وسط ایشیا میں سزائے موت
وسط ایشیا کا علاقہ ان پانچ مسلمان اکثریت والی جمہوریاؤں پر مشتمل ہے جو کبھی سوویت یونین کا حصہ رہے تھے۔ یہ ممالک قازقستان، تاجکستان، ازبکستان، کرغیزستان، ترکمانستان اور آذربائیجان ہیں۔
ان ممالک کا عام رجحان سزائے موت کو منسوخ کرنے کا ہے۔ 2000ء اور 2010ء کے بیچ منسوخی پسند وسط ایشیائی ممالک میں سے سبھی نے بین الاقوامی کانویننٹ برائے شہری اور سیاسی حقوق (International Covenant on Civil and Political Rights) کے دوسرے اختیاری پروٹوکول (Second Optional Protocol) کی تصدیق کر دی تھی، جس کا مطلب سزائے موت کو منسوخ کرنا تھا۔[1] اس کی تفصیلات ذیل کے قطعوں میں درج ہیں:
قازقستان
ترمیمقازقستان میں دسمبر 2003ء میں صدارتی حکم کے تحت سزائے موت پر سرکاری طور پر روک لگا دی تھی۔ ملک میں اس سے قبل سزائے موت کے نفاذ کے بارے متاثرہ خاندانوں کو نہ تو پہلے سے بتایا جاتا تھا اور نہ مقام تدفین کی کوئی اطلاع ملتی تھی۔ متوفی کے خاندانوں کے یہ اطلاعات لگ بھگ دو سالوں کے بعد پہنچائی جاتی تھیں۔ ملک میں یہ سزا ایک سرکاری راز کے طور مشخص تھی، لہٰذا اس کا جائزہ لینا آسان نہیں تھا۔
2014ء میں تعزیرات قازقستان میں کئی اصلاحات کو بروئے کار لایا گیا۔ ان سے سزائے موت کو منسوخ تو نہیں کیا گیا، مگر سزائے موت کے جواز کے جرائم کو 18 سے گھٹا کر 17 کر دیا گیا۔ ان جرائم کو دو زمروں میں منقسم کیا گیا، “دہشت گردی کے اعمال جو موت کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں“ (acts of terrorism resulting in death) اور “بطورخاص سنگین جرائم جو بوقت جنگ کیے گئے“ (especially grave crimes committed during times of war) -- یہ وہ دستوری جرائم ہیں جن کے لیے دستور میں موت کی سزا کا جواز موجود ہے۔ اسی سال تعزیراتی بین الاقوامی اصلاح (Penal Reform International) کی جانب سے کی گئی رائے شماری سے پتہ چلا ہے کہ 72 فی صد لوگ دہشت گردی سے متعلقہ جرائم میں سزائے موت ہٹانے کے حق میں نہیں تھے، حالانکہ ان میں سے آدھے صدارتی حکم کے تحت سزائے موت پر سرکاری طور پر روک کے حق میں تھے۔ 2,337 جواب دہندوں میں سے 37 فی رائے دہندے غلط معلومات رکھتے تھے، کیوں کہ انھیں اس بات علم ہی نہیں تھا کہ ملک موت کی سزا پر روک لگی ہوئی ہے۔
قازقستان میں ایسے قیدی جو روک لگنے کے وقت تختۂ دار پر چڑھنے والے تھے، وہ اپنی سزا میں میں تخفیف پاکر حبس دوام کے اسیر ہو گئے جس میں پیرول کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ اس روک کے لگنے کے ساتھ ہی قانون سازوں نے زندگی بھر قید کی ایک نئی سزا ایجاد کر دی جو سزائے موت کا متبادل بن گیا اور یہ حد قائم کی کہ اعظم ترین سزا 25 سال قید ہو گی (30 سال اگر مجموعی جرائم کو خاطر میں لایا جائے)۔ اس سے ایک متوازی نظام قائم ہو گیا جس کے تحت شروع میں موت کی سزا پانے والے ان لوگوں سے زیادہ سزا جھیل رہے ہیں ان لوگوں کے مقابلے کو 2004ء کے بعد سزایافتہ بنے۔
سزائے حبس دوام پانے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ نومبر 2011ء میں 95 سزائے حبس دوام بھر کے قیدی رکھتا تھا (جن میں سے 29 تاحیات قیدی تھے)۔ ان میں سے کوئی خواتین یا کم عمر زمرے سے نہیں تھا اور قازقستان میں کسی بھی آدمی کو 65 سال کی عمر تک قید میں رکھا جا سکتا ہے۔[1]
