ہندوستان چھوڑ دو تحریک

تاریخی برطانوی ہندوستانی سیاسی تحریک

ہندوستان چھوڑدو تحریک (ہندی: भारत छोड़ो आन्दोलन تلفظ: بھارت چھوڑو آندولن) برصغیر پاک و ہند میں چلنے والی ایک تحریک کو کہا جاتا ہے جس کا آغاز مہاتما گاندھی نے کیا۔ یہ انڈین نیشنل کانگریس کی تحریک تھی جس کا مقصد سول نافرمانی کر کے انگریز سرکار کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا۔کرپس کی تجاویز غیر موثر ہو چکی تھیں۔ کانگریس نے انگریز سرکار کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوری طور پر انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے کا الٹی میٹم دیا۔ مہاتما گاندھی نے 8 اگست 1942ء کو اپنے خطاب میں کہا کرو یا مرو، مہاتما گاندھی کے سخت بیان کے بعد کانگریس نے احتجاجی ریلیاں نکالیں اور انگریزوں سے ہندوستان چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔[1]ان سب چیزوں کا برطانوی حکومت نے سخت نوٹس لیا یہاں تک کہ مہاتما گاندھی سمیت کئی کانگریسی لیڈران گرفتار کیے گئے۔

ہندوستان چھوڑدو تحریک، بنگلور

مسلم لیگ نے اس تحریک کی کوئی حمایت نہیں کی اور نہ اس تحریک میں کانگریس کا ساتھ دیا۔ مسلم لیگ کے پارٹی بیان میں کہا گیا کہ مسلم لیگ کانگریس کو اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ اپنی شرائط بزورِ دست حکومت پر مسلط کرے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ انگریز سرکار کو بھی اجازت نہیں دے گی کہ وہ ہندوستان کو تقسیم کیے بغیر ہندوستان چھوڑ کر جائے۔[2]

گاندھی کی تقریر کے چند گھنٹوں کے اندر ہی انڈین نیشنل کانگریس کے تقریباً تمام رہنما کو قید کر لیا گیا۔ اور ان مقید رہنماؤں میں سے اکثر نے تحریک کا کا زیادہ تر وقت جیل کے اندر گزارا جہاں وہ عوام سے یکسر منقطع تھے۔ برطانوی حکومت کو وائسرائے کونسل (جو ہندوستان کی اکثریت تھی)، آل انڈیا مسلم لیگ، نوابی ریاستوں، انڈین امپیریل پولس، برطانوی ہندی فوج اور انڈین سول سروسز کی حمایت حاصل تھی۔ متعدد تاجروں نے بھی اس تحریک کا ساتھ نہیں دیا۔ زیادہ تر طلبہ سبھاش چندر بوس پر اپنی توجہ مرکوز کیے تھے جو اس وقت محوری قوتوں کو اپنا تعاون دے رہے تھے۔ بیرون سے صرف ایک حمایت امریکا سے آئی جب امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے وزیر اعظم ونسٹن چرچل پر ہندوستانیوں کی کچھ مانگیں تسلیم کرنے کا دباؤ ڈالا۔ ہندوستاں چھوڑو تحریک کو ختم کر دیا گیا۔ برطانیہ نے فوری آزادی دینے کے صاف انکار کر دیا[3] اور کہا کہ آزادی جنگ کے ختم ہونے کے بعد ہی مل سکتی ہے۔

اس تحریک کے دوران میں پورے ملک میں چند فسادات ہوئے اور حکومت نے اکثر رہنماؤں کو قید کر لیا جنہیں 1945ء تک ہی رہا کیا جا سکا۔ یہ ایک ناکام تحریک تھی اور اس کی ناکامی کی وجہ چوطرفہ دباؤ، کمزور باہمی ہم آہنگی اور واضح حکمت عملیوں کی کمی تھی۔ لیکن برطانیہ کو احساس ہو گیا کہ جنگ عظیم کے بعد ہندوستان میں زیادہ دنوں تک حکومت کرنا دشوار ہو گا اور جنگ کے بعد ان کو یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا کہ کیسے پرامن طریقے سے ہندوستان کو خیر آباد کہا جائے۔ 1992ء میں ریزرو بینک آف انڈیا نے ہندوستان چھوڑو تحریک کی گولڈن جبلی دبیز متنکے موقع پر ایک روپیہ کا نوٹ جاری کیا۔ [4]

دوسری جنگ عظیم اور ہندوستان کی شمولیت

ترمیم

1939ء میں ہندوستانی قوم پرست برطانوی حکومت سے اس بات پر ناراض تھے کہگورنر جنرل ہندنے ان سے مشورہ کیے بغیر ہندوستان کو جنگ کا حصہ بنا دیا تھا۔ مسلم لیگ نے جنگ میں حمایت کی جبکہ کانگریس میں آپسی اختلاف قائم ہو گیا۔ جنگ کے آغاز کے بعد کانگریس نے ستمبر 1939ء میں واردھا کے اجلاس میں فاشسزم کے خلاف جنگ کی شرطیہ حمایت کرنے کا اعلان کیا۔[5] لیکن جب بدلے میں اس نے آزادی کی شرط رکھی تو انگریز مکر گئے۔ گاندھی اس اقدم سے خوش نہیں تھے، وہ کبھی جنگ کے میں حمایت میں نہیں رہے، انھوں نے تحریک آزادی ہند میں بھی عدم تشدد کی وکالت کی، یہی نہیں بلکہ ہٹلر اور بینیتو موزولینی کے خلاف بھی عدم تشدد کی وکالت کی۔ لیکن معرکہ برطانیہ میں گاندھی نے فاشزم کے خلاف جنگ کی وکالت کی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستان کو آزادی برطانیہ کی خاک سے ملے۔برطانیہ نے ہمیشہ ہندوستان کو ایک بازار کی طرح سمجھا،جہاں سے دولت کماکر اپنے ملک میں خرچ کیا کرتے تھے اسی لیے اس نے کبھی ہندوستان میں سرمایہ کاری نہیں کی۔ اس کی ہندوستان میں سرمایہ کاری نہ کرنے کی پالیسی کی وجہ سے ہندی فوج طاقت اور اسلحہ کی کمی کا شکار ہو گئی۔ ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی اور اور عام اشیا کی قیمتیں دوگنی ہو گئیں۔ حالانکہ کچھ ہندوستانی تاجروں کو اس سے فائدہ ہوا مگر عمومی طور پر ہندوستانی تجارت کا نقصان ہوا اور تاجر خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے تھے _[6]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. 1942 Quit India Movement | Making Britain
  2. Martin Sieff, Shifting superpowers: the new and emerging relationship between the United States, China, and India (2009) p 21
  3. Arthur Herman (2008)۔ Gandhi & Churchill: The Epic Rivalry That Destroyed an Empire and Forged Our Age۔ Random House Digital۔ صفحہ: 494–99۔ ISBN 978-0-553-80463-8۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اگست 2018 
  4. 1 Rupee Coin of 1992 – Quit India Movement Golden Jubilee, "Archived copy"۔ 6 اپریل 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مارچ 2017 
  5. Official Website of the Indian National Congress, sub-link to article titled The Second World War and the Congress. "Archived copy"۔ 5 اکتوبر 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2006  URL accessed on 20-Jul-2006
  6. Raghavan, Srinath, India's War – The Making of Modern South Asia 1939–1945, Allen Lane, London, 2016, آئی ایس بی این 978-1-846-14541-4، p. 320