور جب رکوع کرتے ، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔[28]
- داؤد بن ابراہیم سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے وہب بن منبہ تابعی کو دیکھا کہ جب پہلی تکبیر کہتے اور جس وقت رکوع کرتے ، اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو کانوں کے برابر رفع الیدین کرتے۔[29]
- ہمیں الحمیدی نے حدیث بیان کی: ہمیں ولید بن مسلم نے خبر دی کہا: میں نے زید بن واقد کو نافع سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ بے شک (عبد اللہ) بن عمر جب کسی (ناواقف) آدمی کو دیکھتے کہ وہ رکوع سے پہلے اور رکوع سے اٹھ کر رفع الیدین نہیں کرتا تو اسے کنکریوں سے مارتے تھے۔[30]
- امام مالک رحمہ اللہ بھی تکبیر تحریمہ اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنی نمازوں میں رفع الیدین کیا کرتے تھے۔[31]
- حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: امام ابن وہب، امام ولید بن مسلم، امام سعید بن ابی مریم ، امام اشھب اور امام ابومصعب امام مالک کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے موافق نماز میں رفع الیدین کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔[32]
- امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”امام مالک ، معمر، اوزاعی، ابن عیینہ، ابن المبارک، امام شافعی ، احمد اور اسحق رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔ “[33]
- امام عبد اللہ بن وہب المصری رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے امام مالک بن انس کو دیکھا، آپ نماز شروع کرتے وقت، رکوع سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، اس کے راوی ابو عبد اللہ محمد بن جابر بن حماد المروزی الفقیہ رحمہ اللہ نے کہا: میں نے محمد بن عبد اللہ بن الحکم سے یہ ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: یہ امام مالک کا قول اور فعل ہے جس پر وہ فوت ہوئے ہیں ، اور یہی سنت ہے، میں اسی پر عمل کرتا ہوں اور حرملہ بھی اس پر عمل کرتا ہے۔[34]
- امام شافعی رحمہ اللہ احادیث صحیحہ کی روشنی میں فرماتے ہیں: جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شروع نماز، رکوع سے پہلے ، اور بعد میں رفع الیدین والی حدیث سن لے، اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اس پر عمل نہ کرے، اور اقتداء سنت کو چھوڑ دے۔[35]
- علامہ سبکی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس سے صاف ظاہر ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ رفع الیدین کو واجب، اور ضروری قرار دیتے ہیں۔ ربیع کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ رفع الیدین کا کیا معنی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: «تعظيم الله واتباع سنة نبيه صلى الله عليه وسلم » ”کہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور سنت نبوی سے علم کی اتباع ہے۔ “[36]
- امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: «تارك رفع اليدين عند الركوع والرفع منه تارك للسنة» ”رفع الیدین کا تارک سنت کا تارک ہے۔ “[37]
- مسائل الامام احمد ، لابی داود السجستانی (رقم: 234 ، 235، ص: 50) پر ہے کہ: «رأيت أحمد يرفع يديه عند الركوع ، وعند الرفع من الركوع كرفعه عند استفتاح الصلوة يحاذيان أذنيه وربما قصر عن رفع الافتتاح، قال: سمعت أحمد قيل له: رجل سمع هذه الأحاديث عن النبى صلى الله عليه وسلم ثم لا يرفع ، هو تام الصلوة؟ قال: تمام الصلوة لا أدري ولكن هو عندي فى نفسه متغرض» ”میں نے امام احمد کو دیکھا ہے وہ رکوع سے پہلے، اور بعد میں بھی شروع نماز کی طرح رفع الیدین کانوں تک کرتے تھے، اور بعض اوقات شروع نماز والے رفع الیدین سے ذرا تقصیر کر کے رفع الیدین کرتے تھے۔ اور میں نے امام احمد رحمہ اللہ کو کہتے سنا جب ان سے کہا گیا کہ؛ ایک شخص رفع الیدین کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ احادیث سنتا ہے اور پھر بھی رفع الیدین نہیں کرتا۔ کیا اس کی نماز پوری ہوتی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پوری نماز ہونے کا تو مجھے معلوم نہیں ہے، ہاں وہ فی نفسہ نقص والی نماز ہے۔“[38]
- امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”کسی ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ رفع الیدین نہ کرتا ہو اور اس روایت کی سند رفع الیدین کرنے والی روایات سے زیادہ صحیح ہو۔[39]
