یکتا امروہوی
سید واحد علی یکتا امروہوی (پیدائش: 1911ء - 14 جولائی 2003ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب، صحافی اور بچوں کے دو درجن سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ وہ کچھ عرصہ ریاست خیرپور کے والی ہزہائنس میر علی مراد تالپر کے اتالیق بھی رہے۔ انھوں نے غزل، مثنوی، مرثیہ، سلام اور نظم کی اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی۔
یکتا امروہوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (اردو میں: سید واحد علی نقوی) |
پیدائش | سنہ 1911ء امروہہ ، اتر پردیش ، برطانوی ہند |
وفات | 14 جولائی 2003ء (91–92 سال) کراچی ، پاکستان |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | الہ آباد یونیورسٹی |
پیشہ | شاعر ، صحافی |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمیکتا امروہوی 1911ء میں امروہہ، ضلع مراد آباد، اتر پردیش ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔[1] ان کا اصل نام سید واحد علی نقوی تھا مگر یکتا امروہوی کے قلمی نام سے شہرت پائی۔ یکتا نے ابتائی تعلیم سید المدارس، نور المدارس اور باب العلم نوگانواں سے حاصل کی۔ مزید تعلیم میرٹھ کے منصبیہ کالج سے حاصل کی۔ جامعہ الہٰ آباد سے منشی فاضل کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد دہلی چلے گئے، جہاں نیشنل پبلک لائبریری کے مہتمم مقرر ہوئے۔ انھوں نے اس لائبریری کے ماہنامہ قوم میں بحیثیت ایڈیٹر بھی خدمات انجام دیں۔ بچپن ہی سے طبیعت شعر و سخن کی طرف مائل تھی۔ ان کی غزلیں، نظمیں، گیت اور نعتیں آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوا کرتی تھیں۔ انھوں نے سینکڑوں طویل و مختصر کہانیاں نہایت دلچسپ عنوانات کے تحت لکھیں۔بچوں کے لیے بھی لاتعداد نظمیں لکھیں۔ یکتا امروہوی تقسیم ہند کے فوراً بعد پاکستان منتقل ہو گئے۔ 1948ء سے 1951ء تک پاک ہیرالڈ کے رسالے 'خاتونِ پاکستان' کے شعبہ ادارت سے منسلک رہے۔[2] کچھ عرصہ کراچی میں قیام کے بعد خیرپور چلے گئے جہاں والیِ ریاست خیرپور میر علی مراد تالپر کے اتالیق مقرر ہوئے۔ خیرپور میں بھی ان کی ادبی سرگرمیاں حاری رہیں۔ خیرپور میں سہ روزہ مراد کے مدیر رہے۔ بچوں کا ایک رسالہ کہانی کے عنوان سے نکالا۔ ان کی تصانیف میں تقسیم ہند کے موضوع پر نثر میں خونی ہے ہندوستان، شعری کتب میں شاہنامہ کربلا (مثنوی)، درود اُن پر (مجموعہ نعت، 1975ء)، سلام اُن پر (غزلیہ دیوان کے طرز پر سلام کا مجموعہ) شامل ہیں۔[3]
وفات
ترمیمیکتا امروہوی 14 جولائی 2003ء میں کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔ وہ قبرستان بہشتِ زہرا، نارتھ کراچی میں آسودہ خاک ہیں۔[1]
نمونۂ کلام
ترمیمنعت
طے ہو گیا شہرِ رسالت کا راستہ | مل جائے گا مدینے سے جنت کا راستہ | |
دل میں حصولِ قربتِ شہ کی یے آرزو | قربت یہی تو حق سے ہے قربت کا راستہ | |
ہو جائے خود ہی دولتِ دنیا و دیں نصیب | مل جائے آپ کے درِ دولت کا راستہ | |
سچی اگر ہو قلبِ طلب گار میں طلب | کٹ جائے چند روز میں مدت کا راستہ | |
یکتا! ضیائے شمعِ سلام و درود سے | روشن ہوا ہے حسنِ عقیدت کا راستہ |
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات نعت گویان پاکستان، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2015ء، ص 114
- ↑ منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2016ء، ص 580
- ↑ کراچی کا دبستان نعت، ص 581