چین بھارت سرحدی تنازع (انگریزی: Sino-Indian border dispute) عوامی جمہوریہ چین اور بھارت کے درمیان دو الگ الگ علاقوں پر ملکیت کا تنازع ہے۔ پہلا یہ کہ اکسائی چن کیا بھارتی ریاست جموں و کشمیر میں واقع ہے یا یہ چین صوبے سنکیانگ کے مغرب میں واقع ہے۔ اکسائی چن سنکیانگ-تبت شاہراہ پر اعلی اونچائی پر واقع غیر آباد اور بنجر زمین ہے۔

چین بھارت سرحدی تنازع کا نقشہ

دوسرا تنازع میکموہن لائن کا جنوبی علاقہ ہے۔ اس کا سابقہ برطانوی دور کا نام شمال-مشرقی سرحدی ایجنسی تھا جسے اب اروناچل پردیش کہا جاتا ہے۔ میکموہن لائن برطانیہ اور تبت کے درمیان 1914ء میں ہونے والے شملا کنونشن کا حصہ تھا، جبکہ چین نے اس معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔ [1]

1962ء میں ہونے والی چین بھارت جنگ انہی دونوں علاقوں کے لیے تھی۔ 1996ء میں تنازعات کو حل کرنے کے لیے طریقہ کار وضع کیا گیا تھا، جس میں "اعتماد سازی اقدامات" اور ایک باہمی متفق بھارت چین سرحد شامل ہیں۔ 2006ء میں بھارت میں چین کے سفیر نے دعوی کیا کہ تمام اروناچل پردیش چینی علاقے ہے۔ [2] [3] اس وقت دونوں ملکوں نے سکم کے شمالی کنارے پر ایک کلومیٹر کے علاقے کو دوسرے ملک کی دراندازی قرار دیا۔ [4] 2009ء میں بھارت نے اعلان کیا کہ وہ سرحد کے ساتھ اضافی افواج تعینات کرے گا۔ [5] 2014ء میں بھارت نے تجویز دی کہ چین کو سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے لیے "ایک بھارت" پالیسی تسلیم کرنا چاہیے۔ [6][7]

اکسائی چن

ترمیم
 
اکسائی چن

چین، پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع ایک علاقہ ہے جو چین کے زیر انتظام ہے جبکہ بھارت اس پر اپنا دعوی رکھتا ہے۔ اکسائی چن بھارت اور چین کے درمیان دو سرحدی تنازعات میں سے ایک ہے۔ جغرافیائی طور پر یہ علاقہ سطح مرتفع تبت کا حصہ ہے۔ ہمالیہ اور دیگر پہاڑی سلسلوں کے باعث علاقے میں آبادی بہت کم ہے۔

تاریخی طور پر یہ علاقہ مملکت لداخ کا حصہ تھا جو انیسویں صدی میں کشمیر میں شامل ہو گئی۔ چین کے علاقوں تبت اور سنکیانگ کے درمیان اہم ترین شاہراہ اسی علاقے سے گذرتی ہے جس کے باعث یہ چین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ یہچین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ (شنجیانگ) کا حصہ ہے۔

میکموہن لائن

ترمیم
 
بھارت کی شمالی سرحد پر میکموہن لائن، سرخ رنگ متنازع علاقہ کو ظاہر کرتا ہے۔

میکموہن لائن ایک سرحدی خط ہے جس پر 1914ء میں ہونے والے شملہ معاہدے کے ایک حصے کے طور پر برطانیہ اور تبت نے اتفاق کیا تھا۔ یہ چین اور بھارت کے درمیان حد ہے، اگرچہ حکومت چین کو اس کی قانونی حیثیت سے اختلاف ہے۔

بیرونی روابط

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

کتابیات

ترمیم
  • Margaret W. Fisher، Leo E. Rose، Robert A. Huttenback (1963)، Himalayan Battleground: Sino-Indian Rivalry in Ladakh، Praeger، 30 ستمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ، اخذ شدہ بتاریخ 14 مارچ 2019Questia سے، (تتطلب إشتراكا (معاونت)) 
  • Neville Maxwell (1970)، India's China War، Pantheon Books، ISBN 978-0-394-47051-1 . Also available on scribdآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ scribd.com (Error: unknown archive URL).
  • Dorothy Woodman (1970) [first published in 1969 by Barrie & Rockliff, The Cresset Press]، Himalayan Frontiers: A Political Review of British, Chinese, Indian, and Russian Rivalries، Praeger 

حوالہ جات

ترمیم
  1. James Barnard Calvin (April 1984)۔ "The China-India Border War"۔ Marine Corps Command and Staff College۔ 11 November 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  2. "Arunachal Pradesh is our territory": Chinese envoy Rediff India Abroad, 14 November 2006. آرکائیو شدہ 8 نومبر 2011 بذریعہ وے بیک مشین
  3. Subir Bhaumik, "India to deploy 36,000 extra troops on Chinese border", BBC, 23 November 2010. آرکائیو شدہ 2 جنوری 2012 بذریعہ وے بیک مشین
  4. Sudha Ramachandran, "China toys with India's border", Asia Times Online, 27 June 2008. آرکائیو شدہ 22 نومبر 2009 بذریعہ Stanford Web Archive
  5. "The China-India Border Brawl"، Wall Street Journal، 24 June 2009، 23 September 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  6. 宏儒 何 (12 June 2014)۔ "外長會 印向陸提一個印度政策"۔ 中央通訊社۔ 新德里۔ 27 February 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 فروری 2017 
  7. "印度外長敦促中國重申「一個印度」政策"۔ BBC 中文网۔ 27 February 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 فروری 2017