- امام بخاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ائمہ دین میں سے کسی کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ترک رفع الیدین کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اسی طرح کسی صحابی سے بھی رفع الیدین نہ کرنا ثابت نہیں ہے۔[40]
- امام بخاری رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ: ”علماء مکہ، اہل حجاز ، عراق، شام، بصرہ اور یمن کی ایک بڑی تعداد سے (رفع الیدین کی ) روایات ہم تک پہنچی ہیں۔[41]
- امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”جو شخص رکوع کو جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین نہ کرے وہ سنت رسول کا تارک ہے۔[42]
- شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: «رفع اليدين عند الافتتاح والركوع والرفع منه» ”نماز میں تکبیر اولیٰ کے وقت، اور رکوع میں جاتے وقت، اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا چاہیے۔ “[43]
- شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں: «والذي يرفع أحب إلى ممن لا يرفع فإن أحاديث الرفع اكثر واثبت» ”رفع الیدین کرنے والا میرے نزدیک نہ کرنے والے سے زیادہ محبوب ہے، کیونکہ رفع الیدین کی احادیث زیادہ اور صحیح ہیں۔ “[44]
- حضرت مجدد الف ثانی بھی نماز میں رفع الیدین کرتے تھے۔[45]
- مولانا انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں کہ: «أن الرفع متواتر إسنادا ، أو مما لا يشك فيه ولم ينسخ ولا حرف منه» ”یعنی رفع الیدین کی حدیث سند اور عمل دونوں لحاظ سے متواتر ہے۔ جس میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا، اس میں سے ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔“[46]
- مولانا عبد الحئی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”حق یہ ہے کہ رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کثیر صحابہ کرا رضی اللہ عنہم سے قوی طرق اور اخبار صحیحہ کی بناء پر رفع الیدین کے ثبوت میں کوئی شک نہیں۔ “[47]
درج ذیل صحابہ کرام نے رفع الیدین کی مرفوع روایت بیان کی ہے:
- عبد اللہ بن عمر[48]
- مالک بن حویرث[49]
- وائل بن حجر[50]
- ابو حمید الساعدی[51]
- ابو قتادہ[52]
- سہل بن سعد[53]
- ابو اسید الساعدی[53]
- محمد بن مسلمہ[53]
- ابو بکر صدیق[54]
- عمر بن خطاب[55]
- علی بن ابی طالب[56]
- ابو ہریرہ[57]
- ابو موسیٰ اشعری[58]
- عبد اللہ بن زبیر[59]
- جابر بن عبد اللہ[60]
- انس بن مالک[61]
درج ذیل تابعین، فقہاء سے بسند صحیح رکوع سے پہلے اور بعد میں رفع الیدین کرنا ثابت ہے:[62]
- حسن بصری[63]
- عطاء بن ابی رباح (استاد امام ابوحنیفہ )[64]
- طاؤس (شاگرد ابن عباس رضی الله عنہ )[65]
- مجاہد[66]
- نافع (مولی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ استادامام مالک)[67]
- سالم[68]
- سعید بن جبير رحمہ اللہ[69]
- ابو قلابه[70]
- عبد اللہ بن ابی نجیح[71]
- حسن بن مسلم[72]
- عبد اللہ بن دینار[73]
- قاسم بن محمد[74]
- عمر بن عبد العزيز[75]
- قیس بن سعد[76]
- محمد بن سیرین[77]
- مکحول[78]
علماء اہل سنت ، ائمہ کرام اور فقہائے عظام رحمہ اللہ سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے:[79]
رفع الیدین کا ثواب
- نعمان بن ابی عیاش رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہر چیز کے لیے زینت ہوتی ہے، اور نماز کی زینت رفع الیدین ہے۔[94]
- ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”نماز میں رفع الیدین کرنا نماز کی تکمیل کا باعث ہے۔ “[95]
- امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو مقصد تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کا ہے، وہی مقصد رکوع کو جاتے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کا ہے اور یہ کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے۔ “[96]
- سیدنا عقبہ بن عامر رضی الله عنہ مرفوعاً بیان فرماتے ہیں کہ: ” نماز میں جو شخص رفع الیدین کرتا ہے تو اس کے لیے ہر ایک اشارے کے بدلے ایک انگلی پر ایک نیکی یا درجہ ملتا ہے۔ “[97] سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام اسحاق بن راہویہ، امام احمد بن حنبل، علامہ ہیثمی اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی رفع الیدین کے متعلق قرار دیا ہے، لہذا یہی بات صحیح ہے۔[98]
- سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” آدمی اپنی نماز میں اپنے ہاتھ کے ساتھ جو اشارہ کرتا ہے اس کے عوض اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، ہر انگلی کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے۔ “[99]
- سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رفع الیدین نماز کی زینت ہے، ایک مرتبہ رفع الیدین کرنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں ، ہر انگلی کے بدلے ایک نیکی۔[100]
- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”رفع الیدین کرنا نیکیوں کو بڑھا دیتا ہے۔ “[101]
رفع الیدین نہ کرنے کے دلائل
رکوع میں جانے سے پہلے، رکوع سے سے اٹھانے کے بعد اور تیسری رکعت سے اُٹھنے کے بعد رفع یدین کرنا پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ ہے[102] حافظ ذہبی رحمہ اللہ (م: 748ھ) نے رفع الیدین کو ”سنت متواترہ“ قرار دیا ہے۔[103] علامہ زرکشی لکھتے ہیں: وفي دعوي أن أحاديث الرفع فيما عدا التحريم لم تبلغ مبلغ التواتر نظر، وكلام البخاري في كتاب رفع اليدين مصرح ببلوغھا ذلك.”یہ دعویٰ محل نظر ہے کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین کی احادیث تواتر تک نہیں پہنچیں، کتاب (جز رفع الیدین) میں امام بخاری کی کلام ان کے تواتر تک پہنچنے کی صراحت کرتی ہے۔[104] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وفي دعوي ابن كثير أن حديث رفع اليدين في أول الصلاة دون حديث رفع اليدين عندالركوع متواتر نظر، فان كل من روي الأول روي الثاني الا اليسير.”حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا یہ دعویٰ محل نظر ہے کہ نماز کے شروع میں رفع الیدین متواتر ہے، رکوع کے وقت متواتر نہیں، بلکہ سوائے ایک دو راویوں کے ہر وہ راوی جس نے پہلی رفع الیدین بیان کی ہے، اس نے دوسری رفع الیدین بھی بیان کی ہے۔[105] تاہم جو لوگ اس کے قائل نہیں، ان کی جانب سے درج زیل روایات بطور دلیل پیش کی جاتی ہیں:
- "عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود". (شرح معاني الآثار، للطحاوي 1/ 132، جدید 1/ 290، رقم: 1316) ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔
- "عن المغیرة قال: قلت لإبراهيم: حدیث وائل أنه رأی النبي صلی الله علیه وسلم یرفع یدیه إذا افتتح الصلاة وإذا رکع وإذا رفع رأسه من الرکوع، فقال:إن کان وائل رآه مرةً یفعل ذلك فقد رآه عبد الله خمسین مرةً لایفعل ذلك". (شرح معاني الآثار، للطحاوي 1/ 132، جدید 1/ 290، برقم: 1318) ترجمہ: حضرت مغیرہؒ نے حضرت امام ابراہیم نخعیؒ سے حضرت وائل ابن حجرؒ کی حدیث ذکر فرمائی کہ حضرت وائل بن حجرؒ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جب نماز شروع فرماتے اور جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس پر ابراہیم نخعیؒ نے مغیرہ سے کہا کہ اگر وائل بن حجرؓ نے حضور ﷺ کو اس طرح رفع یدین کرتے ہوئے ایک مرتبہ دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضور کو پچاس مرتبہ رفع یدین نہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (کیوں کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ مدینہ کے رہائشی نہ تھے، بلکہ اسلام قبول کرنے کے بعد چند دن مدینہ منورہ میں رہ کر اسلامی تعلیمات سیکھ کر تشریف لے گئے تھے، جب کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سفر وحضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے والے، آپ ﷺ کے خادمِ خاص بھی تھے اور لسانِ نبوت سے علم و فضل کی سند بھی حاصل کرچکے تھے اور آپ ﷺ نے امت کو ان کی پیروی کا حکم بھی دیا ہے، نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ان سے علم حاصل کرتے تھے اور فتویٰ لیتے تھے، حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر اور اصحابِ فضل و علم صحابہ کرام نے ان کے کمالِ علم کی تعریف فرمائی۔)[حوالہ درکار]
- "عن جابر بن سمرة قال: خرج علینا رسول الله صلی الله علیه وسلم فقال: مالي أراکم رافعی أیدیکم کأنها أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلاة". (صحیح مسلم 1/ 181) ترجمہ : حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف تشریف لاکر فرمایا : مجھے کیا ہو گیا کہ میں تم لوگوں کو نماز کے اندر اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، گویا کہ ایسا لگتا ہے جیسا کہ بے چینی میں گھوڑے اپنی دم کو اوپر اٹھا اٹھا کر ہلاتے ہیں، تم نماز کے اندر ایسا ہرگز مت کیا کرو، نماز میں سکون اختیار کرو۔
