پاڑہ چنار
پاڑہ چنار پاکستان کے قبائلی علاقے ضلع کرم کا دار الحکومت ہے۔ پاڑاچنار پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد سے مغرب کی طرف 574 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جوافغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ ایک تاریخی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ جو تمام قبائیل ایجنسیوں کے شہروں سے بڑا اور دلکش خوبصورت شہر ہیں۔ پاڑہ چنار شہر کی وجہ تسمیہ[2] ’ملک پاڑے‘ حمزہ خیل قبیلے کے ’پاڑے خیل‘ شاخ کے ایک معتبر ملک تھے اور انھوں نے 200 سال پہلے چنار کا یہ پودا لگایا تھا اور یہ پورا صحرا بھی ان لوگوں کی ملکیت ہے۔ تقسیم یا سرسیم کے لحاظ سے یہ قدیم چنار کا درخت اور اس کے ارد گرد اراضی پاڑاخیل قبیلے کی ملکیت تھی۔ سرکاری ریکارڈ یا کاغذاتِ مال میں اب بھی یہ ملکیت مستند ہے۔ پاڑہ خیل اس صحرائی علاقے میں گندم کاشت کیا کرتے تھے۔ گندم کی کٹائی کے وقت یہاں خیمے لگا تے تھے اور اس چنار کے سائے میں جرگے، صلاح مشورے یا دیگر امور جیسے مزری بانی (مزری ٹکاول) انجام دیتے تھے۔ چنار کے پاس ان کے درمن (کھلواڑ) ہوتے تھے، گندم حاصل کر کے واپس اپنے دیہات میں چلے جاتے تھے۔
شہر | |
ملک | پاکستان |
صوبہ | خیبر پختونخوا |
ضلع | کرم |
بلندی | 1,705 میل (5,597 فٹ) |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
• گرما (گرمائی وقت) | روشنیروز بچتی وقت (UTC+6) |
[1] |
پاڑہ چنار کا نام پہلی بار اس وقت سامنے آیا جب انگریز فوج اپنے کیمپ سنگینہ اور طوری ملیشیا کے ہیڈکوارٹر کو بالش خیل سے تبدیل کر کے اس صحرا میں لائے۔ اور طوری قبیلے نے یہ صحرا بغیر کسی قیمت کے طوری ملیشیا کے نام کر دیا۔ طوری ملیشیا کا نام بعد میں تبدیل کر کے کرم ملیشیا رکھ دیا گیا کیونکہ اب طوریوں کے علاوہ، بنگش، منگل، بڈاخیل، مقبل اور دیگر اقوام کے لوگ بھی شامل کر دیے گئے تھے۔ ملانہ گاؤں کے نیچے ایک وسیع و عریض صحرا تھا۔ اس صحرا کے مشرقی حصے میں خود رو توت کے درختوں کا باغ تھا اور مغربی حصے میں ایک پرانا چنار کا درخت۔ ’توکئی‘ نام پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ جو صحرا کے مشرقی حصے میں خود رو توت کے درخت تھے، جو باغ کی شکل اختیار کر چکے تھے، ان کو لوگ ’توتکئی‘ کے نام سے جانتے تھے۔ انگریز حکومت نے بعد میں اس باغ کو وسیع کر کے ایگریکلچر یونٹ بنایا اور توت سے ریشم بانی شروع کی جب کہ لوگ اب بھی اس حصے کو ’توتانو باغ‘ ہی کہتے ہیں۔
’پاڑا چنار‘ اس لیے کہ طوری حمزہ خیل کے نو بڑے قبیلے (پلارینے) ہیں جن میں سے ایک پاڑاخیل ہے۔ اور ’ملک پاڑے‘ حمزہ خیل قبیلے کے’پاڑے خیل‘ شاخ کے ایک معتبر ملک تھے۔ دیگر قبائلی شاخیں یہ ہیں:
دری پلاری
شکرخیل
پاڑا خیل
سپین خیل
ستی خیل
جانی خیل
بڈے خیل
اکاخیل
مالی خیل
چونکہ یہ چنار انگریزوں کے قائم کردہ دفاتر اور کرم ملیشیا کے بالکل درمیان موجود تھا اور وادی کرم کے دور دراز علاقوں سے لوگ آ کر اکثر یہیں جمع ہوتے تھے تو توتکئیی[3] کی جگہ پاڑہ چنار نام مشہور ہونا شروع ہوا اور یوں توتکئی بازار پاڑہ چنار کہلانے لگا۔ جو چنار کا پودا پاڑہ چنار شہر کی وجہ تسمیہ بنا وہ چنار ملک پاڑے، حمزہ خیل قبیلے کے پاڑے خیل شاخ کے ایک معتبر ملک، نے 200 سال پہلے لگایا تھا اور یہ پورا صحرا بھی ان لوگوں کی ملکیت ہے، جیسا کہ سرکاری ریکارڈ بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے۔
وقوع
ترمیمپاکستان کے وفاق کے زیر انتظام فاٹا کرم ایجنسی کا صدر مقام پاڑاچنار جو پشاور سے 80 میل کے فاصلے پر مغرب کی طرف کوہ سفید کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں سے درہ پیوار سے ہو کر افغانستان کو راستہ جاتا ہے بلکہ درحقیقت میں پاڑا چنار کے تین اطراف میں افغانستان ہے اور صرف مشرق میں پاکستانی سرزمین ہے۔ شہر کا نام چنار کے درخت کی وجہ سے مشہور ہوا جو اب بھی موجود ہے۔ جس کے سائے تلے قبیلے کے لو آکر بیٹھتے تھے۔ بچہ سقا جو افغانستان کا بادشاہ بنا تھا۔ پاڑا چنار کے ایک بازار میں ماشکی کا کام کرتا رہا۔ قدرتی مناظر اور دلکش ہیں۔ جب کہ لوگوں کی زیادہ تر تعداد ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے یہاں تعلیم اور ترقی کی شرح بھی کافی بہتر رہی ہے۔ 1980 کے عشرے میں افغان جنگ میں مجاہدین نے پاڑا چنار کو ہی اپنا مزاحمتی گڑھ بنایا۔ 2005 کے بعد تو کئی سالوں تک پاکستان سے پاڑا چنار جانے والا راستہ بند رہا اور افغانستان کے راستے ایک لمبا چکر کاٹ کر ہی یہاں پہنچنا ممکن تھا۔
