کیف مراد آبادی
کیف مراد آبادی – متین الحق قاضی (پیدائش: 24 مئی 1907ء – وفات: 28 جنوری 1976ء) اردو زبان کے شاعر ، انشائیہ نگار، افسانہ نگار، محقق تھے۔[1]
کیف مراد آبادی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 24 مئی 1907ء مراد آباد |
وفات | 28 جنوری 1976ء (69 سال) مراد آباد |
شہریت | برطانوی ہند (24 مئی 1907–15 اگست 1947) بھارت (15 اگست 1947–28 جنوری 1976) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | علی گڑھ مسلم یونیورسٹی |
پیشہ | شاعر ، مدیر ، مصنف ، افسانہ نگار ، محقق |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، انگریزی ، ہندی |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمپیدائش اور خاندان
ترمیمکیف مراد آبادی 24 مئی 1907ء بروز جمعہ کو مراد آباد میں پیدا ہوئے۔ اِن کے والد قاضی مظہر الحق عمائدین خِطَّہ میں سے تھے۔کیف کا پیدائشی نام متین الحق تھا۔[2]
تعلیم
ترمیمخاندان میں علم کی روایت قدیم زمانہ سے چلی آ رہی تھی۔مشہور صحافی اور ادیب قاضی عبد الغفار (متوفی جنوری 1956ء) کیف کے چچا تھے۔ قاضی جلال الدین (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کیف کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ خاندان چونکہ علمی روایت کا علمبردار تھا، لہٰذا کیف کی اِس ماحول میں قدرتاً تعلیم میں مناسب توجہ حاصل ہوئی۔ نجی طور پر ابتدائی اور قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھوپال کے ہائی اسکول سے سند حاصل کرلی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ 1929ء تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔[2]
معاش و ملازمت
ترمیم1929ء میں تعلیم سے فراغت پائی تو اب کسبِ معاش کا مسئلہ پیش آیا۔ بلند شہر پہنچے اور وہاں سرکاری گزٹ کے مدیر (ایڈیٹر) مقرر ہو گئے اور یہاں 1943ء تک مسلسل کام کرتے رہے۔ اِس کے بعد بیشتر زمانہ صحافت میں گذرا۔ چنانچہ مختلف اوقات میں ماہنامہ ایشیا، ماہنامہ میرٹھ، روزنامہ جنگ (دہلی)، ہفت روزہ نگارخانہ (دہلی)، ماہنامہ مشہور (دہلی) کے ادارۂ تحریر سے منسلک رہے۔[2]
خانگی زندگی
ترمیمکیف مراد آبادی کی شادی قاضی احمد الدین (جو بجنور میں محکمہ پولیس میں بطور انسپکٹر ملازم تھے)، کی صاحبزادی انیسہ خاتون سے ہوئی تھی جن سے چار لڑکیاں (نسیم فاطمہ، فاخرہ، شاہدہ اور راشدہ) اور ایک لڑکا تسکین الحق پیدا ہوئے۔ تسکین الحق پہلے کمپاؤنڈر تھا جبکہ بعد میں اپنا مطب قائم کر لیا تھا۔[3]
وفات
ترمیمکیف کی وفات اچانک ہوئی۔ 27 جنوری 1976ء کی شام کو اُن پر دفعتاً قلب کا شدید دورہ پڑا۔ علاج معالجہ ہونا چاہیے تھا، لیکن پوری کوشش کے باوجود کوئی افاقہ نہ ہوا۔ 28 جنوری 1976ء کے ابتدائی وقت میں ہی کیف اِس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ لال باغ جہاں اُن کا مسکن تھا، سے متصل کوئی نصف فرلانگ پر واقع قبرستان میں تدفین کی گئی۔[3]
ادب
ترمیمکیف مراد آبادی اپنی ذات ہمیں گویا ادب کی تمام اصناف کا مجموعہ تھے۔ وہ نثر میں بھی مقالات، انشائیے، سب کچھ لکھتے رہے۔ نظر میں مختلف اصنافِ سخن سے مزاولت رہی۔ کیف نے کسی سے اصلاح نہیں لی ، جو بھی کہا، وہ خود ہی کہا۔ خود ہی اپنے ذوق کی رہنمائی سے اصلاح لیتے رہے۔ مگر افسوس یہ کہ اُن کا مجموعۂ کلام اُن کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا۔کیف نے وفات سے ایک سال قبل اُن کے شاگردوں نے ’’بزمِ کیف‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا۔ اِسی ادارے سے اِن کو رحلت کے بعد اِن کے شاگرد ذوق کیفی کے مرتب کردہ قطعات ’’ کیا دیکھا، کیا سمجھا‘‘کے عنوان سے شائع ہوئے[4]۔کیف کی غزلیات کا دیوان آج تک شائع نہیں ہو سکا۔[3]