کمال الدین الدمیری
علامہ کمال الدین الدمیری (پیدائش: 1341ء — وفات: 27 اکتوبر 1405ء) پندرہویں صدی عیسوی میں مصری محدث، محقق، عالم تھے۔ علامہ دمیری کی وجہ شہرت اُن کی تصنیف حیات الحیوان ہے۔
کمال الدین الدمیری | |
---|---|
(عربی میں: مُحمَّد بن موسى بن عيسى بن علي الدميري) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1341ء قاہرہ |
وفات | 27 اکتوبر 1405ء (63–64 سال) قاہرہ |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت و الجماعت |
فقہی مسلک | شافعی |
عملی زندگی | |
استاذ | جمال الدین اسناوی ، ابن الملقن ، برہان الدین قیراطی ، ابن عقیل |
تلمیذ خاص | تقی الدین المقریزی |
پیشہ | فطرت پسند ، ماہر حیوانیات ، مصنف ، مفتی ، معلم ، فقیہ ، فلسفی |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [1] |
شعبۂ عمل | فقہ ، علم حدیث ، حیوانیات ، عربی ادب ، اسلامی فلسفہ ، تاریخ اسلام |
کارہائے نمایاں | حیات الحیوان |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمعلامہ دمیری کا اسم گرامی کمال الدین محمد، کنیت ابوالبقاء اور والد کا نام موسیٰ بن عیسیٰ تھا۔ شجرۂ نسب یوں ہے: کمال الدین محمد بن موسیٰ بن عیسیٰ بن علی الدمیری المصری۔ شمس الدین سخاوی کہتے ہیں کہ علامہ کا نام پہلے کمال الدین تھا لیکن بعد میں اپنا نام کمال الدین محمد رکھا اور خود علامہ نے اپنی تصانیف میں لکھا ہے کہ اِس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ بطور برکت اِنتساب ہوجائے۔
پیدائش
ترمیممحقق ابن شہبہ نے طبقات میں لکھا ہے کہ علامہ دمیری کی پیدائش 750ھ میں ہوئی۔ شمس الدین سخاوی اور ابن العماد حنبلی نے آپ کا سال پیدائش 742ھ مطابق 1341ء کا اوائل لکھا ہے اور مقام پیدائش قاہرہ بتایا ہے۔ یہ تطبیق یوں ممکن ہو سکی کہ علامہ دمیری نے اپنی تاریخ پیدائش اپنی کتب میں تحریر کی تھی جہاں سے شمس الدین سخاوی نے نقل کی تھی۔
ابتدائی حالات اور حصول علم
ترمیمعلامہ دمیری کا بچپن قاہرہ میں گذرا اور یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ جب ہوش سنبھالا تو بطور درزی کے کام شروع کیا۔ چند دِن یہ کام کیا اور پھر اِس سے الگ ہو گئے۔ جب علم و فن کی اہمیت حاصل ہوئی تو جامعۃ الازہر، قاہرہ میں خود کو تعلیم کے لیے وقف کر دیا۔ پھر اِس انہماک کے ساتھ حصولِ علم میں لگے رہے کہ اپنے وقت کے جلیل القدر علما میں شمار ہونے لگے، یہاں تک کہ عہدۂ قضاء پیش کیا گیا لیکن علامہ دمیری نے اِس عہدے سے اِنکار کر دیا۔ علامہ دمیری اہل سنتکے مسلک سے وابستہ اور فقہ شافعی کے مفتی تھے۔ تصوف میں درک تھا۔ عابد و زاہد تھے۔ سعودی علما کے مطابق علامہ دمیری اولاً شافعی تھے لیکن بعد ازاں فقہ مالکی کو اِختیار کر لیا تھا۔ لیکن اِس بات کی تائید نہیں ہوتی کیونکہ حیات الحیوان میں جانوروں کے شرعی احکامات کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ شافعی المذہب تھے، چنانچہ بعض مقامات میں علامہ دمیری نے شافعی مذہب کی تفصیل اور ترجیح بیان کی ہے۔