- "عن علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود ألا أصلي بکم صلاة رسول الله صلی الله علیه وسلم، فصلی فلم یرفع یدیه إلا في أول مرة". ( جامع الترمذي 1/ 59، جدید برقم: 257، أبوداؤد شریف 1/ 109، جدید برقم: 748) ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ تم آگاہ ہوجاؤ! بے شک میں تم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاکر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھائی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف اول تکبیر میں اٹھایا پھر پوری نماز میں نہیں اٹھایا۔
- "عن علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود ألاَ أصلّي بکم صلاة رسول الله صلی الله علیه وسلم قال: فصلی فلم یرفع یدیه إلا مرةً واحدةً". (سنن النساائي 1/ 120، جدید رقم: 1059، أبوداؤد قدیم 1/ 109، جدید برقم: 748، ترمذي قدیم 1/ 59، جدید رقم: 257) ترجمہ: حضرت علقمہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ آگاہ ہوجاؤ! میں تمھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازپڑھ کر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھی تو اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف ایک مرتبہ اٹھایا پھر نہیں اٹھایا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے اور صحابہ تابعین تبع تابعین اور بے شمار محدثین اور علما نے اس حدیث شریف کو اختیار فرمایا[حوالہ درکار] اور یہی امام سفیان ثوری (جلیل القدر محدث) اور اہلِ کوفہ نے کہا ہے۔ "قال أبو عیسیٰ: حدیث ابن مسعود حدیث حسن، وبه یقول غیر واحد من أهل العلم من أصحاب النبي والتابعین، وهو قول سفیان وأهل الکوفة". ( جامع الترمذي 1/ 59، )
- "عن علقمة عن عبد الله بن مسعود قال: صلیت خلف النبي صلی الله علیه وسلم، وأبي بکر وعمرفلم یرفعوا أیدیهم إلا عند افتتاح الصلاة." (السنن الکبری للبیهقي 2/ 80، 2/ 79، نسخه جدید دارالفکر بیروت 2/ 393 برقم: 2586) ترجمہ: حضرت علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابن مسعودؓ نے فرمایا: میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی ہے ان میں سے کسی نے اپنے ہاتھوں کو تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ کسی اور تکبیر میں نہیں اٹھایا۔ (معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما جو باتفاقِ امت سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل ہیں اور دنیا و آخرت میں آپ ﷺ کے مصاحب ہیں، صحابہ کرام میں سب سے اَعلم ہیں انھوں نے حضور ﷺ کی نماز سے سنت اسی کو سمجھا کہ تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین نہ کیا جائے۔ آگے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل بھی بحوالہ آرہاہے[حوالہ درکار] کہ وہ بھی تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین نہیں کرتے تھے[حوالہ درکار]، گویا خلفاءِ راشدین مہدیین رضی اللہ عنہم کا عمل ترکِ رفع یدین ہے[حوالہ درکار] اور آپ ﷺ نے ہمیں خلفاءِ راشدین کا طریقہ اختیار کرنے کا بھی حکم فرمایا ہے، اگر حضور ﷺ سے رفعِ یدین کے بارے میں صریح روایت نہ بھی منقول ہوتی اور خلفاءِ راشدین کا عمل اسی طرح ہوتا تو بھی یہ ترکِ رفع کے سنت ہونے کی کافی دلیل تھی[حوالہ درکار]، کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین کے حوالے سے کوئی بات بلادلیل نہ کہتے تھے نہ عمل کرتے تھے
دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین
محدثین رفع الیدین بین السجدتین پر بھی احادیث اپنی کتب میں لائے ہیں، لیکن علما کا احادیث کے درمیان تطبیق سے متعلق اختلاف ہے کہ ابن عمر کی روایت میں سجدوں کے دوران رفع الیدین کی ممانعت ہے،[106][107] جبکہ انس اور مالک بن حویرث والی روایت کا مطلب یہ ہے کہ سجدوں میں بھی رفع الیدین کیا جاتا تھا۔ چنانچہ کچھ علما کہتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی سجدوں کے درمیان بھی رفع الیدین کر لیا کرتے تھے، لیکن اکثر نہیں کرتے تھے۔[108]
- ”مالک بن حویرث بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع و سجدوں میں اپنے ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اُٹھاتے تھے۔“[109]
- انس بن مالک سے مروی ہے کہ: ”نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع اور سجود میں رفع الیدین کرتے تھے“۔[110][پ]
- موسیٰ بن اسماعیل نے حدیث بیان کی۔ ہمیں حماد بن سلمہ نے یحیی بن (ابی) اسحاق سے حدیث بیان کی۔ انھوں نے کہا ”میں نے انس بن مالک کو دیکھا آپ دونوں سجدوں کے درمیان ہاتھ اٹھا رہے تھے۔“[112] (امام) بخاری نے فرمایا: (میرے نزدیک) نبی صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث زیادہ راجح ہے۔[ت]
- ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت تکبیر تحریمہ کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک بلند کرتے، پھر جب رکوع کرتے تو اس وقت بھی ہاتھوں کو کانوں کے برابر بلند کرتے اور جب رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو تب بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے، جب آپ سجدہ کرتے اور جس وقت سجدے سے سر اٹھاتے تب بھی اپنے ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھاتے۔“[113] اس پر حافظ ابن حجر نے کہا "سجود میں رفع الیدین کرنے سے متعلق صحیح ترین روایت نسائی کی ہے۔"[114]
ترک رفع الیدین
احناف اور جمہورِ مالکی[حوالہ درکار] ترک رفع الیدین کے قائل ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ رفع یدین والی احادیث دیگر ان احادیث سے معارض ہیں[حوالہ درکار] جن میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین چھوڑنے کا ذکر ہے:
- براء بن عازب سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاتے اور پھر ایسا نہ کرتے تھے۔[115]
اس حدیث کو سفیان بن عیینہ، محمد بن ادریس شافعی، امام بخاری کے استاد عبد اللہ بن زبیر حمیدی، احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، عبد الرحمن دارمی اور امام محمد بن اسماعیل بخاری سمیت جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔[116][117] اس کا راوی یزید بن ابی زیاد جمہور کے نزدیک ضعیف ہے[118][119][120][121] اور اس پر شیعہ ہونے کا بھی الزام تھا۔[122]
- عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ: ”کیا میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟“ تو انھوں نے نماز پڑھائی اور انھوں نے صرف ایک بار رفع یدین کیا۔[123]
اس حدیث کو عبد اللہ بن مبارک،[124][125][126] احمد بن حنبل،[ٹ] محمد بن اسماعیل بخاری، ابو بکر بیہقی اور علی بن عمر دار قطنی سمیت جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔[128][129][127] جبکہ اس موقف کے برعکس امام نیموی نے آثار السنن میں اس ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے،اسی طرح آثار السنن میں صحیح سند کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے درج ہے کہ وہ بھی صرف پہلی تکبیر میں ہی رفع یدین کرتے تھے،اسی طرح آثار السنن میں یہ بھی ہے کہ خلفاء راشدین صرف تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہی رفع یدین کرتے تھے۔[130] [غیر معتبر مآخذ؟]
احناف اور مالکی اکثریت[حوالہ درکار] کا یہ موقف ہے کہ صِرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہی رفع الیدین کرنا نماز کی سنت میں سے ہے، جبکہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ تمام تکبیروں میں رفع الیدین کو غیر شرعی عمل قرار دیتے ہیں۔[131]حنفی علما اس موقف کے لیے ابو حنیفہ سے مروی روایت کو دلیل بناتے ہیں۔[132] جبکہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین سے متعلق مجموعہ احادیث کو حنفی منسوخ سمجھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رفع الیدین آخری عمر میں ترک کر دیا تھا، شروع میں آپ رفع الیدین کرتے رہے ہیں۔[133] زیدیہ بھی رفع یدین کے قائل نہیں، صرف تکبیر تحریمہ کے ساتھ کرتے ہیں۔[134]
علما کی آرا
- عبد اللہ بن مبارک: جو شخص نماز میں ہاتھ اٹھاتا (رفع الیدین کرتا) ہے تو اُس کی حدیث ابن عمر ثابت ہے جسے زہری نے بواسطہ سالم اُن کے والد سے روایت کیا۔ سیدنا ابن مسعود کی وہ حدیث[ث] ثابت ہی نہیں ہے کہ نبی ﷺ صِرف نماز کے آغاز میں ہی ہاتھ اٹھاتے تھے۔[135]
- محمد بن ادریس شافعی: ”علی اور ابن مسعود سے یہ (رفع الیدین نہ کرنے والی روایت) ثابت نہیں ہے۔“[ج][136] اور ایک مرتبہ فرمایا کہ ”رفع الیدین کا مطلب یہ ہے کہ تعظیم الٰہی اور اتباع سنت نبوی کی جائے، پہلی جگہ رفع الیدین کرنے کا بھی وہی مطلب ہے جو دیگر جگہوں یعنی رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کرنے کا ہے، جنہیں تم تسلیم نہیں کرتے، مزید برآں (رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع الیدین نہ کر کے) تم نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابن عمر سے مروی شدہ روایت کی مخالفت کی ہے، نیز اس عمل کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تیرہ یا چودہ افراد نقل کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کئی صحابہ کرام سے متعدد اسانید کے ذریعے رفع الیدین کا ثبوت ملتا ہے، لہذا جو شخص رفع الیدین نہیں کرتا وہ سنت ترک کرنے والا ہے۔“[137][138]
