چین میں فلکیات (انگریزی: Astronomy in China) کی تاریخ کا آغاز چین کے برنجی دور میں شانگ خاندان کے عہد سلطنت سے شروع ہوتا ہے۔چین میں مصدقہ تاریخی آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی بار فلکیات کے چینی ستاروں کے نام آنیانگ سے دریافت ہونے والی اوریکل ہڈیوں سے معلوم ہوئے ہیں اور اِن کے یہ نام اٹھائیس چینی قمری منازل میں لکھے گئے ہیں۔شانگ خاندان کے دور تک فلکیات اپنی ابتدائی مراحل سے گزرتا ہوا ترقی پاچکا تھا اور ستاروں کے نام تک تجویز کیے جا چکے تھے۔ 1339 قبل مسیح سے 1281 قبل مسیح کے دوران شانگ خاندان کے بادشاہ وو دنگ کے عہدِ حکومت میں منازل قمری کے نام ملتے ہیں۔[1] چوتھی صدی قبل مسیح میں چین کا تنازعاتی دور شروع ہوتا ہے اور اِس دور میں بھی ستاروں کے متعلق علم اور حقائق ملتے ہیں اور آخر کار یہ علم منتقل ہوتا ہوا ہان خاندان کے عہد سلطنت تک پہنچتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ چینی فلکیات کی بنیاد زمین کے ساکن ہونے اور سورج کے متحرک ہونے پر تھی۔ بعض اوقات یہ قواعد جدید علم فلکیات کے مطابق استوار کرلیے جاتے تھے اور کبھی کبھار شروق نجمی یا منطقۃ البروج کے مطابق ترتیب دے دیے جاتے تھے۔[2] جدید محققین فلکیات کے مطابق قرونِ وسطیٰ میں اسلامی فلکیاتی دور سے قبل چین کا ہی علم فلکیات اِن قواعد پر مرتب ہوا تھا۔[3] موجودہ ہندوستانی فلکیات کے متعدد عناصر و قواعد چین منتقل ہوئے اور یہ دور غالباً چین میں بدھ مت کی ترویج اور مشرقی ہان سلطنت کا عہدِ حکومت یعنی 25ء سے 220ء تھا۔ اِس کے بعد تانگ خاندان کے دور یعنی 618ء سے 907ء میں ہندوستانی فلکیات چینی فلکیات میں مکملاً رچ بس گئی اور تانگ خاندان کے دور میں ہی شاہی منجمین کا تقرر ہونا شروع ہوا اور منجمین کو دار الحکومت میں طلب کیا گیا۔اِنہی منجمین میں یی ژنگ بھی شامل تھا جسے تانترک بدھ متی ماہر نجوم سمجھا جاتا تھا۔یوآن خاندان کے دور میں اسلامی فلکیات چین میں داخل ہوئی اور منگ خاندان کے دورِ زوال تک اسلامی فلکیات کی شہرت باقی رہی۔ منگ خاندان کے زوال کے بعد جب چین میں مسیحی یسوعیوں کا دور دورہ ہوا تو اسلامی فلکیات کی شہرت جاتی رہی۔ سترہویں صدی میں پہلی بار چین میں فلکی دوربین نصب کی گئی۔ 1669ء میں بیجنگ کی قدیمی رصد گاہ کو نئے انداز پر تشکیل دیا گیا۔ موجودہ حالات میں چین فلکیات کے ایک منظم و جدید پروگرام کے تحت نظام شمسی میں موجود اجرام فلکی پر اپنے سائنسی مشن بھیج رہا ہے۔

دونہوانگ کا فلکی جدول جس میں قطب شمالی کا خطہ دکھایا گیا ہے۔ (700ء)

تقویم

ترمیم

چین میں فلکیات کے تذکرہ میں سب سے اہم اُن کی تقویم ہے جو قدیمی ماخذوں کے مطابق تقویم شمسی قمری تھی۔ چونکہ چاند اور سورج کے اَدوار مختلف ہونے کے باعث موسموں کی تبدیلی میں فرق آتا تھا تو اِس کو برابر کرنے کے لیے اضافی وقت شامل کرتے تھے تاکہ موسم اپنے اوقات کے ساتھ شمار میں آتے رہیں۔ ابتدائی چینی سلطنتوں میں ہر سلطنت کے آغاز سے ایک نئی تقویم (کیلنڈر) کا آغاز ہوتا تھا اور وہ سرکاری طور پر بحیثیت چینی تقویم کے رائج کر دیا جاتا تھا۔خاندانِ سلطنت کے تبدیل ہوجانے پر ماہرین فلکیات اور منجمین نئے سِرے سے تقویم تیار کرتے تھے اور کبھی کبھار یہ منجمین سلطنت کے متعلق پیشگوئیاں بھی کیا کرتے تھے۔ علم نجوم جو فلکیات کا ایک حصہ ہے، چین کے فلکیاتی علوم میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا اور متاثرکن علم رہا ہے۔

