معاہدہ کارلوفچہ
معاہدۂ کارلوفچہ یا معاہدۂ کارلوفجہ 26 جنوری 1699 کو سیرمسکی کارلوسی میں (اب جدید سربیا) میں ہوا، جس کے نتیجے میں 1683–1697 کی عظیم ترکی جنگ کا خاتمہ ہوا جس میں سلطنت عثمانیہ کو مقدس لیگ نے شکست سے دوچار کیا۔ [1] اس نے وسطی یورپ کے بیشتر حصوں میں عثمانی اقتدار کے خاتمے کا عندیہ دیا، صدیوں کی توسیع کے بعد یہ ان کا پہلا بڑا علاقائی نقصان ہوا اور اس نے ہیبسبرگ بادشاہت کو اس خطے میں غالب اقتدار کے طور پر قائم کیا۔
معاہدہ کی سرکاری دستاویز | |
سیاق و سباق | 1683–1697 کی ترکی کی جنگ عظیم |
---|---|
مسودہ | 16 نومبر 1698 |
دستخط | 26 جنوری 1699ء |
مقام | کارلوفچہ کا فوجی محاذ, سلطنت ہیبسبرگ (موجودہ سرمسکی کارلووجی , سربیا) |
دستخط کنندگان |
|
فریق |
|
زبانیں |
سیاق و سباق
ترمیمسلطنت عثمانیہ اور 1684 کی ہولی لیگ ، جس میں رومی سلطنت ، پولش – لتھوانیائی دولت مشترکہ ، جمہوریہ وینس اور پطرس اعظم (زار روس ) شامل تھے [2] ، کے مابین دو ماہ کی گفت و شنیدکے بعد 26 جنوری 1699 کو ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔
جو جس کے قبضے میں ہے(uti possidetis) کی بنیاد پر ، اس معاہدے کے تحت جس طاقت نے جتنا علاقہ ہتھیایا تھا اس پر اس کے قبضے کو قانونی حیثیت دے دی گئی۔ ہیبسبرگ کو عثمانیوں سے ایالتِ اگیر، ایالتِ وارد، بیشتر بودین ایالت، ایالتِ تمشوار کے شمالی حصے اور بوسنیا ایالت کے کچھ حصے، جو ہنگری ، کروشیا اور سلاوونیا کے بیشتر علاقوں پر مشتمل تھے، ملے۔ پرنسپلوریٹی آف ٹرانسلوینیہ برائے نام آزاد رہا لیکن آسٹریا کے گورنروں کی براہ راست حکمرانی سے مشروط تھا۔ پولستان نے پوڈولیا کو بازیافت کیا ، جس میں کامانچہ کا تباہ شدہ قلعہ بھی شامل تھا۔
وینس نے موریہ (جنوبی یونان کا پیلوپنی جزیرہ نما) اور بیشتر ڈلمٹیا حاصل کیا ، البتہ موریہ کو معاہدہ پاسوروٹوز کے ذریعہ 20 سال کے اندر اندر ترکوں نے دوبارہ حاصل کر لیا۔ کلیسائے مقدس کے بارے میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا ، حالانکہ اس پر کارلوفچہ میں تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ [3]
عثمانیوں نے بلغراد ، بنیات آف تیمیسور (جدید تیمشیوارا ) کے ساتھ ساتھ ولاچیا اور مالدووا پر اقتدار برقرار رکھا۔ روسی زار شاہی کے ساتھ اگلے سال 1700 کے معاہدۂ قسطنطنیہ کے تحت سلطان نے ازوف کا علاقہ پطرس اعظم کے حوالے کر دیا ۔ ( روسی زار شاہی کو پرتھ دریا کی ناکام مہم اور پرتھ معاہدے کے نتیجے میں گیارہ سال بعد یہاں سے واپس جانا پڑا۔)
آسٹریا اور عثمانی سلطنت کے مابین نئی سرحدوں کو وضع کرنے کے لیے کمیشن تشکیل دیے گئے تھے ، جس کے کچھ حصے 1703 تک متنازع رہے تھے۔ ہیبسبرگ کے کمشنر لوگی فرڈینینڈو مارسیلی کی کوششوں کے نتیجے میں کروشیا اور بیخاچ کی سرحدوں پر 1700 کے وسط تک اتفاق ہوا اور ٹیمیسور میں سن 1701 کے اوائل تک ، پہلی بار طبعی خدوخال کے مطابق ایک سرحد کی نشان دہی کی گئی۔
”معاہدۂ کارلوفچہ سے قبل عثمانی سفارت کاری۔۔۔۔۔۔ باہمی تعاون کی بجائے یکطرفہ رہی(یورپ میں کوئی سفیر نہیں بھیجا گیا تھا)۔۔۔۔۔وہ صرف اپنے آپ کو قانون مانتے تھے ”زمین پر واحد قوم“۔معاہدے کے بعد ”بابِ عالی کو مجبور کیا گیا کہ وہ طاقتور حیثیت کی بجائے کمزور فریق کے طور پر گفت و شنید کرے۔“[4]
نقشے اور تصاویر
ترمیم
|
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Nolan 2008.
- ↑ Robert Bideleux, Ian Jeffries, A History of Eastern Europe: Crisis and Change, Routledge, New York, 1998, p. 86. آئی ایس بی این 0-415-16111-8
- ↑ János Nepomuk Jozsef Mailáth (gróf) (1848)۔ Geschichte der europäischen Staaten (Geschichte des östreichischen Kaiserstaates, Band 4) [History of the European States (History of the Austrian Empire, volume 4)]۔ Hamburg: F. Perthes۔ صفحہ: 262–63
- ↑ Lord Kinross Ottoman centuries
اہم نکات
ترمیم- Sima Ćirković (2004)۔ The Serbs۔ Malden: Blackwell Publishing
- Cathal J. Nolan (2008)۔ Wars of the Age of Louis XIV, 1650–1715: An Encyclopedia of Global Warfare۔ Greenwood Publishing
- Pál Fodor، Géza Dávid، مدیران (2000)۔ Ottomans, Hungarians, and Habsburgs in Central Europe: The Military Confines in the Era of Ottoman Conquest۔ BRILL
- Jovan Pešalj (2010)۔ "Early 18th-Century Peacekeeping: How Habsburgs and Ottomans Resolved Several Border Disputes after Karlowitz"۔ Empires and Peninsulas: Southeastern Europe between Karlowitz and the Peace of Adrianople, 1699–1829۔ Berlin: LIT Verlag۔ صفحہ: 29–42