- علی بن مدینی: ”اس حدیث[چ] کی وجہ سے مسلمانوں پر حق بنتا ہے کہ وہ رفع الیدین کریں۔“[139]
- احمد بن حنبل: ”جو لوگ رفع الیدین نہیں کرتے، ان کی نماز فی نفسہ نقص والی (ناقص) ہے۔“[140][141]
- محمد بن یحیٰی الذہلی: ”جو شخص یہ حدیث سن لے اور پھر رکوع سے پہلے سر اٹھانے کے بعد رفع الیدین نہ کرے، اس کی نماز ناقص ہے۔[142]
- محمد بن اسماعیل بخاری: ”نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھوں نے رفع یدین نہیں کیا۔“[143][144]
- ابو داؤد: انھوں نے بھی سیدنا ابن مسعود کی اسی حدیث پہ لکھا: ”یہ حدیث اِن الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں۔“[145]
- ابو الحسن علی بن عمر دار قطنی: میں نے ابو جعفر احمد بن اسحاق بن بہلول کو بیان کرتے سنا اور انھوں نے ہمیں یہ روایت املا کرائی۔ انھوں نے فرمایا: ”میرا مذہب اہل عراق والا تھا۔ مجھے خواب میں نبی ﷺ کی زیارت ہوئی تو آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، تو میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ پہلی تکبیر میں پھر جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے تھے“۔[146]
- غزالی نے اپنی تصنیف کیمیائے سعادت میں رفع الیدین کے ساتھ نماز کا طریقہ لکھا ہے۔[147]
- عبد القادر جیلانی نے اپنی تصنیف غُنیۃُ الطابین میں رفع الیدین کو ہیئات نماز میں لکھا ہے۔[148]
معتدل
- شاہ ولی اللہ دہلوی: ”رفع الیدین ان ہیئات مستحبہ میں سے ہے جن کو کبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمل میں لائے اور کبھی ان کو ترک کیا ہے۔ چنانچہ اس کا فعل اور ترک دونوں سنت ہیں اور ہر ایک صحابہ اور تابعین اور دیگر علمائے مجتہدین کی ایک جماعت نے عمل کیا۔ اور بہت ممکن ہے کہ ابن مسعود کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ آپ ص کا آخری عمل رفع نہ کرنا تھا۔ کیونکہ یہ نظریہ وہ آنحضرت ص سے اخذ کر چکے تھے کہ نماز کی بنا اعضا کے سکون پر ہے۔ لیکن یہ نکتہ ان کی نظر سے اوجھل رہا کہ رفع یدین ایک فعل تعظیمی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نماز کے آغاز پر اس کا عمل میں لانا سب کے نزدیک بالاتفاق سنت ہے یا ممکن ہے کہ ان کا خیال ہو کہ رفع یدین میں ترک کا اشارہ پایا جاتا ہے اس لیے نماز کے دوران میں اس کا عمل میں لانا مناسب نہیں۔ لیکن یہ بات شاید ان کی سمجھ میں نہ آئی کہ ترک ماسوائے اللہ کے اشارہ کو بار بار دہرانا اور ہر ایک فعل تعظیمی کی ابتدا اسی سے کرنا نماز کے اصول مطلوبہ میں سے ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم“[149]
- رشید احمد گنگوہی: ”جو سنت کی محبت سے بلاشر و فساد آمین بالجہر اور رفع الیدین کرے، اس کو برا نہیں جانتا۔“[150]
مزید دیکھیے
حواشی
- ↑ جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے۔
- ↑ عربی متن کے منهم سے ظاہر ہے کہ یہاں سترہ صحابہ کے پورے نام نہیں ہیں واللہ علم، اگر درج بالا صحابہ کرام کے ساتھ عمر، علی اور ام الدرداء کو بھی شامل کیا جائے تو سترہ کی تعداد پوری ہو جاتی ہے۔
- ↑ شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔[111]
- ↑ سجود کے درمیان رفع الیدین نہ کرنا
- ↑ یہ محمد بن جابر ہے، اس کی حدیث کیا ہے؟ یہ ایک منکر حدیث ہے، میں اسے سخت منکر سمجھتا ہوں۔[127]
- ↑ جامع ترمذی: 257
- ↑ یعنی ابن مسعود اور علی سے جو نقل کیا جاتا ہے کہ آپ دونوں نماز میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی جگہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے، یہ ثابت نہیں ہے۔
- ↑ صحیح بخاری: 739
حوالہ جات
- ↑ صحیح بخاری 735
- ↑ صحیح مسلم 390
- ↑ جزء رفع الیدین از محمد بن اسماعیل بخاری، مترجم زبیر علی زئی ص 32
- ↑ مسند احمد بن حنبل 1 /93 ح 717
- ↑ سنن ترمذی 3423
- ↑ صحیح ابن خزیمہ 584
- ↑ عمدۃ القاری 5/ 277
- ↑ سیر اعلام النبلاء، ج 8، ص 168، 170
- ↑ نور العینین از زبیر علی زئی ص 83 — 84
- ↑ جزء رفع الیدین از محمد بن اسماعیل بخاری، مترجم زبیر علی زئی ص 33
- ↑ صحيح مسلم : 173/1، ح : 401
- ↑ سنن ابن ماجة : 868
- ↑ سنن الدار قطني : 292/1، ح : 1111
- ↑ [التلخيص الحبير : 219/1]
- ↑ صحيح بخاري : 102/1، ح : 737، صحيح مسلم : 168/1، ح : 391
- ↑ مسند الامام احمد : 424/5، سنن التر مذي : 304
- ↑ علی زئی، حافظ زبیر (24/08/2014)۔ "حدیثِ ابو حمید الساعدی سے متعلق سند کی تحقیق"۔ توحید ڈاٹ کام۔ اخذ شدہ بتاریخ 28/08/2024