تاجکستان
ترمیمتاجکستان میں جولائی 2004ء سے سزائے موت پر روک لگا دی گئی ہے۔ قازقستان ہی کی طرح اس ملک میں سزائے موت کے نفاذ کے بارے متاثرہ خاندانوں کو نہ تو پہلے سے بتایا جاتا تھا اور نہ مقام تدفین کی کوئی اطلاع ملتی تھی۔ قانونًا تاجکستان میں پانچ جرائم کے لیے موت کی سزا دی جاتی تھی: قتل؛ دہشت گردی؛ کم سن کی آبروریزی؛ نسل کشی؛ اور حیات کشی (biocide)۔ تعزیرات تاجکستان پر نظرثانی کا عمل جاری ہے، حالاں کہ اس بات کی امید ہے کہ آنے والے وقت میں سزائے موت کو بالکلیہ طور پر ہٹا دیا جا سکتا ہے۔ غیرسرکاری تنظیم نوٹا بینے کی رائے شماری کے مطابق 2,000ٍ جواب دہندوں میں سے 67 فی صد سزائے موت بالکلیہ ہٹا دینے کے حق میں ہے۔ ملک میں 18 سال سے کم عمر کے لوگوں پر سزائے موت کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ 63 سال سے اوپر کے افراد کو حبس دوام یا موت کی سزا نہیں دی جا سکتی ہے۔[1]
ترکمانستان، کیرغیزستان اور ازبکستان
ترمیمترکمانستان، کیرغیزستان اور ازبکستان میں علی الترتیب 1999ء، 2007ء اور 2008ء میں موت کی سزا کے جواز کو قانونًا منسوخ کر دیا گیا گیا تھا۔[1]
آذربائیجان
ترمیمسوویت یونین سے آزادی کے بعد سے آذربائیجان نے کئی اقدامات اٹھائے جو موت کی سزا کی منسوخی کا اشارہ کرتے ہیں، جس میں سبھی عورتوں اور 65 سال سے زیادہ عمر کے مردوں کا اس سزا سے مستثنٰی ہونا اور موت کی سزا والے جرائم کی فہرست میں کمی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں 1993ء کے بعد سے کوئی سزائے موت کی تعمیل دیکھنے میں نہیں آئی اور یہاں کے صدر حیدر علیوف باضابطگی سے اپنے دستوری اختیارات کو بہ روئے کار لاتے ہوئے موت کی سزاؤں کو عمر قید میں تبدیل کرتے آئے ہیں۔[1]
آذربائیجان کی عدالتیں صدر جمہوریہ کی معافیوں کو خاظر میں نہ لاتے ہوئے سزائے موت سناتی رہی ہیں۔ 1996ء میں 41 افراد کو سزا کی موت کا عدالتوں کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا۔ موت سزا سنائے جانے والے مجرموں کو زائد از گنجائش ماحول میں قید کر کے رکھا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کے بھی الزامات لگائے گئے ہیں کہ قانون کا نفاذ کرنے والے عہدے دار زبردستی اقبال جرم کرواتے ہیں، جس میں ایسے جرائم بھی ہیں جن کی سزا موت ہی ہے۔ جو ابتدائی استثنائی زمرے رہے ہیں، ان کے مطابق موت کی سزا کسی ایسے شخص کو نہیں دی جا سکتی ہے جو 18 سال سے کم عمر ہو، عورتوں کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی ہے اور نہ 65 سال متجاوز مردوں کو۔ ملک کی سزائیں گولی مارکر دی جاتی تھیں، تاہم سپریم کورٹ آخری اپیل کا مرکز تھا۔[2]
اس طرح بہ حیثیت مجموعی یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ وسط ایشیائی ممالک میں عمومًا سزائے موت کی منسوخی کے لیے ہم وار فضا چل رہی ہے۔ جن ممالک نے مکمل یا حتمی طور سزائے موت کی منسوخی کا اعلان نہیں کیا ہے، وہ بہت ممکن ہے کہ آنے والے کچھ سالوں میں یہ اعلان کر سکتے ہیں۔