عباس ابن فرناس
ابن فرناس جن کا پورا نام عباس قاسم ابن فرناس تھا۔ وہ ایک موجد، مہندس، طیارچی، حکیم، شاعر اور موسیقار، طبعیات، ماہر فلکیات اور کیمیادان تھے۔[3][4][5][6][7]
عباس ابن فرناس | |
---|---|
(عربی میں: عباس بن فرناس) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (عربی میں: عبَّاس بن فِرناس بن وِرداس التاكِرني) |
پیدائش | سنہ 810ء [1] رندہ |
وفات | سنہ 887ء (76–77 سال)[2] قرطبہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | موجد ، طبیب ، کیمیادان ، موسیقار ، شاعر ، ماہر فلکیات |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
شعبۂ عمل | طبیعیات |
درستی - ترمیم |
ابتدائی حالات
ترمیموہ اندلس ( مسلم اسپین ) کے شہر اذن۔ رند۔ اوندا (Izf-Rand Onda) میں 810ء میں پیدا ہوئے اور بعد میں 'قرطبہ' میں رہائش اختیار کی۔ عباس ابن فرناس بربرنژاد اور جنوبی اسپین کے ضلع تکرنہ (Ronda) کا باشندہ تھا۔ اس نے اپنی تمام عمر قرطبہ میں بسر کی اور اپنے علم و حکمت کی بنا پر اُس زمانے کا عظیم ترین سائنس دان کہلایا۔ اس کی ایجادات اور اختراعات بے شمار ہیں اور اگر اسے اپنے زمانے کا نابغہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔
علمی کارنامے
ترمیموہ علم ریاضی، شاعری، طبعیات، پراسرار علوم کا ماہر اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں یکتا تھا۔ اس نے پانی کی گھڑی ایجاد کی، کرسٹل بنانے کا فارمولا بنایا اور تو اور اپنی تجربہ گاہ میں اس نے شیشے اور مشینوں کی مدد سے ایک ایسا پلانیٹیریم بنایا جس میں لوگ بیٹھ کر ستارے، بادلوں کی حرکت اور ان کی گرج چمک کا مظاہرہ دیکھ سکتے تھے ۔
اس کی ریاضی میں مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ایک دفعہ ایک تاجر بلاد مشرق کے سفر سے واپسی پر مشہور مسلمان عالم خلیل بن احمد کی کتاب اپنے ساتھ لایا۔ خلیل ایک عالم، شاعر اور ماہر لسانیات تھا جو آٹھویں صدی میں بغداد میں ہو گذرا تھا۔ اس کا ایک کارنامہ عربی کی پہلی لغت تیار کرنا ہے۔ اس نے شاعری میں علم عروض اورحسابی تقطیع کی بنیاد ڈالی تھی۔ یہ کتاب اسپین میں بالکل نئی آئی تھی اور کوئی اس کے مندرجات سے واقف نہیں تھا اور نہ اس کی تشریح کرنے پر قادر تھا چنانچہ یہ کتاب ابن فرناس کے سپرد کی گئی۔ وہ اسے لے کر ایک گوشے میں چند ساعت کے لیے بیٹھ گیا اور اس کے بعد اُس نے اس کتاب کی ریاضیاتی ترکیب اور مطالب بڑی وضاحت سے اپنے حاضرین کو بیان کیے جسے سن کر وہ اس کی مہارت اور یادداشت پر ششدر رہ گئے ۔
کارہائے نمایاں
ترمیم822ء میں جب نیا خلیفہ عبد الرحمان دوم تخت نشین ہوا تو اس نے دنیا سے تمام با صلاحیت افراد کو اکٹھا کرنا شروع کیا تو ان میں سے ایک ابن عباس بھی تھے۔