[2] علامہ دمیری نے اپنے زمانے کے یکتائے روزگار علما و فقہا سے علوم حاصل کیے۔ علم فقہ میں شیخ بہاء الدین سبکی، جمال الدین اسنوی، کمال الدین نویری المالکی سے حاصل کیا اور انھیں اساتذہ سے افتاء و تدریس کی اجازت ملی۔ ادب میں شیخ برہان الدین قیراطی اور شیخ بہاء بن عقیل سے علم حاصل کیا۔ علم حدیث میں جامع الامام الترمذی شیخ علی المظفر عطار المصری، جمال عبدالمعطی بن کمال بن محمد، علی بن احمد فرضی الدمشقی، ابوالفرج بن القاری اور محمد بن علی الحراوی سے تحصیل کی۔ بقول حافظ زیلعی، آپ نے شیخ کمال الدین کے درس ترمذی میں بھی شریک ہوکر استفادہ کیا۔ اِسی طرح شیخ کمال الدین محمد بن عمر بن جیب سے مسند احمد بن حنبل مکہ مکرمہ میں اور مدینہ منورہ میں شیخ عفیف المطری سے پڑھی۔ اِسی طرح دیگر علوم سراج الدین بلقینی سے حاصل کیے۔ شمس الدین سخاوی کا بیان ہے کہ علامہ دمیری نے شیخ بہاء الدین احمد بن تقی السُبکی کی صحبت بابرکت میں رہتے ہوئے زیادہ علم حاصل کیا۔ البدر الطالع کے بیان کے مطابق آپ نے علوم و معارف امام یافعی سے بھی حاصل کیے، جیساکہ کتاب حیات الحیوان کے مطالعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اوراد و وَظائف اور دیگر عملیات امام یافعی سے لیے گئے۔ اِن تمام علوم سے استفادہ کرکے علامہ دمیری تفسیر، حدیث، فقہ، فلسفہ اور عربی ادب میں ماہر ہوئے۔ [3]
وفات
ترمیمعلامہ دمیری نے بروز منگل 3 جمادی الاول 808ھ مطابق 27 اکتوبر 1405ء کو قاہرہ میں وفات پائی۔
تصانیف
ترمیم- مزید دیکھیں: حیات الحیوان
علامہ دمیری نے یہ کتاب علم حیوانات پر مرتب کی ہے اور اِس کتاب جیسی دوسری مثال آج تک پیش نہیں کی جاسکی۔ حیات الحیوان اپنی تالیف سے آج تک اِس علم میں ایک نادرروزگار شاہکار سمجھی جاتی ہے۔اپنے زمانہ ٔ تصنیف سے اب تک اپنی متنوع اور گوناگوں خصوصیات کی بنا پر یہ کتاب مقبولِ عام رہی ہے اور مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں میں اِس کے تراجم بھی ہوئے ہیں۔حیات الحیوان حیوانات کے مفصل تذکرے پر مبنی ایک شاہکار کتاب ہے جس میں 1069 جانوروں کا ذِکر کیا گیا ہے۔ اِن میں سے جن جانوروں کا حلیہ اور تفصیل کا ذِکر ہوا ہے، اُن کی تعداد 731 ہے۔ لیکن چونکہ بساء اوقات مختلف جانوروں کو ایک ہی نام دِیا گیا ہے اور متعدد مقامات پر اِس کے برعکس ایک ہی جانور مختلف عناوین کے تحت بیان کیا گیا ہے، اِس لیے کتاب میں مذکور حیوانات کی اصل تعداد متعین کرنا خاصا دشوار کام معلوم ہوتا ہے۔ اِس کے علامہ علامہ کمال الدین الدمیری نے خلفاء کی تاریخ ذیل میں 69 خلفاء کا تذکرہ بھی کیا ہے۔[4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/07228577X — اخذ شدہ بتاریخ: 5 مارچ 2020
- ↑ حیات الحیوان: صفحہ 29۔
- ↑ حیات الحیوان: ص 30۔
- ↑ علامہ کمال الدین الدمیری: حیات الحیوان، صفحہ 21۔ مطبوعہ لاہور، 1992ء