گنیش پرساد بگاریہ اوڈیشا کے ایک تاجر پیشہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ گرہستی ادیوگ کے نام سے بھارت کی ایک مشہور مسالا بنانے والی کمپنی کے بانی ہیں۔ ان کے کمپنی کی مصنوعات نہ صرف اوڈیشا، بلکہ بھارت کی کئی اور ریاستوں میں بیچی جاتی ہیں۔

گنیش پرساد بگاریہ
معلومات شخصیت
پیدائش 1953ء
راؤرکیلا
قومیت بھارتی
عملی زندگی
پیشہ تجارت پیشہ
وجہ شہرت گرہستی ادیوگ کے نام سے بھارت کی ایک مشہور مسالا بنانے والی کمپنی کی تاسیس

ابتدائی زندگی

ترمیم

بگاریہ 1953ء میں راؤرکیلا کے ایک تاجر پیشہ گھرانے پیدا ہوئے۔ وہ وہیں کے ایک پبلک اسکول میں پڑھے۔ ان کا ایک ہم جماعت جی پی پرساد راؤرکیلا اسٹیل پلانٹ کا چیف ایگزیکیٹیو آفیسر ہے جو اسٹیل اتھاریٹی آف انڈیا کے زیرعمل ہے۔ بگاریہ نے 1972ء میں کولکاتا سے کامرس کی سند پائی۔ وہ اپنے کالج کے دنوں میں جزوقتی طور پر ایک المونیم کے پلانٹ پر کام کرتے تھے۔ اسی شہر میں گھومنے کے دوران بگاریہ ایک دکان سے گذرے جس پر گرہستی کا بورڈ آویزاں تھا۔ تبھی سے انھیں یہ نام راس آگیا اور یہ تہیہ کیا کہ ایک دن اسی نام سے وہ مسالوں کا کاروبار شروع کریں گے۔[1]

خاندانی کاروبار کی ذمے داری

ترمیم

بگاریہ کے والد راؤرکیلا میں ایک دکان چلاتے تھے، جس کا نام مُرلی انصاری تھا اور جو در حقیقت ایک پنساری کی دکان تھی۔ یہاں سبھی غذائی ضروریات کے سامان ملتے تھے۔ 1974ء میں بگاریہ کے والد گذر گئے۔ اس کے اگلے سال یعنی 1975ء میں بگاریہ نے دکان کے پچھلے حصے میں ایک غیر کارگرد گیہوں کی چکی کو بہ روئے کار لاتے ہوئے پسی ہوئی نمک، مرچی پاؤڈر اور دھنیا پاؤڈر کی تیاری شروع کی اور اس طرح ایک نئے کاروبار کی بنیاد رکھی۔[1]

نئے کاروبار کی علٰحدگی

ترمیم

1984ء میں بگاریہ نے نوتشکیل شدہ کاروبار کو ایک کرائے کے مکان میں منتقل کیا۔ 1984ء تک کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے 30-40 مزدوروں کو رکھا گیا تھا۔ گرم مسالے کی اشیا کو جنہیں گرہستی اُدیوگ کا نام دیا گیا تھا، قریبی شہر جیسے کہ سمبلپور، ٹینسا اور جوڈا پہنچایا جا رہا تھا۔ بگاریہ نے شروع سے قیمتوں میں کٹوتی کے اصول کی بجائے مصنوعات کی عمدہ تیاری کو بازار میں فروخت کرنے کا ذریعہ بنایا۔ گرہستی کا قومی سطح پر مقابلہ ایم ڈی ایچ سے اور ریاستی سطح پر لینچو سے اور مقامی طور کرشنا اسپائسیز سے رہا ہے۔[1]

وسعت

ترمیم

کاروبار کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بگاریہ نے 0.35 ایکڑ زمین 0.25 ملین روپیے دے کر قریبی مقام پان پوش میں حاصل کی۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے کولکاتا کے ہلدی رام بھجیا والا سے سالانہ 12 فی صد سود پر قرض حاصل کیا جو مٹھائیوں اور اسنیکس بیچنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ 1987ء تک یہ قرض ادا کر دیا گیا۔[1]

صحت کی خرابی اور کاروبار کا متاثر ہونا

ترمیم

1989ء میں بگاریہ کی صحت بگڑ گئی اور وہ اگلے چار سال گہرے دباؤ (ڈِپریشن) میں چلے گئے۔ کام بڑھتا جا رہا تھا اور یہ صرف ملازمین سنبھال رہے تھے جس کی وجہ سے تجارت کو وسعت نہیں دی جا رہی تھی۔[1]

کاروبار میں نئی جان

ترمیم

2005ء میں تجارت کو ایک نئی زندگی ملی، جس کا کریڈٹ بگاریہ نے اپنے روحانی گرو کو دیا جن سے وہ ہردوار میں ملے تھے۔[1]

نئے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر کا تعین

ترمیم

2006ء میں بگاریہ کی کٹک میں سنجے داس سے ملاقات ہوئی۔ داس پیدائشی ہندو تھے، تاہم وہ مسیحیت کے حلقہ بگوش ہو چکے تھے۔ وہ زمانۂ طالب علمی میں میں اسٹوڈینٹ لیڈر تھے اور 1995ء میں کٹک کے کانگریس صدر تھے۔ بعد میں وہ سیاست کو خیرباد کہ کر کاروبار سے جڑ گئے۔ 1998ء میں انھوں نے سنجے ٹرانسپورٹ کمپنی شروع کی تھی اور کان کنی سے وابستہ ایک میں 2005ء تک کام کیا۔ جب کاروبار میں خاطرخواہ نتائج نہیں ملے، وہ کٹک ہی میں ہندوستان پٹرولیم سے منسلک ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک مقامی زبان کی میگزین کے مدیر بھی تھے۔[1]

بگاریہ نے داس کو اکتوبر 2010ء میں کٹک شہر اور ساحلی علاقوں میں اپنی مصنوعات کے فروخت کی ذمے داری دی۔ سنجے کی زیرہدایت یہ کاروبار اتر پردیش، مغربی بنگال، بہار اور جھارکھنڈ میں پھیل گیا، جس میں مختلف شہروں میں ڈپوز کا قیام عمل میں لایا گیا، مثلاً لکھنؤ، رائے پور اور دہلی۔ یہ ڈپوز ایک طرح کے گودام تھے جہاں سے تھوک فروش سپردکردہہ مال حاصل کر سکتے ہیں۔ داس نے تشہیری مہم میں اشتہارات کا بھی سہارا لیا۔ 2011ء تک بِکری کا منافع 25 ملین روپیے ہو گیا۔

اس کے ساتھ ہی گرہستی ادیوگ نئی مصنوعات جیسے کہ آٹا، دال، سیویاں وغیرہ بنانا بھی شروع کر دیا۔[1]

مصنوعات کے لیے مخصوص شو روم کا قیام

ترمیم

بگاریہ نے 2014ء میں بھونیشور میں اپنی مصنوعات کے لیے ایک مخصوص شوروم قائم کیا۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ Rajeev Kumar Panda, "To Expand or Diversify: The Dilemma of Grihasthi Udyog", The Journal of ENTREPRENEURSHIP, ISSN 0971-3551, Vol. 25, No.1, March 2016, Pp 89-102.
  2. https://odishalive.tv/news/business/ganesh-prasad-bagaria-md-grihasthi-udyog-interview/[مردہ ربط]

خارجی روابط

ترمیم