چار بیت ایک چار سو سالہ قدیم پرفارمنگ آرٹ ہے۔ اس فن کو فنکاروں کا ایک پورا گروہ پیش کرتا ہے جس میں خاص طور پر گلوکار اور دف بجانے والے فنکار ہوتے ہیں۔ چار بیت جس میں چار "بیت" یعنی چار مصروں والے بند کی لمبی کڑی نظم کی شکل میں ہوتی ہے، جس کو فنکار پیش کرتے ہیں۔ یہ فن آج بھی، بھارت کے اتر پردیش کے رامپور، راجستھان کے ٹونک، مدھیہ پردیش کے بھوپال اور تلنگانہ کے حیدرآباد میں زندہ ہے۔[1] بھارت کی سنگیت ناٹک اکادمی نے اس فن کو بھارت کا ثقافتی اور روایتی فن قرار دیا ہے۔

ابتدا

ترمیم

اس کا ابتدائی دور سن عیسوی ٧ ویں صدی میں عرب کے علاقے میں رہا، اس دور میں اس کا نام "رجیز" تھا۔[2] لفظ چار بیت فارسی زبان سے ماخوذ ہے، جس کی معنی ہیں، چار مصرعے۔ ایک ایسی نظم جو طویل ہو اور چار بیت پر مشتمل ہو۔ اور اس نظم کو دف بجانے والے سنگت کے ساتھ، گلوکار گاتے ہیں۔ گلوکار یعنی نظم پڑھنے والے۔ دف ایک عربی ساز ہے۔[1] یہ فن ملک فارس سے آیا ہے۔ جو افغانستان ہوتے ہوئے بھارت آیا۔ اکثر اس فن کو فوجی گیا کرتے تہے۔ بالخصوص افغانی فوجی جو مغل فوج میں تھے اور بھارت آ ے تھے۔ بھارت میں آنے کے بعد اس موسیقی کے فن میں اردو، ہندی اور برج بھاشا کی بولیاں گلو کاری میں شامل ہو گئی ہیں۔

جدید دور میں

ترمیم

چار بیت بھارت میں اپنے رواج میں نمایاں کمی دیکھ رہا ہے۔ اسے اردو کی کچھ تقاریب میں اس زبان کے درخشاں اور تابندہ تہذیب کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس فن کے موجودہ مرکزی علاقہ جات بھوپال، ٹونک، رامپور، امروہہ اور چاند پور ہیں۔ یہ قدیم دور میں قبائل کے پس منظر اور ان کی طاقت کو مقابلتًا پیش کرنے کے کام آتا تھا۔ اسے بھارت میں پٹھانی لوک گیت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ موسیقی کی دنیا سے جڑے ماہرین نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ چار بیت گلو کاروں کی توانائی اور جوش و ولولہ فراہم کرتا ہے۔ اس میں راگوں اور جھوم کر کسی گلو کاری کے فن کو پروان چڑھانے سے کہیں زیادہ گلو کاروں کو اپنے فن کو شروع کرنے اور کسی اور جہت میں سامعین کو لے جانے میں معاون ہے۔

چار فن کاروں کا ایک گروہ ایک اکھاڑا کہلاتا ہے۔ یہ اکھاڑا چار بیت کا مظاہرہ دیتا ہے جسے پشتو میں چار بیتہ کہا جاتا ہے۔ ایک واحد بیت میں چار مصرعے ممکن ہیں جو بند کی شکل میں ہوتی ہیں۔ عام طور سے ایک نظم میں چار بیت ہوتے ہیں جس میں مکھڑا بھی شامل ہوتا ہے۔

چار بیت میں ہر صنف کی شاعری دف کی مختلف راگوں میں ادا کی جا سکتی ہے۔ حمد، نعت پاک، حزل (مزاحیہ نظم/ شاعری) اور عشق و محبت اس فن کے مشہور اصناف ہیں۔

کچھ جدیدیت پسند چار بیت کے فن کاروں نے ایڈز اور رشوت جیسے موضوعات کو بھی شامل کر لیا ہے۔ مثلًا ایک بیت جس میں ایڈز کا ذکر ہے، یوں ادا کیا گیا ہے:

تم نہ سمجھے ہو تو
ایڈز جس کا نام ہے
موت ہی آغاز جس کا

ؓ:موت ہی انجام ہے

معاصر موسیقی اور تفریح کی شکلیں اس قدیم لوک روایت پر حاوی ہو چکے ہیں اور یہ اپنی شناخت کھو رہی ہے۔ جدید لوگ ان زبانی اور لوک روایات کے مقابلے ٹیلی ویژن اور موسیقی کی اور قسموں کو ترجیح دے رہے ہیں۔[3]

کامپوزیشن

ترمیم

شروعات میں یہ فن فارسی اور پشتو زبانوں میں پیش کیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ فن اردو زبان میں بھی پیش کیا جانے لگا اور اسی کا ہوکر رہ گیا۔ اور یہ فن دیہاتی، روایتی اور ثقافتی نشان اور پہچان بن کر پیش آتا ہے۔ اور اس کی خصوصیت بالکل اردو کی غزل جیسی خوشبو رکھتی ہے۔

موجودہ فنکاروں کے گروہ (گروپ)

ترمیم
  • ببن سلطانی گروپ، رامپور، اترپردیش۔
  • بادشاہ خان مہ پارٹی، ٹونک، راجستھان۔
  • مسعود ہاشمی مہ پارٹی، بھوپال مدھیہ پردیش
  • چند علاقای پارٹیاں حیدرآباد، تلنگانہ (سابقہ آندھرا پردیش)[4]

فن کا اہم کردار

ترمیم

اکثر "چار بیت" ایک طویل نظم ہے، جو چار بیت پر منحصر ہوتی ہے۔ اس میں جنگی واقعیات، بہادری، رومانیت اور ہمہ وقت روحانیت کا عنوان دیکھنے کو ملتا ہے۔ شروعاتی ادوار میں، اس کا اہم موضوع صوفی گری اور صوفیانہ بیانات ہوا کرتے تہے، رفتہ رفتہ سماجی موضوعات نے جگہ لے لیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب Enjoy “Chaar Bayt” poetry this weekend - The Hindu
  2. ":: Parampara Project | Performing arts of Uttar Pradesh"۔ 14 ستمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2014 
  3. http://www.business-standard.com/article/pti-stories/urdu-festival-showcases-chaar-bait-forgotten-poetry-form-113092400217_1.html
  4. "Chaar-Bayt"۔ 14 جولا‎ئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2014