خلیفہ عبد الرحمان دوم کے زیر سرپرستی 852ء میں ایک بہادر شخص جس کا نام ارمن فرمن (Armen Firman) تھا اس نے پروں کی طرح کی ایک بڑی سی چادر کے ذریعے قرطبہ کی ایک اونچی عمارت سے اڑنے کی کوشش کا مظاہرا کیا اس کے لیے لوگوں سے شرط بھی لگائی کیا مگر وہ فوراً ہی نیچے گر گیا اور اس کو معمولی سی چوٹیں آئیں۔ ارمن کسی حد تک اپنی شرط جیت گیا تھا۔ اس کو دنیا کا سب سے پہلا پیرا شوٹ بھی کہا جاتا ہے۔ عباس ابن فرناس بھی یہ دیکھنے کے لیے وہاں پر موجود تھے۔ اس کے بعد ابن فرناس نے بھی اُڑان پر تجربات کرنا شروع کر دیے اور تئیس سال بعد ان کا تجربہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔
اس کا سب سے بڑا کارنامہ تاریخ میں پہلی انسانی پرواز ہے۔ وہ گھنٹوں پرندوں کو محو پرواز دیکھ کر انھیں کی طرح اڑنے کا خواہش مند تھا۔ اس نے کئی برس پرندوں کی پرواز کی تکنیک یعنی ایروڈائنامیکس کا بغور مطالعہ کیا اور ایک دن یہ اعلان کیا کہ انسان بھی پرندوں کی طرح اڑ سکتا ہے۔ جب اس کے ناقدین نے اُس کا مذاق اڑایا تو اس نے اپنی تھیوری کا عملی مظاہرہ بذات خود کرنے کا اعلان کر دیا ۔
اس نے پرندوں کے سے دو پر سائز میں اپنے وزن کے مطابق تیار کیے اور ان کے فریم ریشم کے کپڑے سے منڈھ دیے۔ پھر قرطبہ سے دو میل دور شمال مغرب میں واقع امیر عبد الرحمن الداخل کے بنائے ہوئے محل رصافہ کے اوپر واقع ایک پہاڑی پر چڑھ گیا اور کئی سو تماش بینوں کی موجودگی میں چٹان کے اوپر کھڑا ہو کر دونوں پر اپنے جسم کے ساتھ باندھ لیے۔ تماشائی بڑی حیرت اور تعجب سے یہ ساری کارروائی دیکھ رہے تھے ان کا خیال تھا کہ ابھی اسی کوشش میں اس پاگل سائنسدان کی ہڈیاں تک سلامت نہیں بچیں گی۔ اپنی تیاریاں مکمل کرنے کے بعد ابن فرناس نے تماشائیوں کی جانب ایک نظر دیکھا اور پھر پہاڑی سے چھلانگ لگا دی۔ وہ اپنے پروں کی مدد سے ہوا میں کچھ دیر تیرتا رہا اور پہاڑ سے کچھ فاصلے پر واقع ایک میدان میں بحفاظت اتر گیا، اگرچہ اس کی کمر لینڈنگ کے دوران دباو کی وجہ سے تھوڑی بہت متاثر ہوئی۔ اس وقت اس کی عمر 65 یا 70 برس بیان کی جاتی ہے۔ یہ واقعہ نویں صدی کے دوسرے ربع میں پیش آیا اور اس طرح وہ انسانی تاریخ کا ہوا میں پہلا اڑنے والا انسان کہلایا ۔
اس نے اپنا تجربہ اسی جگہ پر ارمان کی چھلانگ کے تقریباً تئیس برس بعد کیا۔ یہ جگہ ایسی پہاڑیوں پر مشتمل تھی جس کے نیچے ایک بہت بڑا ہموار قطعہ زمیں واقع تھا۔ اس جگہ ہوا نیچے زمین سے ہو کر پہاڑیوں سے ٹکراتی تھی اور اس کے بعد بلندی کی جانب جاتی تھی۔ وہاں پرندے ہوا کی اس قوت کی وجہ سے دوران پرواز فضا میں معلق رہنے کا مزہ اٹھاتے تھے۔ ابن فرناس نے پچھلے تئیس برس ایروڈانامیکس کا مطالعہ کرتے ہوئے گزارے تھے۔ مقررہ دن چھلانگ لگانے کے بعد ابن فرناس ہوا میں کچھ روایات کے مطابق دس سیکنڈ پرواز کرتا رہا مگر لینڈنگ کے دوران زمین سے بری طرح ٹکرایا۔ اس کی کمر اور چند دوسری ہڈیاں متاثر ہوئیں جس کی وجہ سے وہ ایک عرصہ صاحب فراش رہا۔ مگر وہ کچھ مدت بعد اپنی اس معذوری اور بڑھاپے کے باوجود چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا۔ یہ درد اور معذوری اس کی بقیہ عمر کے بارہ سال تک اس کے ساتھ رہی۔ قدامت پرست لوگوں کا کہنا تھا کہ خدا نے اس کو سزا دی ہے کیونکہ اس نے فانی انسان ہوتے ہوئے خدا کی دوسری مخلوق کی طرح بلندی پر جانا چاہا تھا۔ اس طرح کے طعنے وہ اپنی بقیہ عمر جب بھی عوام کے درمیان جاتا لوگوں سے سنتا رہا۔ اپنی جسمانی تکلیف کو کم کرنے کی خاطر وہ شراب اور نشہ آور ادویات کا سہارا لیتا رہا۔ تاہم ان بقیہ سالوں میں اس نے اپنے پلانیٹیریم کو امیر اندلس کی فرمائش پر موبائل بنایا۔ ریت سے بلور بنانے کا کام جاری رکھا، پانی اور دوسری قسم کی گھڑیاں بنانا بھی جاری رکھا ۔
اپنے فارغ وقت میں وہ اکثر غور کرتا کہ آخر پرواز کرنے والے سوٹ میں کیا خرابی تھی جس کی وجہ سے اسے چوٹ کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ اس کی سمجھ میں یہی آیا کہ پرندے اپنی پرواز اور لینڈنگ کے دوران اپنی دم کا استعمال کرتے ہیں۔ اس نے پر تو بنا لیے تھے مگر دم کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکا تھا۔ اسے اپنی اس غلطی کا احساس شاید آخری سانس تک رہا ۔
ابن فرناس کے گزرنے کے کئی سال بعد تقریباً 1010ء میں ایک یورپی راہب ایلمر مالسمبری (Eilmer of Malmesbury)نے بھی عباس ابن فرناس کے بنائے ہوئے ڈیزائن کے مطابق اڑن مشین بنائی اور اس کے مزید کچھ صدیوں بعد پندرہویں صدی میں لیونارڈو ڈاؤنچی نے اس میں اضافہ کیا ۔
علم ہیئت اور فلکیات (Astronomy) اور علوم نجوم (Astrology) کے ضمن میں اندلسی مسلمان سائنسدانوں میں اگرچہ علی بن خلاق اندلسی اور مظفرالدین طوسی کی خدمات بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں، مگر ان سے بھی بہت پہلے تیسری صدی ہجری میں قرطبہ (Cordoba)کے عظیم سائنسدان عباس ابن فرناس نے اپنے گھر میں ایک کمرہ تیار کر رکھا تھا جو دور جدید کی سیارہ گاہ (Planetarium) کی بنیاد بنا۔ اس میں ستارے، بادل اور بجلی کی گرج چمک جیسے مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ عباس ابن فرناس وہ عظیم سائنس دان ہے جس نے دنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز بناکر اڑایا۔ بعد ازاں البیرونی (Al-berouni) اور ازرقیل (Azarquiel) وغیرہ نے (Equatorail Instruments) کو وضع کیا اور ترقی دی۔[8]
اس نے قلمی چٹانوں کو توڑنے کے لیے مشین بنائی اور تال ترازُو (Metribine) بھی بنائی۔ اس کے علاوہ آبی گھڑی بھی ایجاد کی ۔
اعزازي یادگار
ترمیم- عباس ابن فرناس کے نام پہ چاند میں ایک گڑھے کا نام بھی رکھا گیا ہے۔[9]
- ہسپانیہ میں ابن فرناس کے نام پر ایک برج بنایا گیا
- دبئی کے ابن بطوطہ شاپنگ مال میں ابن فرناس کا مجسمہ اڑان کے تجربات کے حالت میں نصب کیا گیا