علم نجوم کی کہانت کو چینی سلطنتوں کے اَدوار میں اہم مقام حاصل رہا ہے اور اِس کے ذریعے شہنشاہوں کے اَدوارِ حکومت کے متعلق ماہرین نجوم پیشگوئیاں کیا کرتے تھے۔ماہرین علم نجوم مستقل کواکب اور مہمان ستارہ (فلکیات کے متعلق بھی بخوبی آگاہ تھے اور اِن کے متعلق کوائف کو تقاویم میں درج رکھتے تھے۔ 1054ء میں دکھائی دینے والے سپر نووا کے تحت وجود میں آنے والا سحابیہ سرطان کے متعلق بھی چینی ماہرین فلکیات نے حقائق و کوائف درج کیے ہیں اور یہی کوائف عرب ماہرین علم نجوم کے ہاں بھی ملتے ہیں۔

ہندوستانی فلکیات چین میں بدھ مت کی تبلیغ و ترویج کے زمانے میں یعنی متاخر ہان خاندان (25ء تا 220ء) میں پہنچا۔ [4] 220ء تا 265ء کے وسطی زمانے میں جبکہ چین پر سلطنت ہائے ثالثہ کی حکمرانی قائم تھی، ہندوستانی فلکیات کی کتب کا ترجمہ چینی زبان میں کیا گیا [5] تاہم تانگ خاندان (618ء تا 907ء) کے اَدوارِ حکومت میں بیشتر چینی ماہرین فلکیات جن میں یی ژنگ میں بھی شامل تھا، نے ہندوستانی فلکیات کی کتب کو براہِ راست بڑے پیمانے پر چینی زبان میں ترجمہ کیا۔ [6] 718ء میں چین میں ہندوستانی فلکیات کا باقاعدہ ریکارڈ اور قواعد ملتے ہیں۔اِس زمانے میں چین میں مقیم ہندوستانی ماہر فلکیات گوتم سدھا کا نام بار بار سننے میں آتا ہے جسے چینی قُوطان ژِدہ کے نام سے جانتے ہیں۔ گوتم سدھا نے دیوناگری سے چینی زبان میں کتب ترجمہ کیں۔[7] آٹھویں صدی میں فلکیاتی جداول اور ریاضی کے جداول چینی زبان میں منتقل کیے گئے۔718ء میں تانگ خاندان کے دور میں آریا بھٹ کے مشاہدات کا ذِکر جدول مشاہدات قایون میں ملتا ہے۔[8] 718ء میں ہی گوتم سدھا نے ہندی اعداد سے پہلی بار چینی ریاضیات میں زیرو کا عدد شامل کیا جس سے پیمائشی رسیوں سے شمار کرنے کا عمل ختم ہو گیا۔ گوتم سدھا نے جدول مشاہدات قایون کو سنسکرت زبان کی کتاب نوگرہ سے چینی زبان میں ترجمہ کیا۔ گوتم سدھا نے اٹھائیس مجمع النجوم پر بھی کام کیا جس میں چاند کی حرکات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Needham, Volume 3, p.242
  2. Needham, Volume 3, p.172-3
  3. Needham, Volume 3, p.171
  4. Ōhashi, Yukio (2008), "Astronomy: Indian Astronomy in China", Encyclopaedia of the History of Science, Technology, and Medicine in Non-Western Cultures (2nd edition) edited by Helaine Selin, Springer, pp. 321–4, آئی ایس بی این 978-1-4020-4559-2
  5. Ōhashi, Yukio (2008), "Astronomy: Indian Astronomy in China", Encyclopaedia of the History of Science, Technology, and Medicine in Non-Western Cultures (2nd edition) edited by Helaine Selin, Springer, pp. 321–4, آئی ایس بی این 978-1-4020-4559-2
  6. Ōhashi, Yukio (2008), "Astronomy: Indian Astronomy in China", Encyclopaedia of the History of Science, Technology, and Medicine in Non-Western Cultures (2nd edition) edited by Helaine Selin, Springer, pp. 321–4, آئی ایس بی این 978-1-4020-4559-2
  7. Ōhashi, Yukio (2008), "Astronomy: Indian Astronomy in China", Encyclopaedia of the History of Science, Technology, and Medicine in Non-Western Cultures (2nd edition) edited by Helaine Selin, Springer, pp. 321–4, آئی ایس بی این 978-1-4020-4559-2
  8. Joseph Needham, Volume 3, p. 109