کمال الدین عبد الرزاق بن اسحاق سمرقندی

کمال‌الدین عبد الرزاق بن اسحاق سمرقندی (1413–1482) ایک فارسی[3] تیموری وقائع نگار اور اسلامی عالم تھے۔ وہ کچھ عرصے تک شاہرخ کے سفیر تھے جو تیموری خاندان سے تعلق رکھنے والا فارس کا خکمران تھا۔ وہ اپنے سفیرانہ ذمے داری کے تحت کالی کٹ کا دورہ مغربی ہندوستان میں 1440ء کے دہے میں کیے تھے۔ وہ ان تمام واقعات کو لکھ چکے ہیں جن کا انھوں نے کالی کٹ میں مشاہدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ تیموری خاندان اور اس سے قبل کے حکمرانوں کی تاریخ پر لمبا تاریخی دستاویز تیار کر چکے ہیں جنھوں نے ایشیا کے وسط پر حکمرانی کی تھی، مگر یہ قابل قدر نہیں ہے کیوں کہ یہ زیادہ تر ان ذرائع کا مواد ہے جو پہلے کے تحریر کردہ ہیں جو کہیں اور پہلے ہی سے موجود ہیں۔ [4]

کمال الدین عبد الرزاق بن اسحاق سمرقندی
معلومات شخصیت
پیدائش 7 نومبر 1413ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہرات   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1482ء (68–69 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہرات   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت تیموری سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مورخ ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی [2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تاریخ نگاری   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ترمیم

عبد الرزاق ہرات میں 7 نومبر 1413ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد جلال الدین عشاق ہرات میں شاہرخ کی دربار میں قاضی اور امام تھے۔ وہ اور ان کے بھائی شریف الدین عبد القہار اپنے والد کی شاگردی میں علم حاصل کیا اور ان دونوں نے 1429ء میں شمس الدین محمد جزری سے اجازہ حاصل کیے۔ 1437ء میں اپنے والد کی موت کے بعد انھیں شاہرخ کے دربار میں قاضی کے طور پر مامور کیا گیا تھا۔[حوالہ درکار]

ہندوستان کا سفر اور کتاب کی تحریر

ترمیم

جنوری 1442ء سے جنوری 1445ء تک عبد الرزاق تیموری خاندان کے فرماں رواں شاہرخ کے کالی کٹ، ہندوستان کے لیے سفیر رہے۔ انھوں نے ہندوستان آنے کے اپنے مقصد کو 45 صفحات میں لکھا تھا۔ یہ ان کی کتاب مطلع السعدين و مجمع البحرين میں لکھا ہے۔ یہ 1304ء سے 1470ء کے بیچ اس دنیا کے حالات بیان کرتا ہے جہاں وہ اپنی سفارت کے دوران مقیم تھے اور یہ 450 سفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا بیش تر مواد دیگر تحریروں سے ماخوذ ہے۔[5]

عبد الرزاق کی وقائع نگاری میں کالی کٹ میں زامورین حکمرانوں کے زیر اقتدار زندگی اور واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ وہ ہمپی کے قدیم وجے نگر شہر کا بھی بیان کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کی دولت اور شان و شوکت کے بھی تذکرے موجود ہیں۔[6][7] وہ بحر ہند میں جہاز رانی کی تجارت کا بھی ذکر کر چکے ہیں جو پندرہویں صدی میں چل رہی تھی۔

چین سے روابط کا تذکرہ

ترمیم

عبد الرزاق مطلع السعدين و مجمع البحرين میں اور باتوں کے ساتھ ساتھ شاہرخ کی مملکت اور مینگ چین کے سفارتی تعلقات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔

اس میں بہ طور خاص شاہ رخ کی جانب سے بیجنگ بھیجے گئے وفد کا خصوصی ذکر موجود ہے جو 1420-1422 کے بیچ کی بات ہے۔ اس حالات وفد میں شریک غیاث الدین نقاش کی زبانی مذکور ہیں۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. https://pantheon.world/profile/person/Abd-al-Razzāq_Samarqandī — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/115592024 — اخذ شدہ بتاریخ: 3 مئی 2020
  3. Donzel، E. J. van (1 جنوری 1994)۔ Islamic Desk Reference۔ BRILL۔ ص 10۔ ISBN:90-04-09738-4۔ Abd al-Razzaq al-Samarqandi: Persian historian; 1413-1482. He served several Timurid rulers in Samarqand and left a historical work which is an important source of information.
  4. Elliot، H. M. (Henry Miers), Sir؛ John Dowson (1871)۔ "Matla'u-s Sa'dain, of Abdur Razzaq"۔ The History of India, as Told by Its Own Historians. The Muhammadan Period۔ London : Trübner & Co.۔ ج 4۔ مورخہ 2019-01-07 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-30{{حوالہ کتاب}}: صيانة الاستشهاد: أسماء متعددة: قائمة المؤلفين (link)
  5. ^ ا ب Bellér-Hann، Ildikó (1995)، A History of Cathay: a translation and linguistic analysis of a fifteenth-century Turkic manuscript، Bloomington: Indiana University, Research Institute for Inner Asian Studies، ص 11، ISBN:0-933070-37-3
  6. Alam، Muzaffar؛ Sanjay، Subrahmanyam (2007)۔ Indo-Persian Travels in the Age of Discoveries, 1400–1800۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ ص 54–67۔ ISBN:978-0-521-78041-4۔ مورخہ 2019-01-07 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-31
  7. "Recalling the grandeur of Hampi"۔ Chennai, India: The Hindu۔ 1 نومبر 2006۔ مورخہ 2019-01-07 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-01-10