- ہسپانیہ میں اس کا مجسمہ بناکر نصب کیا گیا ۔
- سال 2013 رولز رائس نے ایک لمیٹڈ ایڈیشن متعارف کروایا۔ اڑتے شخص کى شکل کے ساتھ ڈاک ٹکٹ، سڑکیں، ہوائی اڈے اور کمپنیاں تو ان سے منسوب تھے ہی، یہ پہلی بار تھا کہ لگژری گاڑیاں بنانے والی ایک عالمی کمپنی نھی ان سے جڑنے کا اعزاز حاصل کر رہی تھی۔ یہ نویں صدی کے موجد عباس ابنِ فرناس تھے، امریکی مستشرق فِلپ حِتی کے مطابق تاریخ میں پہلے شخص جنھوں نے سائنسی طور پر پرواز کی کوشش کی۔
- اسی کارنامے کے اعتراف میں 1973 میں عراق میں بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ابن ِفرناس کا مجسمہ نصب کیا گیا۔
- 1976 میں بین الاقوامی فلکیاتی یونین (آئی اے یو) نے چاند پر ایک گڑھے کا نام ابنِ فرناس رکھنے کی منظوری دی۔
- 2011 میں قرطبہ میں ایک پُل کا نام ان کے نام پر رکھا گیا۔ ایک برطانوی ہوائی کمپنی کا نام فرناس ایئر ویز رکھا گیا۔
- لیبیا نے ڈاک ٹکٹ بنائے۔ بغداد کے شمال میں ابن ِفرناس ائیرپورٹ پر تو 2003 میں جنگ بھی ہوتی رہی۔ دبئی کے ابن بطوطہ مال میں ان کی پرواز کا نمونہ ایک چھت پر سجا ہے۔
تنازع
ترمیمکہا جاتا ہے کہ اس کی موت کی وجہ پرواز کے تجربات تھے۔ جس کے متعلق اس دور کے قدامت پسند طبقے اس کی موت کو خود کشی قرار دے کر اسے قابل نفرت بنانا چاہتے تھے۔ چند مورخین کہتے ہیں کہ ارمان فرمان دراصل ابن فرناس کا لاطینی نام ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Vatican Library VcBA ID: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=8034&url_prefix=https://opac.vatlib.it/auth/detail/&id=495/34617455555555555555 — بنام: ʹAbbās Ibn Firnās
- ↑ مصنف: خیر الدین زرکلی — : اشاعت 15 — جلد: 3 — صفحہ: 264 — الأعلام
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 10 مارچ 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اپریل 2013
- ↑ http://i1187.photobucket.com/albums/z396/deemi_pk/My%20Posts/Abbas_1.png
- ↑ https://sites.google.com/a/brvgs.k12.va.us/wh-11-sem-1-islamic-civilization-ogm/invention-page-sample/islamic-flying-machines[مردہ ربط]
- ↑ %D9%81%D8%B1%D9%86%D8%A7%D8%B3/ عباس ابن فرناس (تحریر از ریاض شاہد)[مردہ ربط]
- ↑ مائیکل ہملٹن مورگن کی کتاب "لوسٹ ہسٹری" ( جو نیشنل جیو گرافک سوسائٹی واشنگٹن ڈی سی نے 2007 میں شائع کی)
- ↑ الطاف حسین میمن طاہری (رسالہ الطاہر ) (شمارہ 48، ذیقعد 1428ھ بمطابق دسمبر 2007ء)۔ "مسلمان سائنسدان"۔ جماعت اصلاح المسلمین روابط خارجية في
|publisher=
(معاونت) - ↑ http://www.essortment.com/all/firstflight_rrri.htm[مردہ ربط]
- ↑ عباس ابنِ فرناس: پرندوں جیسے پر باندھ کر فـضا میں اڑنے والے پہلے انسان کون تھے؟,