کے ٹو

ایک خطے میں چین پاکستان کی سرحد پر واقع زمین پر واقع دوسرا بلند ترین پہاڑ بھی بھارت کی طرف سے دعوی کیا گیا ہے
(کے-ٹو سے رجوع مکرر)

کے ٹو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے۔ یہ سلسلہ کوہ قراقرم، پاکستان میں واقع ہے۔ اس کی بلندی 8611 میٹر/28251 فٹ ہے۔ اسے پہلی بار 31 جولائی 1954ء کو دو اطالوی کوہ پیماؤں لیساڈلی اور کمپانونی نے سر کیا۔

کے ٹو
کے ٹو ، 2006ء کے موسم گرما میں
بلند ترین مقام
بلندی8,611 میٹر (28,251 فٹ) 
امتیاز4,017 میٹر (13,179 فٹ)
انفرادیت1,316 کلومیٹر (4,318,000 فٹ)
فہرست پہاڑدوسرا بلند ترین پہاڑ
2ویں درجہ پر
پاکستان کا سب سے بلند پہاڑ
جغرافیہ
کے ٹو is located in قراقرم
کے ٹو
سلسلہ کوہقراقرم
کوہ پیمائی
پہلی بار31 جولائی ، 1954ء

اطالیہ کا پرچم اکِلّی کومپاگنونی

اطالیہ کا پرچم لینو لاسیڈیلی

اسے ماؤنٹ گڈون آسٹن اور چوگو ری(چھوغو ری) یعنی بڑا پہاڑ بھی کہتے ہیں۔

تاریخ

ترمیم

1856ء میں اس پہاڑ کا پہلی بار گڈون آسٹن نے سروے کیا۔ تھامس ماؤنٹ گمری بھی اس کے ساتھ تھا۔ اس نے اس کا نام کے ٹو رکھا کیونکہ سلسلہ کوہ قراقرم میں یہ چوٹی دوسرے نمبر پر تھی۔گوڈون آسٹن کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔

کے ٹو پر چڑھنے کی پہلی مہم 1902ء میں ہوئی جو ناکامی پر ختم ہوئی۔ اس کے بعد 1909ء، 1934ء، 1938ء، 1939ء اور 1953ء والی کوششیں بھی ناکام ہوئیں۔ 31 جولائی، 1954ء کی اطالوی مہم بالاخر کامیاب ہوئی۔ لیساڈلی اور کمپانونی کے ٹو پر چڑھنے میں کامیاب ہوئے۔ 23 سال بعد اگست 1977 میں ایک جاپانی کوہ پیما اچیرو یوشیزاوا اس پر چڑھنے میں کامیاب ہوا۔ اس کے ساتھ اشرف امان پہلا پاکستانی تھا جو اس پہ چڑھا۔ 1978ء میں ایک امریکی ٹیم اس پر چڑھنے میں کامیاب ہوئی۔

کے ٹو کو ماؤنٹ ایورسٹ کے مقابلے میں زیادہ مشکل اور خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ کے ٹو پر 246 افراد چڑھ چکے ہیں جبکہ ماؤنٹ ایورسٹ پر 2238۔

کے ٹو یا گاڈون آسٹن کی چوٹی قراقرم کے پہاڑی سلسلے کی وہ بلند ترین چوٹی ہے جو پاکستان اور چین کی سرحد کے قریب گلگت بلتستان میں واقع ہے۔ یہ ماؤنٹ ایورسٹ کے بعد دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے۔ کےٹو کو مقامی بلتی زبان میں چھوغوری بھی کہتے ہیں جو آٹھ ہزار چھ سو گیارہ میٹر یعنی سطح سمندر سے اٹھائیس ہزار دوسو اکاون فٹ کی بلندی پر سے اپنی تمام تر قاتلانہ رعونیت کے ساتھ کوہ پیماؤں کو پکارتی رہتی ہے۔