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|access-date=
و|date=
(معاونت)صيانة الاستشهاد: url-status (link) - ↑ السنن الكبرى للبيهقي: 73/2ـ التلخيص الحبير: 219/1 ـ المهذب فى اختصار السنن الكبير للذهبي: 49/2۔ امام بیہقی نے اس کے راویوں کو ”ثقہ“ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی اور ابن حجر نے ان کی موافقت فرمائی ہے۔
- ↑ [صحيح ابن خزيمه كتاب الصلاة، باب رفع اليدين عند القيام من الجلسه فى الركعتين الاولين للتشهد، رقم: 693۔ ابن خزيمه نے اس كو ”صحيح“ كها هے۔]
- ↑ [مسند ابي يعلي: 424/6 – 425 – جزء رفع اليدين للبخاري: 7/8۔ سنن ابن ماجه، كتاب اقامة الصلوات والسنة فيها، رقم: 866- سنن دار قطني: 290/1۔ شيخ الباني نے اسے ”صحيح“ كہا هے۔
- ↑ السنن الكبرى للبيهقي: 23/2
- ↑ التعليق المغني، ص: 111۔ جزء رفع يدين سبكي، ص: 9
- ↑ جزء رفع اليدين: 48، 34 49 – السنن الكبرى للبيهقي: 75/2 ، رقم: 2525، 2524
- ↑ جزء رفع اليدين، ص: 108 ـ مصنف ابن ابي شيبه: 435/1۔ سنن الكبرى للبيهقي: 75/2۔ المحلي، لابن حزم: 89/4
- ↑ جزء رفع اليدين، ص: 108
- ↑ سنن دار قطني، كتاب الصلاة: 1/ 292 – الاوسط، لابن المنذر: 138/3 – حافظ ابن حجر نے كها هے كه اس كے راوي ثقه هيں۔
- ↑ جزء رفع اليدين للبخاري، ص: 152
- ↑ جزء رفع اليدين، ص: 59
- ↑ مصنف عبدالرزاق: 69/22۔ التمهيد: 228/9
- ↑ جزء رفع الیدین از محمد بن اسماعیل بخاری، مترجم زبیر علی زئی ص 45
- ↑ فتح الباري شرح صحيح بخاري للحافظ ابن حجر: 220/1، باب رفع اليدين
- ↑ التمهيد: 222، 213/2
- ↑ سنن ترمذي: 27/2، طبع بيروت
- ↑ تاريخ دمشق: 134/55
- ↑ طبقات الشافعية الكبرى: 242/1
- ↑ كتاب الأم: 91/1
- ↑ اعلام الموقعين، ص: 257
- ↑ المنهج لأحمد: 1/ 159
- ↑ جزء رفع اليدين: 560 ، السنن الكبرى للبيهقي: 74/2 ، رقم: 2523
- ↑ جزء رفع اليدين، ص: 132
- ↑ جزء رفع اليدين، ص: 34
- ↑ اعلام الموقعين (اردو): 523/1
- ↑ غنية الطالبين
- ↑ حجة الله البالغه: 2/ 10
- ↑ تسهيل القارى
- ↑ نيل الفرقدين، ص: 22
- ↑ التعليق الممجد: 91
- ↑ صحیح بخاری، صحیح مسلم و جزء رفع الیدین: 2
- ↑ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور جزء رفع الیدین: 7
- ↑ صحیح مسلم اور جزء رفع الیدین: 10
- ↑ صحیح ابن حبان اور جزء رفع الیدین: 3
- ↑ جزء رفع الیدین: 3
- ^ ا ب پ جزء رفع الیدین: 5
- ↑ السنن الکبریٰ بیہقی 2/ 3 اور منتقی حدیث العبدوی 2/ 316 ح 24
- ↑ الخلافیات البیہقی اور نور العینین ص 194 ۔ 203 طبع دوم
- ↑ جزء رفع الیدین: 1
- ↑ صحیح ابن خزیمہ: 295، 294
- ↑ سنن دار قطنی 1/ 296
- ↑ السنن الکبریٰ بیہقی 2/ 73
- ↑ سنن ابن ماجہ: 868 اور مسند السراج: 92
- ↑ ابو یعلیٰ فی مسندہ: 3793 اور جزء رفع الیدین: 8
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، باب رفع اليدين عند الركوع، رقم: 256, جزء رفع اليدين للإمام البخاري: 63، 56، 64
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، باب رفع اليدين عند الركوع، رقم: 256
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، باب رفع اليدين عند الركوع، رقم: 256
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، باب رفع اليدين عند الركوع، رقم: 256
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، باب رفع اليدين عند الركوع، رقم: 256
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، باب رفع اليدين عند الركوع، رقم: 256
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، باب رفع اليدين عند الركوع، رقم: 256
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، باب رفع اليدين عند الركوع، رقم: 256
- ↑ جزء رفع اليدين للإمام البخاري: 63، 56، 64
- ↑ جزء رفع اليدين للإمام البخاري: 63، 56، 64
- ↑ جزء رفع اليدين للإمام البخاري: 63، 56، 64
- ↑ جزء رفع اليدين للإمام البخاري: 63، 56، 64
- ↑ جزء رفع اليدين للإمام البخاري: 63، 56، 64
- ↑ جزء رفع اليدين للإمام البخاري: 63، 56، 64
- ↑ جزء رفع اليدين للإمام البخاري: 63، 56، 64
- ↑ جزء رفع اليدين للإمام البخاري: 63، 56، 64
- ↑ جزء رفع اليدين للإمام البخاري: 63، 56، 64
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، رقم: 256
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، رقم: 256
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، رقم: 256
