پاکستان کا 1968-69ء کا انقلاب

1968ء کا سال پوری دنیا میں تحریکوں کا سال تھا جب یورپ میں فرانس شاندار انقلابی واقعات کا مرکز بن چکا تھا ، اسی سال میں پاکستان بڑی عوامی تحریک کی زد میں آچکا تھا [1]جس نے ڈاکٹروں ، انجینئرز اور زندگی کے ہر شعبے سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔ ملک میں خو د رو طریقہ سے محنت کشوں نے صنعتوں پر قبضہ کر لیا تھا ۔ نومبر 1968ء تا مارچ 1969ء  کے آخر تک پورے ملک میں عوامی بغاوت تھی جس میں 10 سے 15 ملین کے قریب لوگ شامل تھے[2]۔ اس تحریک نے پاکستان کے طاقتور ترین آرمی جنرل ایوب خان کو صدر پاکستان کے عہدے سے معزول کر دیا تھا[3]۔

پس منظر

ترمیم

پاکستان کے بننے کے بعد کئی سالوں تک اس کی حکومت اور ریاست کو افسر شاہی کے ذریعے کنٹرول کیا گیا۔ 1958ء میں ایوب خان نے فوجی بغاوت کے ذریعے  اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ ایوب خان کے دور میں ملک کی اوسط معاشی ترقی 5 فیصد سالانہ رہی[4]، لیکن  اس ترقی کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان خلیج میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ان پالیسیو ں نے سرمایہ دارانہ طبقے کو فروغ دیا  جن کی دولت کے انبار میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ لیکن  عام آدمی کے لیے یہ دور سخت سیاسی و سماجی سنسر شپ کے باعث ظلم و زیادتی اور مصیبتوں میں اضافہ کے سوا  کچھ نہ لایا[5]۔21 اپریل 1968ء کو ایوب خان کے منصوبہ بندی کمیشن کے سر براہ  ڈاکٹر محبوب الحق نے اپنی آمدنیوں میں عدم توازن پر اپنی رپورٹ پیش کی ۔ اس رپورٹ کے مطابق  22 امیر ترین خاندان ملک کی 66 فیصد صنعت اور 87 انشورنس اور بنکنگ پر قابض ہیں[6]۔اسی طرح ایوب خان نے زرعی اصلاحات کرنے کی کوشش کی لیکن یہ اصلاحات بری طرح ناکام رہیں۔اعدادوشمار کے مطابق 6000سے زائد زمیندارملک کی 7.5ملین ایکڑ زمین پر قابض ہیں۔  دوسری جانب مغربی پاکستان میں اوسط آمدنی سالانہ 35 پاؤنڈ تھی جبکہ مشرقی پاکستان میں یہ مزید بد تر تھی جہاں سالانہ اوسط آمدنی محض 15پاؤنڈ تھی۔1965ء میں ایوب خان نے ملک میں  صدارتی  انتخابات منعقد کروائے لیکن یہ با    لغ براہ راست رائے شماری کی بجائے بنیادی جمہوریت کے نام پربالواسطہ انتخابات تھے۔ اس طریقہ کار کے باعث  80 ہزار نمائندگان   کو عوام نے براہ راست اپنے ووٹوں سے چننا تھا ، یہ نمائندگان بعد میں صدر پاکستان کو انتخاب عمل میں لائیں گے[7]۔ اسی سال پاک بھارت جنگ چھڑ گئی جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا۔ دفاعی اخراجات میں اضافہ کی وجہ سے  معاشی ترقی کی شرح تیزی سے گر گئی۔ ان قدامات کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں اور عوام نے احتجاج شروع کر دیا[8]۔

