کَنُچَا اِلَّیَّا (تاریخِ پیدائش: 5 اکتوبر 1952ء) ایک بھارتی سیاسی نظریہ ساز، مصنف اور دلت حقوق کے لیے فعالیت پسند ہے۔ وہ انگریزی اور تیلگو زبانوں میں قابل مصنف ہیں۔

کنچا الیا
(تیلگو میں: కంచ ఐలయ్య ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش (1952-10-05) 5 اکتوبر 1952 (عمر 72 برس)
پاپیاپیٹ، ورنگل، حیدرآباد ریاست، بھارت
(موجودہ طور پر تلنگانہ، بھارت میں)
شہریت بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تعليم
مادر علمی جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ڈائریکٹر، سینٹر فار اسٹڈی آف سوشیل ایکسکلوژن اینڈ انکلوسیو پالیسی (سی ایس ایس ای آئی پی)، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد
مادری زبان تیلگو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت بھارتی سیاسی فکر پر لکھاری اور مقرر
دلت بہوجن تحریک کے لیے نظریہ نگار اور فعالیت پسند

ابتدائی زندگی

ترمیم

کَنُچَا اِلَّیَّا پاپیاپیٹ گاؤں میں پیدا ہوئے۔ یہ گاؤں ورنگل ضلع ہے۔ وہ سابقہ حیدرآباد ریاست پیدا ہوئے تھے۔[1] ان کا خاندان چرواہا کوروما گولا ذات سے ہیں۔ یہ ان ذاتوں میں سے ہے جسے حکومت ہند نے پسماندہ ذات قرار دیا ہے۔[2] الیا کے مطابق ان کی ماں ان کی سیاسی سوچ کو بنانے میں اہم کردار نبھا چکی ہیں۔[3] وہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی ماں کنجا کٹما جنگلات کے محافظین کے امتیازی رویوں کے خلاف احتجاج میں سرگرم تھی۔کنچا کٹما ایک پرتشدد تنازع کے بیچ اپنی جان کھو دی جب وہ پولیس بربریت پر سخت احتجاج کر رہی تھی۔[4]

کئی بار خبروں کی رپورٹوں میں کنچا الیا کو ایک دلت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے[5][6] حالاں کہ وہ دلت نہیں بلکہ دیگر پسماندہ طبقات کے رکن ہیں۔

پیشہ ورانہ زندگی

ترمیم

کنچا الیا نے سیاسیات میں ایم اے مکمل کیا۔ انھوں نے جنوبی ہند کی غیر منقسم ریاست آندھرا پردیش میں زمینی اصلاحات کا مطالعہ کرتے ہوئے ایم فل مکمل کیا۔[1] انھیں مہاتما جیوتی راؤ پھولے ایوارڈ اور نہرو فیلوشب 1994-97 کے بیچ حاصل ہوئی۔[1]

الیا نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بدھ مت کے سیاسی پہلو کا جائزہ لیتے ہوئے حاصل کی اس کے اختتام پر خدا ایک سیاسی فلسفی - برہمنیت کو بدھ سے خطرہ کا نتیجہ اخذ کیا۔[7].

الیا نے دلتوں کو انگریزی زبان میں مہارت بنانے کی ترغیب دی اور وجہ یہ بتائی کہ اس سے بھارت کے دلت بھارت کے باہر کی دنیا سے خود مخاطب ہو سکیں گے بغیر اس کے کہ کوئی اور ان کی بات اپنی انداز میں کہے۔[8][9][10] مئی 2016ء میں الیا نے اپنے نام کے بیچ "شیپرڈ" (چرواہا) ڈال دیا۔ اس سے الیا نے اپنے خاندان کی ابتدا اور وابستگی کے باز احیا اور دوبارہ تسلیم کی کوشش کی۔ چونکہ "شیپرڈ" انگریزی نام ہے، اس کے استعمال سے الیا تہذیبی عادات و اطوار کو توڑنا چاہتے تھے جنہیں وہ سمجھتے تھے کہ "برہمن" لوگ عوام پر تھوپنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے خود کے نام کو ایک کردار کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں جو دلتوں کی بلندیٔ مراتب کے لیے فعال آلۂ کار ہے۔[11]