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، رقم: 256
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، رقم: 256
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، رقم: 256
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، رقم: 256
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، رقم: 256
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، رقم: 256
- ↑ سنن ترمذي، كتاب الصلاة، رقم: 256
- ↑ السنن الكبرى للبيهقي، باب رفع اليدين عند الركوع وعند رفع الأس منه، رقم: 2356
- ↑ السنن الكبرى للبيهقي، باب رفع اليدين عند الركوع وعند رفع الأس منه، رقم: 2356
- ↑ السنن الكبرى للبيهقي، باب رفع اليدين عند الركوع وعند رفع الأس منه، رقم: 2356
- ↑ السنن الكبرى للبيهقي، باب رفع اليدين عند الركوع وعند رفع الأس منه، رقم: 2356
- ↑ السنن الكبرى للبيهقي، باب رفع اليدين عند الركوع وعند رفع الأس منه، رقم: 2356
- ↑ جزء رفع اليدين ، ص: 59
- ↑ جزء رفع اليدين، ص: 17
- ↑ كتاب الأم: 91/1۔ السنن الكبرى للبيهقي: 82/2
- ↑ الـفـوائـد للبحيرى ق2/39۔ مسند الفردوس، للديلمي: 344/4ـ معجم كبير، للطبراني: 297/7 ـ مجمع الزوائد: 103/2۔ سلسلة الصحيحة: رقم: 3286
- ↑ معرفة السنن والآثار للبيهقي: 225/1
- ↑ طبراني كبير: 297/17 ـ سلسلة الصحيحة، رقم: 3286
- ↑ طحاوي: 152/1
- ↑ كتاب الصلاة، ص: 56
- ↑ صدیقی، ابو حمزہ عبدالخالق (August 25, 2024)۔ "رفع یدین کے سنت متواترہ ہونے کا ثبوت"۔ توحید ڈاٹ کام۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست، 2024
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|access-date=
(معاونت)صيانة الاستشهاد: url-status (link) - ↑ سير اعلام النبلاء: 293/5
- ↑ المعتبر في تخريج احاديث المنھاج والمختصر للزركشي: 136
- ↑ موافقة الخبر الخبر لابن حجر: 409/1
- ↑ صحیح بخاری 735
- ↑ صحیح مسلم 390
- ↑ فتح الباری از ابن رجب 6/ 354
- ↑ مسند احمد بن حنبل: 20014
- ↑ مصنف ابن ابی شیبہ: 2449
- ↑ ارواء الغلیل از البانی 2/68
- ↑ جزء رفع الیدین از محمد بن اسماعیل بخاری، مترجم زبیر علی زئی ص 105 – 106
- ↑ سنن نسائی: 1085
- ↑ فتح الباری از ابن حجر عسقلانی 2/ 223
- ↑ سنن ابی داؤد 749
- ↑ ہدی الساری از ابن حجر عسقلانی 459
- ↑ مصباح الزجاجہ فی زوائد ابن ماجہ از شہاب الدین بوصیری 2/ 549
- ↑ سؤالات ابی بکر برقانی از دارقطنی 561
- ↑ سیر اعلام النبلاء از شمس الدین ذہبی 6/ 129
- ↑ الجرح والتعدیل از ابن ابی حاتم 9/ 265
- ↑ تاریخ ابن معین 3144
- ↑ تقریب التہذیب از ابن حجر عسقلانی 7717
- ↑ سنن ابی داؤد 748
- ↑ سنن ترمذی، تحت حديث 256
- ↑ سنن دارقطنی 1/ 393
- ↑ سنن الکبری از بیہقی 2/ 79
- ^ ا ب العلل از احمد بن حنبل 1/ 144
- ↑ سنن دارقطنی 1/ 295
- ↑ مجمع الزوائد ومنبع الفوائد از نور الدین ہیثمی 5/ 346
- ↑ "Hadees about namaz in urdu"۔ info in urdu۔ 27 نومبر 2022۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-11-29
- ↑ المبسوط از شمس الائمہ سرخسی 1 / 23
- ↑ المبسوط از شمس الائمہ سرخسی 1 / 24
- ↑ بدائع الصنائع از علاؤ الدین کاسانی 1 / 208
- ↑ مسند امام زید صفحہ 234
- ↑ جامع ترمذی: 256 کے تحت
- ↑ السنن الكبرى البيهقي، ج 2، الصفحة 81
- ↑ کتاب الام از شافعی 7/ 266
- ↑ اعلام الموقعین از ابن قیم الجوزیہ 2/ 288
- ↑ ابن الجوزي، الموضوعات من الأحاديث المرفوعات - ج 2، كتاب الصلاة 16، ص 388
- ↑ مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني ص 33
- ↑ المنهج الأحمد ج 1، ص 159
- ↑ صحيح ابن خزيمة : 298/1، وسنده صحيح
- ↑ كتاب المجموع شرح المهذب للشيرازي، لإمام أبي زكريا يحيى الدين بن شرف النووي، ج 3 – الصلاة، ص 368، مكتبة الإرشاد
- ↑ تلخيص الحبير للحافظ ابن حجر 1/221-223
- ↑ سنن ابو داؤد: 746 کے تحت
- ↑ سنن دار قطنی، امام ابو الحسن علی بن عمر دار قطنی، مترجم حافظ فیض اللہ ناصر، ج 1 ص 378، ادارہ اسلامیات لاہور – کراچی پاکستان
- ↑ کیمیائے سعادت از حجۃ الاسلام امام غزالی، مترجم: مولانا سعید احمد نقشبندی، اشاعت اول، ص 133، پروگریسیو بکس 40-بی اردو بازار لاہور
- ↑ غنیۃ الطالبین از سید شیخ عبد القادر جیلانی، مترجم حافظ مبشر حسین لاہوری، ص 61، نعمانی کتب خانہ، حق اسٹریٹ اردو بازار لاہور
- ↑ حجۃ اللہ البالغہ از شاہ ولی اللہ دہلوی، مترجم مولانا عبد الرحیم، ص 119، الفیصل ناشران و تاجران، اردو بازار لاہور
- ↑ تذکرۃ الرشید از محمد عاشق الٰہی 175/2