1968ء کی تحریک

ترمیم

1968ء کے ابتدائی مہینوں میں ایوب خان نے اپنے اقتدار کے دس سال پورے ہونے پر ْترقی کا عشرہ'منانے کے فیصلہ کیا  دوسری جانب غصیلے عوام سٹرکوں پر احتجاج کر رہے تھے۔اسی سال کے ماہ نومبر میں راولپنڈی کے کالج طالب علموں کا ایک گروہ لنڈی کوتل سے واپس آرہا تھا تو اٹک کے نزدیک  انھیں کسٹم کی چیک پوسٹ  پر روکا گیا ، چیک پوسٹ پر پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی ۔ راولپنڈی واپسی پر ان طالب علموں نے پولیس کے رویے کے خلاف مظاہرہ کرنا شروع کر دیا جلد ہی ان کا مظاہرہ ایک بڑے احتجاج میں تبدیل ہو گیا۔پولیس نے اس احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا اور گولی چلا دی   جس کے نتیجے میں راولپنڈی پولی ٹیکنیک کالج کے عبدلحمید نامی طالب علم  کو گولی لگی اور یہ موقع پر ہی دم توڑ گیا [9]۔ اس سے پیشتر شہری چینی کی قیمت میں اضافے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور طالب علم کی ہلاکت نے ایک چنگاری کا کام کرتے ہوئے اسے ملک گیر تحریک میں بدل دیا [10]۔  مشہور مصنف طارق علی نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا،

پر امن مظاہرے  میں کسی پرتشدد اندیشے کے نہ ہونے کے باوجود، مکمل طور پر رائفلز ، بندوقوں اور آنسو گیس بموں سے مسلح پولیس  نے مظاہرین پر گولی چلا دی ۔ جس کے باعث سترہ سالہ طالب علم عبد الحمید گولی لگنے ے موقع پر ہی ہلاک ہو گیا، غم و غصے سے بپھرے ہوئے طالب علموں نے اینٹوں اور پتھروں سے جوابی حملے کی اور دونوں فریقین کو ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا۔

فروری اور مارچ میں، حملوں کی ایک وسیع لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 13 فروری کو، دس سالوں میں پہلی بار سرخ پرچم لاہور میں لہرایا گیا، 25،000 سے زائد ریلوے مزدور "چینی لوگوں کے ساتھ  اظہار یکجہتی اور سرمایہ داری مردہ باد" کے نعروں کے ساتھ مرکزی شہراؤں پر جلوس نکالے۔ اس دوران مزدوروں اور کسانوں نے معاشرے کو تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ لیکن بد قستمی سے ان کو راہ دکھانے کے لیے کوئی انقلابی پارٹی موجود نہ تھی[4]۔ فیصل آباد کے صعنتی علاقوں میں فیکڑی مالکان کو اپنا سامان ٹرکوں میں لادنے کے لیے یہاں کے مزدور رہنما مختیار رانا کی اجازت لینا ہوتی تھی۔ تمام سنسر شپ ناکام ہو چکی تھی۔ ٹرینوں کے ذریعے انقلابی پیغام کو پورے ملک میں پھیلایا جا رہا تھا۔ محنت کشوں نے مواصلات کے نئے طریقے ایجاد کر لیے تھے۔. یہ ایک نیا رجحان تھا، لیکن یہ آسمانوں سے نازل نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اس کی بنیاد  امیر اور غریب کے مابین خلیج اوراستحصال اور ظلم تھا جس نے انھیں تبدیلی پر مجبور کیا[10]۔ پاکستان کی اصل کہانی - 1968-69 انقلاب کتاب کے مصنف سے انٹرویو کے دوران پاکستان کے مشہور کالمنسٹ منو بھائی نے اس حرکت پزیری کے بارے میں انکشاف کیا کہ،'

"لاہور میں جماعت اسلامی میں ایک عوامی اجلاس کے دوران مولانا مودودی نے اپنے ایک ہاتھ میں قران کریم اور دوسرے میں روٹی رکھی۔. انھوں نے مجمع سے پوچھا، ' آپ کو روٹی چاہیے یا قرآن ؟' لوگوں نے جواب دیا، "ہمارے گھروں میں قرآن موجود ہے، لیکن روٹی نہیں ہے.[11]" ان طوفانی واقعات کے بارے میں ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنی کتاب، "پاکستان کا بحران اور ان کے حل" میں لکھا کہ"اس تحریک میں مجموعی طور پر 239 افراد ہلاک ہوئے، 196 مشرقی پاکستان اور 43 میں مغربی پاکستان میں. فائرنگ کے نتیجے میں پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں 41 مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں 88 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سے اکثر طالب علم تھے. "

