وزیر الحسن عابدی

فارسی زبان و ادب کے عالم، پروفیسر ، محقق اور مترجم

پروفیسر سید وزیر الحسن عابدی (پیدائش: یکم اگست، 1913ء- وفات: 29 جون، 1979ء) فارسی زبان و ادب کے ممتازعالم، اورینٹل کالج لاہور میں فارسی کے پروفیسر ، غالب شناس، محقق اور مترجم تھے۔

وزیر الحسن عابدی
معلومات شخصیت
پیدائش 1 اگست 1913ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بجنور ضلع ،  اتر پردیش   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 29 جون 1979ء (66 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن میانی صاحب قبرستان   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دہلی یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ایم اے   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ پروفیسر ،  محقق   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت اورینٹل کالج لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

وزیر الحسن عابدی یکم اگست 1913ء کو موضع پیدی، بجنور، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔[1] ابتدائی تعلیم بجنور میں حاصل کی۔بی اے کا امتحان بطور پرائیویٹ امیدوار پاس کیا۔ اینگلو عربک سوسائٹی دہلی کے قائم کردہ اسکول (نزد اجمیری دروازہ دہلی) میں فارسی کے استاد مقرر ہوئے۔ 45-1944ء میں دہلی یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروفیسر ڈاکٹر عبادت بریلوی (سابق پرنسپل اورینٹل کالج لاہور جو ان دنوں دہلی یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو تھے) کی وساطت سے اینگلو عربک کالج میں فارسی کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ تقسیم ہند سے ا یک سال قبل وظیفہ پر اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی چھوڑ کر تہران یونیورسٹی چلے گئے۔ تہران یونیورسٹی میں پانچ سال زیرِ تعلیم رہے۔ وہاں پر ایم اے (فارسی ) کے علاوہڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنے میں مشغول ہو گئے۔ ابھی تہران ہی میں تھے کہ جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر کی دعوت پر یونیورسٹی اورینٹل کالج کے شعبہ فارسی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر تعینات ہو گئے۔ اس بنا پر اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ پیش نہ کر سکے۔ 1974ء میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر ملازمت سے ریٹائر ہو گئے۔ دوران تدریس ایم اے کی سطح پر 30 سے زائد طلبہ کی تحقیقی مقالات لکھنے میں رہنمائی کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد شعبہ تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند سے منسلک ہو گئے۔ کئی سال تک معمولی تنخواہ پر اس شعبہ میں کام کرتے رہے۔[2]

ادبی خدمات

ترمیم

وزیر الحسن عابدی فارسی زبان و ادبیات کے علاوہ الٰہیات، تاریخ، فلسفہ، نفسیات، جملیات، منطق، فقہ اور حدیث کے بھی عالم تھے۔ انھوں نے غالب کی دو نایاب کتابیں باغ دو در اور گل رعنا دریافت کر کے مع مفصل حواشی و تعلیقات کے ساتھ شائع کیں۔ اس کے علاوہ غالب کے جشن صد سالہ کے موقع پر غالب کی فارسی کتابوں کو بڑی محنت سے مرتب کیا۔ ان میں غزلیات فارسی، پنج آہنگ ، افادات غالب اور سبد چین خاص طور پر اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کا بہت تحقیقی کام اب بھی غیر مطبوعہ ہے، جو ان کے نا موافق معاشی حالات کے سبب شائع نہ ہو سکا۔[3] ان کی دیگر تصانیف و تالیفات میں مقالات منتخب، افادات غالب، یاد داشت ہائے مولوی محمد شفیع ، سید حسین، اقبال کے شعری مآخذ مثنوی رومی میں اور کوروش اعظم شامل ہیں۔ انھوں نے کلیات خسرو بھی مرتب کی۔ حکومت ایران نے انھیں نشان سپاس کا اعزاز عطا کیا۔[4]۔ اس کے علاوہ انھوں نے لا تعداد تحقیقی مضامین و مقالات تحریر کیے جو مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوئے۔

تصانیف و تالیفات

ترمیم

وفات

ترمیم

ڈاکٹر وزیر الحسن عابدی کی وفات بروز جمعہ 29 جون 1979ء کو لاہور میں ہوئی۔ ان کی آخری آرام گاہ میانی صاحب قبرستان میں ہے۔[5][1][4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات مشاہیر لاہور، قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، لاہور، 2018ء، ص 321
  2. پروفیسر ڈاکٹر نسرین اختر، تاریخ یونیورسٹی اورئینٹل کالج لاہور 1963ء-2001ء ، سنگت پبلشرز لاہور، 2006ء، ص 243
  3. تاریخ یونیورسٹی اورئینٹل کالج لاہور، ص 244
  4. ^ ا ب عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 480
  5. پروفیسر محمد اسلم، خفتگانِ خاکِ لاہور، ادارہ تحقیقات پاکستان، دانشگاہ پنجاب، لاہور، 1993ء، ص 180