موجودہ طور پر کنچا الیا مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد میں ڈائریکٹر، سینٹر فار اسٹڈی آف سوشیل ایکسکلوژن اینڈ انکلوسیو پالیسی (سی ایس ایس ای آئی پی) کے طور خدمات انجام دے رہے ہیں۔

تنقید

ترمیم

عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر کام کرنے کے دوران الیا کے کئی ہم منصبوں اور جامعہ سے منسلک کئی ماہرین تعلیم نے ایک کھلے خط میں الیا کے کچھ مضامین اور خیالات کی روشنی میں جو الیا نے مقامی اخبارات میں شائع کیے تھے یہ خدشہ ظاہر کیا اور انھیں رائے دی کہ وہ ایسا مواد نہ لکھیں جس سے ذات پات پر مبنی عدم اتفاق یا تعصب پھیلے۔[1]

فروری 2013ء میں جے پور لٹریری فیسٹیول کے دوران کنچا الیا اور جاوید اختر ایک گرماگرم بحث کا حصہ بنے۔ یہ نحث بھارتی سماجی زندگی میں مذہب کی اثر انگیزی سے متعلق تھی۔[12]

الیا کی تنقید کا ایک بڑا موضوع ہند آریائی نقل مقام نظریہ میں ان کا ایقان ہے، جو اگرچیکہ کئی ماہرین کا تسلیم کردہ ہے، تاہم یہ بھارت سے ظہور نظریہ سے متصادم ہے جسے ہندو قوم پرست عناصر کی زوردار تائید حاصل ہے۔[11][13] نومبر 2015ء میں الیا نے کہا کہ بھارت کے پہلے نائب وزیر اعظم ولبھ بھائی پٹیل، جنہیں تقسیم ہند کے دوران کی خوں ریزی کے بیچ اتحاد قائم کرنے کے لیے یاد کیا جاتا ہے، اگر بھارت کے وزیر اعظم بنتے تو بھارت "پاکستان بن چکا ہوتا"۔[14]

عہدہ جات

ترمیم

الیا جن عہدہ جات پر فائز رہے ہیں، ان میں حسب ذیل شامل ہیں:[15]

پھانسی کی سزا کا مطالبہ

ترمیم

17 ستمبر 2017ء کو ٹی جی وینکٹیش، بھارتی پارلیمنٹ میں تیلگو دیسم پارٹی کے رکن اور آریہ ویسیا کے ایک قدآور قائد نے ایک صحافتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیا ایک غدار ہے اور اسے ہندو مت کی توہیں کرنے کی وجہ سے وسط ایشیا کے ممالک میں رائج برسرعام سزائے موت کے رواج کی طرح بھارت میں بھی سزائے موت دی جانی چاہیے۔[16]

منتخب مطبوعات

ترمیم

انگریزی زبان میں دستیاب مطبوعات:

  • Ilaiah, K. Why I Am Not a Hindu: A Sudra critique of Hindutva philosophy, culture and political economy] (Calcutta: Samya, 1996) آئی ایس بی این 8185604185
  • Ilaiah, K. God as Political Philosopher: Buddha's Challenge to Brahminism (Calcutta: Samya, 2001) آئی ایس بی این 8185604444
  • Ilaiah, K. Buffalo Nationalism: A Critique of Spiritual Fascism (Calcutta: Samya, 2004) آئی ایس بی این 818560469X
  • Ilaiah, K., & Vyam, D. (2007). Turning the Pot, Tilling the Land: Dignity of Labour in Our Times. Pondicherry: Navayana Pub. آئی ایس بی این 9788189059095 OCLC 184927533
  • Ilaiah, K. Post-Hindu India: A Discourse in Dalit-Bahujan Socio-Spiritual and Scientific Revolution (SAGE Publications Pvt. Ltd, 2009) آئی ایس بی این 9788132104339
  • Ilaiah, K. Untouchable God: A Novel on Caste and Race (Kolkata: Samya, 2011) آئی ایس بی این 9788185604336 OCLC 828612357
  • Ilaiah, K (1989-01-01). The State and Repressive Culture: The Andhra Experience. Hyderabad: Swecha Prachuranalu. OCLC 21518320
  • Bonner, A., Ilaiah, K., Saha, S. K., Engineer, A. A., & Heuze, G. (1994). Democracy in India: A Hollow Shell. Washington D.C: The American University Press. آئی ایس بی این 1879383268 OCLC 470188534
  • Ilaiah, K; Nehru Memorial Museum and Library; Centre for Contemporary Studies (1995-01-01). Caste or Class or Caste-class: A study in Dalitabhujan Consciousness and Struggles in Andhra Pradesh in 1980s]. New Delhi: Centre for Contemporary Studies, Nehru Memorial Museum and Library OCLC 436463940
  • Ilaiah, K., & Nehru Memorial Museum and Library. (1996). In Search of the Roots of Anti-Caste Struggle: A Dalitist Reading of the Buddhist Discourse. New Delhi: Centre for Contemporary Studies, Nehru Memorial Museum and Library. OCLC 863611670
  • Ilaiah, K., & Nehru Memorial Museum and Library. (1997). Productive Labour, Consciousness and History: The Dalitabahujan Alternative. New Delhi: Centre for Contemporary Studies, Nehru Memorial Museum and Library. OCLC 793342817
  • Ilaiah, K (1999-01-01). Reservations: Experience as Framework of Debate OCLC 606215716
  • D'Souza, J., Ilaiah, K., Raj, U., & Dalit Freedom Network. (2004). Dalit Freedom: Now and Forever; The Epic Struggle for Dalit Forever. OCLC 930036331
  • Nisar, الیونیل مینا کنداسامی, M., & Ilaiah, K. (2007). Ayyankali: Dalit Leader of Organic Protest. Calicut, Kerala: Other Books. آئی ایس بی این 9788190388764 OCLC 437026595
  • Ilaiah, K (2010-01-01). The Weapon of the Other: Dalitbahujan Writings and the Remaking of Indian Nationalist Thought. Delhi: Longman. آئی ایس بی این 9788177582468 OCLC 502268560

تیلگو زبان میں دستیاب مطبوعات:

  • ఐలయ్య, క. మన తత్వం: దళిత బహుజన తాత్వికత. హైదరాబాద్: హైదరాబాద్ బుక్ ట్రస్ట్

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت "The attempt to censor my writings is part of a larger game plan"۔ Rediff۔ 24 مئی 2000۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2014 
  2. "How a caste reference in his 2009 book has come back to haunt Kancha Ilaiah"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2018 
  3. "How cow protection laws brutalise our culture"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2018 
  4. "Kancha Ilaiah"۔ Ambedkar.org۔ 16 نومبر 2000۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 دسمبر 2013 
  5. India's President Ram Nath Kovind takes oath, Aljazeera
  6. Good Shepherd: Dalit thinker Kancha Ilaiah on name, caste, May 27, 2016, Sudipto Mondal , Hindustan Times
  7. "Modi should ask sadhus to clean the streets"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2018 
  8. "Introduce English in all schools, says Dalit scholar Kancha Ilaiah"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2018 
  9. Kancha Ilaiah: Even if 10% dalit children got English education, India would change - Times of India
  10. "In defence of English: Blame the Indian education system, not the language"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2018 
  11. ^ ا ب "Good Shepherd: Dalit thinker Kancha Ilaiah on name, caste"۔ Hindustan Times۔ 2016-05-27۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2016 
  12. Jaipur Literature Festival ends, but controversy lingers - The Hindu
  13. "Who are real Dalits of India"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2018 
  14. "If Sardar Patel was PM, India would've become Pakistan: Kancha Ilaiah"۔ Hindustan Times۔ 2015-11-30۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2016 
  15. "3rd Cycle of Accreditation – NAAC, Self – Study Report, 2013" (PDF)۔ Osmania University۔ 2013۔ صفحہ: 48۔ 14 مارچ 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اگست 2016 
  16. "TD MP TG Venkatesh says 'Hang ilaiah' for his book"۔ The Deccan Chronicle۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جنوری 2018 

بیرونی روابط

ترمیم