وادی گوجال، شمالی علاقہ جات کی ایک اہم وادی ہے۔

تعارف اورمحل وقوع ترمیم

 
بتورا گلیشیر

وادی گوجال چین اور افغانستان کے ساتھ واقع پاکستان کا سرحدی علاقہ ہے۔ چین کے ساتھ گوجال کی سرحد خنجراب کے مقام پر ملتی ہے جو سطح سمندرے11 فٹ بلندی پر ہونے کی وجہ سے سالہا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ گوجال کے سرحدی گاؤں، مسگر، بھی چین کے صوبے سنکیانگ کے ساتھ براہ راست منسلک ہے۔ شمال مغرب میں گوجال کا علاقہ چپورسن واقع ہے جس کی سرحدیں براہ راست افغانستان کے علاقے، واخان، سے لگتی ہیں۔ وخان کا علاقہ 2 میل چوڑا ہے، جس کے بعد تاجکستان کی سرحد شروع ہو تی ہے۔ پاکستان کو چین سے ملانے والی شاہراہ قراقرم بھی وادی گوجال سے گزرتے ہوئے خنجراب کے سیاحتی مقام پر چین میں داخل ہوتی ہے۔ اپنے جغرافیائی خصوصیات کی بنیاد پر وادی گوجال دفاعی اور کاروباری اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔


انتظامی تاریخ اور بندوبست ترمیم

#سے قبل وادی گوجال ریاست ہنزہ کا حصہ تھا اور اس علاقے پر ریاست ہنزہ کے والی کی حکومت تھی۔ ریاست ہنزہ میں وادی گوجال کو دفاعی اور زراعتی اعتبار سے اہم مقام حاصل تھا۔ وادی گوجال کا ایک گاؤں، گلمت (گل مت) ریاست ہنزہ کے گرمائی صدر مقام کی حیثیت رکھتاتھا اور میر آف ہنزہ یہاں پر دربار بھی منعقد کرتا تھا، جس میں مقدمات کے فیصلے سنانے کے علاوہ مختلف مسائل پر گفت و شنید بھی کی جاتی تھی۔ میر آف ہنزہ کے دربار میں علاقائی رقص و موسیقی کا بندوبست بھی کیا جاتا تھا، جبکہ محل کے سامنے موجود مخصوص مستطیل میدان میں علاقے کا مشہور کھیل، پولو، بھی کھیلا جاتا تھا۔

1947 میں پاکستان وجود میں آیا جس کے بعد والی ہنزہ، میر محمد غزن خان نے گلمت سے ایک ٹیلیگرام کے ذریعے اپنی ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ کیا۔ الحاق کے باوجود وادی ہنزہ ایک الگ ریاست کے طور پر 1947 تک اپنی جداگانہ شناخت قائم رکھ سکی۔ تاہم، 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت کی سیاسی اصلاحات کے نتیجے میں سقوط ریاست ہنزہ واقع ہوا اور تب سے لے کر آج تک وادی گوجال انتظامی طور پر ایک تحصیل کی حیثیت سے گلگت بلتستان کے سب ڈویزن ہنزہ میں شامل ہے۔ مقامی سطح پر اسے بالائی ہنزہ بھی کہا جاتا ہے، تاہم سرکاری کاغذات میں علاقے کا نام "گوجال" ہے۔

گوجال کے باسی ترمیم

وادی گوجال کی آبادی 30ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس علاقے میں تین ثقافتی گروہ آباد ہیں، جن میں زیادہ تعداد وخی زبان بولنے والوں کی ہے۔ گوجال میں وخی کے علاوہ بروشو نسل کے لوگ بھی آباد ہیں، جن کی مادری زبان بروشسکی کہلاتی ہے۔ ایک اور منفرد ثقافتی گروہ ڈوماکی زبان بولنے والوں کی ہے، جو تعداد میں بہت کم ہیں اور ان کی زبان اور ثقافت کو شدید اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہیں۔ گوجال میں آباد سو فیصد افراد مسلمان ہیں اور آبادی کا ٩٩ فیصد شعیہ اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتا ہے اور یہ پرنس کریم آغا خان کو اپنا موروثی امام مانتے ہیں۔

گوجال کے دیہات ترمیم

وادی گوجال بنیادی طور پر چھوٹے دیہاتوں پر مشتمل ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ مرکزی ہنزہ کے قصبے، علی آباد سے شمال کی جانب جاتے ہوئے وادی گوجال کے دیہات درج ذیل ترتیب میں واقع ہیں۔

قدرتی وسائل ترمیم

وادی گوجال رقبے کے لحاظ سے گلگت بلتستان کی سب سے بڑی تحصیل ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ خطہ ارضی اپنے دامن میں خزینے مدفون رکھتی ہے، جن سے فائدہ اٹھانے کی سنجیدہ کوشش ابھی تک نہیں کی گئی ہے۔ معدنی وسائل کے اعتبار سے گوجال کا سب سے امیر علاقہ وادی چپورسن ہے جہاں کوئلے کی وافر مقدار میں موجودگی کا انکشاف چند سال پہلے ہوا تھا، تاہم کوئلے کی کان کنی اس وقت نہیں ہو رہی۔

بین الاقوامی اقتصادی گزرگاہ ترمیم

پاکستان اور چین کی حکومتوں نے گذشتہ چند سالوں کے دوران اقتصادی تعاون بڑھانے اور چینی مصنوعات کو براستہ پاکستان عالمی منڈی تک پہنچانے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں، جن میں سب سے اہم اقدام بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ایک جدید بندرگاہ کی تعمیر ہے۔ پچھلے سال اس بندرگاہ کو چین کے ایک کمپنی کے حوالے کر دیا گیا گیا ہے تاکہ وہ اس کا انتظام و انصرام سنبھال سکے۔ گوادر تک زمینی راستے سے مصنوعات پہنچانے کے لیے شاہراہ قراقرم (شاہراہ ریشم) کلیدی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ شاہراہ قراقرم کے علاوہ ان دو ممالک کے درمیان کوئی دوسرا زمینی راستہ نہیں ہے۔

پاکستان کے سابق صدور، جنرل (ر) مشرف اور آصف علی زرداری کے دور سے شروع ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان اور چین کی حکومتیں شاہراہ قراقرم کی استعداد بڑھاکر اس پوری وادی کو بطور "اقتصادی راہداری" استعمال کرنے کے ایک بہت بڑے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔

انیس سو اسی کی دہائی میں پاکستان اور چین کے باہمی اشتراک سے بننے والی اس سڑک کی حالت کو بہتر بنانے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم بڑھانے کے لیے پچھلے آٹھ سالوں سے شاہراہ قراقرم کی مرمت اور توسع کا کام جاری ہے۔ اس منصوبے پر عملدرآمد کے بعد وادی گوجال عملا ایک اقتصادی راہداری میں بدل جائیگا، جس کے علاقے کی معیشت، ثقافت اور رسم و رواج کے ساتھ ساتھ سماجی اور قدرتی ماحول پر انتہائی دور رس منفی اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