انگریز سرکار کے ماتحت جب ہندوستان کے طول وعرض کی پیمائش کے لیے سروے کیا گیا تو تھامس منٹگمری نے اس چوٹی کو کے۔ ٹو (قراقرم 2) کا نام دیا۔ اس سے بھی پہلے ایک انگریزجیولوجسٹ ہنری گاڈون آسٹن نے قراقرم کے اس تاج کو کھوج نکالا تھا، اسی مناسبت سے اسے گاڈون آسٹن پہاڑ بھی کہاجاتا ہے۔ کوہ قراقرم کی اس بلند ترین چوٹی کو اپنی خطرناک چڑھائیوں ڈھلانوں کی بنا پر وحشی یا ظالم پہاڑی چوٹی بھی کہا جاتا ہے۔ ماوئنٹ ایورسٹ کے مقابلے میں کےٹو سر کرنے کا تناسب کم ہے کیونکہ کے ٹوکی چوٹی تک پہنچنے میں انتہائی ناسازگار موسم اور اس پہاڑ کی جان لیوا چڑھائی جس کے خط تقریباً عمودی ہیں رکاوٹ ہے، گاڈون آسٹن کے یہ دونوں ایسے مہلک ہتھیار ہیں جو اسی سے زائد کوہ پیماؤں کی جان لے چکے ہیں۔ ان چڑھائیوں میں ‘بوٹل نیک’ وہ خطرناک ترین مقام ہے جہاں کئی جان لیوا حادثے رونما ہو چکے ہیں۔ ان میں 2008 کاوہ سانحہ بھی شامل ہے جس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے گیارہ کوہ پیما زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ بوٹل نیک کے ٹو کا وہ جرنیل ہے جو برف کے دیو ہیکل ستونوں اور تودوں سے لیس ہے اور اس اہرام نما پہاڑی چوٹی پر قدم رکھنے والے ہر پانچ میں سے ایک کوہ پیما کو دھوکا دہی کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کے ٹو اصل جوش و جذبہ رکھنے والے کوہ پیما اور شہرت کے بھوکے کوہ پیما میں تمیزکردینے والی چوٹی ہے ۔

کےٹو کو سر کرنے کے لیے پہلی دفعہ 1902ء میں کوشش کی گئی تھی جو ناکام ٹھہری تھی۔ متعدد کوہ پیما گروپوں کی ناکامی اور تجربات کے بعد 1954ء میں ایک اطالوی ٹیم نے پہلی بار کے ٹو کی وحشی ظالم چوٹی کو سر کرکے کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک سنہری باب کا اضافہ کیا۔ 1977ء میں اشرف امان کے ٹو کو تسخیر کرنے والے پہلے پاکستانی بنے۔ اس کے بعد سے بہت سے کوہ پیما قراقرم کے اس اونچے ترین مقام تک پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں۔ کے ٹو کو سر کرنے کے لیے جون تا اگست بہترین مہینے ہیں باقی سال یہاں کا موسم کوہ پیمائی کے لیے انتہائی نا مناسب ہے۔ اسے سر کرنے کے لیے زیادہ تر ابروزی روٹ اختیار کیا جاتا ہے جو کٹھن اور خطرناک ہونے کے باوجود تکنیکی بنیادوں پر استعمال کیا جانے والا راستہ ہے۔ نذیر صابرپاکستان کا وہ سرمایہ افتخار ہیں جنھوں نے کے 2 کو مغربی چڑھائی کی طرف سے سر کرکے تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا۔ 1981ء میں کی جانے والی اس کوہ پیمائی میں نذیر صابر کے ساتھ جاپانی کوہ پیما شامل تھے۔ مہربان شاہ، رجب شاہ اور حسن سدپارہ بھی کے ٹو کی بلندیوں کو چھو چکے ہیں۔ 2014 میں پہلی بار پاکستانی بار برداروں اور گائیڈز پر مشتمل ٹیم نے اطالوی کوہ پیماؤں کے ساتھ کے ٹو کی چوٹی پر قدم رکھ کر اسے سر کرنے کے ساٹھ سال پورے ہونے کا جشن منایا۔ کے ٹو کی عکس بندی ڈرون کے ذریعے 2016ء میں پہلی دفعہ کی گئی لیکن یہ چھ ہزار میٹر تک ہی ممکن ہو سکا، اس کے بعد کے ٹو کے نگہبان موسم نے ڈرون کو پرواز کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

کتابیات

ترمیم

کے ٹو پر فلمیں

ترمیم
  • Vertical Limits
  • K2

بیرونی روابط

ترمیم

نگار خانہ

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