قبائیل
ترمیماکثریت طوری اور بنگش قبائیل کی ہیں۔ طوری عرصہ دراز سے یہی آباد ہیں۔ جبکہ بنگش قبائیل افغانستان سے آکر یہاں آباد ھوگئے۔
وادئ کرم میں طوری اور بنگش قبائل پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ سے آباد ہیں اور اس کا ذکر پہلی دفعہ پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی سوانح حیات ”بابُرنامہ“ میں کیا ہے۔ ظہیر الدین بابر جب افغانستان پر قبضہ مضبوط کر چکا تو ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور درہ خیبر سے ہوتے ہوئے کوہاٹ، ہنگو، ٹل اور بنوں میں قتل و غارت گری کی داستان رقم کی۔
وادئ کرم وزیرستان، خیبر اور دیگر قبائلی علاقوں کی نسبت زرخیز وادئ ہے لہٰذا یہاں کے لوگ آبا و اجداد کے وقت سے کھیتی باڑی کرتے رہے ہیں، مال مویشی رکھتے ہیں اور باغات بھی قابلِ ذکر تعداد میں موجود ہیں۔ لہٰذا اجناس اور میوہ جات اور مال مویشی کے حوالے سے وادئ کرم نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ زمانہ قدیم سے نزدیکی علاقوں کو برآمد بھی کرتے رہے ہیں، جن میں میںٹل بازار، ہنگو، کوہاٹ اور پشاور سمیت کابل، گردیز اور ہرات تک کی مارکیٹس شامل ہیں۔ جب کہ وہاں سے وہ اشیائے ضرورت، جو وادئ کرم میں ناپید تھیں/ہیں، درآمد کرتے تھے/ہیں جن میں کپڑا، نمک، گُڑ وغیرہ شامل ہیں۔
ان سب اشیا کی خرید و فروخت، درآمد و برآمد ہندو تاجر کرتے تھے اور پشتون تجارت اور دکان داری کو گھٹیا کام سمجھتے تھے، بلکہ ’تلہ‘ یعنی ترازو کو گالی سمجھا جاتا تھا۔
آب و ہوا
ترمیمآب ہوا معلومات برائے پاراچنار، کرم ایجنسی | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مہینا | جنوری | فروری | مارچ | اپریل | مئی | جون | جولائی | اگست | ستمبر | اکتوبر | نومبر | دسمبر | سال |
اوسط بلند °س (°ف) | 9.9 (49.8) |
10.4 (50.7) |
14.9 (58.8) |
21.3 (70.3) |
26.6 (79.9) |
30.7 (87.3) |
29.6 (85.3) |
28.4 (83.1) |
27.1 (80.8) |
23.2 (73.8) |
18.2 (64.8) |
12.7 (54.9) |
21.1 (70) |
یومیہ اوسط °س (°ف) | 4.2 (39.6) |
4.8 (40.6) |
9.6 (49.3) |
15.6 (60.1) |
20.3 (68.5) |
24.5 (76.1) |
24.5 (76.1) |
23.5 (74.3) |
21.3 (70.3) |
16.7 (62.1) |
11.5 (52.7) |
6.7 (44.1) |
15.3 (59.5) |
اوسط کم °س (°ف) | −1.6 (29.1) |
−0.8 (30.6) |
4.2 (39.6) |
9.9 (49.8) |
14.1 (57.4) |
18.3 (64.9) |
19.5 (67.1) |
18.5 (65.3) |
15.6 (60.1) |
10.2 (50.4) |
5.0 (41) |
0.7 (33.3) |
9.5 (49.1) |
اوسط عمل ترسیب مم (انچ) | 44.9 (1.768) |
73.3 (2.886) |
127.3 (5.012) |
87.6 (3.449) |
65.8 (2.591) |
44.8 (1.764) |
107.1 (4.217) |
102.2 (4.024) |
55.1 (2.169) |
22.4 (0.882) |
17.4 (0.685) |
33.8 (1.331) |
781.7 (30.778) |
ماہانہ اوسط دھوپ ساعات | 210.8 | 197.7 | 207.7 | 234.0 | 288.3 | 297.0 | 282.1 | 279.0 | 267.0 | 285.2 | 255.0 | 189.1 | 2,992.9 |
ماخذ#1: [4] | |||||||||||||
ماخذ #2: (sunshine only)[5] |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Parachinar, Pakistan Page. Falling Rain Genomics, Inc. 1996-2004
- ↑ C M Enriquez’s (1910)۔ The Pathan Borderland۔ London: Oxford press۔ صفحہ: 117۔ ISBN 9780342614547
- ↑ "پارا چنار شہر کی وجہ تسمیہ، اس شہر کا نام پاڑہ چنار کیسے پڑ گیا؟"
- ↑ "Parachinar, Pakistan"۔ Climate Charts۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2011
- ↑ "Parachinar, Pakistan"۔ allmetsat۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2011
- تزک بابری انگریزی ترجمے کے صفحہ 220 اور 229 سے لے کر 235 تک
- ریفرنسز: تزک بابری (اردو) کے صفحہ نمبر 33 اور 34