1969 کے آغازسے ملک کے دیہی علاقوں میں کسانوں کی کمیٹیوں اور تنظیموں نے ابھرنا شروع کر دیا۔ مارچ 1969ء میں ایوب خان کو فوج کے افسران نے مشہورہ دیا کہ ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لیے اسے اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ یہاں تک کہ ایوب خان نے بھی اعتراف کیا کہ تحریک نے ریاست اور معاشرے کو مکمل طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے[12]۔

نتیجہ

ترمیم

25 مارچ 1969ء کو بطور صدر فیلڈ مارشل ایوب خان   نے استعفٰی دے دیا اس نے اپنی آخری تقریر میں اقرار کیا تھا کہ ’’تمام ریاستی ادارے مفلوج ہو چکے ہیں۔ ملک کے ہر مسئلے کا فیصلہ اب گلیوں میں ہورہا ہے [13]۔‘  مشرقی پاکستان میں مولانا عبد الحمید خان بھاشانی تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔ مغربی پاکستان میں بھی ان کا اثرورسوخ بڑھ رہا تھا۔ تحریک کے عروج پر مولانا بھاشانی کو بیجنگ بلایا گیا جہاں ایوب خان کے دوست اور فوجی آمریت کے حلیف ماؤزے تنگ نے اپنے پیروکار کو تحریک سے دستبردار ہونے کا حکم دیا[14]بدمٹ۔ مشرقی بنگال لوٹ کر بھاشانی اپنی کشتی کی رہائش گاہ میں چلے گئے اور پھر کبھی منظر عام پر نہ آئے۔ قیادت کے اس فرار سے تحریک کو دھچکا لگا۔ 1970 میں پاکستان کے عام انتخابات منعقد ہوئے. مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ قومی اور صوبائی اسمبلی نشستوں کا 98 فیصد جیت لیا، جبکہ مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی  نے واضع اکثریت حاصل کی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "پاکستان کی اصل کہانی"۔ The Struggle | طبقاتی جدوجہد (بزبان انگریزی)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2018 
  2. Tariq Ali (2008)۔ The Duel: Pakistan on the Flight Path of American Power۔ Simon & Schuster۔ ISBN 978-1-4165-6102-6 
  3. Dawn Books And Authors (2012-08-18)۔ "REVIEW: Pakistan's Other Story: The Revolution of 1968–1969 by Lal Khan"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2018 
  4. ^ ا ب Alan Woods۔ "Pakistan's Other Story: 1. Introduction"۔ www.marxist.com (بزبان انگریزی)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2018 
  5. Justen Bellingham۔ "The 1968-9 Pakistan Revolution: a students' and workers' popular uprising"۔ marxistleftreview.org (بزبان انگریزی)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2018 
  6. Dilawar Hussain (2007-12-09)۔ "People who own greatest amount of wealth"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2018 
  7. "Presidential Election | Elections were held on January 2, 1965"۔ Story Of Pakistan (بزبان انگریزی)۔ 2013-10-25۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2018 
  8. "The flipside of the 1965 war"۔ www.pakistantoday.com.pk (بزبان انگریزی)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2018 
  9. "Tribal tales ‹ The Friday Times"۔ www.thefridaytimes.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2018 
  10. ^ ا ب Party Pakistan Labor Party (19 September 2005)۔ "Past, Present and Future of Left Movement in Pakistan"۔ Europe Solidaire Sans Frontières 
  11. "Munnoo Bhai — a friend and comrade"۔ Daily Lead Pakistan (بزبان انگریزی)۔ 2018-01-22۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2018 
  12. From InpaperMagazine (2014-08-31)۔ "Exit stage left: the movement against Ayub Khan"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2018 
  13. UPI (25 March 1969)۔ "President of Pakistan Out, Army Chief In"۔ Desert Sun۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2018 
  14. "سقوط بنگال کی اوجھل تاریخ"۔ The Struggle | طبقاتی جدوجہد (بزبان انگریزی)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2018