پلوٹو (علامتیں: [14] یا [15]) ایک بونا سیارہ ہے جو 1930ء میں دریافت ہوا تھا۔ پلوٹو 1930ء سے 2006ء تک نظامِ شمسی کے نویں سیارے کے طور پر جانا جاتا رہا ہے۔ لیکن 2006ء میں اس کی ایک شمسی سیارے سے تنزلی کرکے ایک بونے سیارے کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہ نظامِ شمسی کا ایک بہت اہم فیصلہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ تقریباً پچھتر سال تک درسی کتابیں سورج کو نو سیاروں والے ستارے کے طور پر روشناس کرواتی رہی ہیں۔ پلوٹو 2 ہزار 370 کلومیٹر چوڑا ہے۔
پلوٹو
Near-true-color image[1] of Pluto taken by the نیو ہورائزنز spacecraft on 13 July 2015.
پلوٹو کو بونے سیارے کا ایک ماتحت رتبہ اس وقت ملا جب 24 اگست 2006ء کو پراگ میں ہونے والے بین الاقوامی فلکیاتی اتحاد کے ایک عام اجتماع میں شمسی سیارے کی ایک نئی تعریف[16]
کو اتفاقِ رائے سے منظور کیا گیا۔ اس اجتماعِ عام میں تقریباً اڑھائی ہزار فلکیات دانوں نے حصہ لیا۔ اور ایک طویل بحث و مباحثے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا۔[17]
پلوٹو کا مدار نیپچون کے مدار کو قطع کرتا ہے اور اس کا حجم نظامِ شمسی میں واقع کئی چاندوں سے بھی چھوٹا ہے اور اسے کسی معمولی دوربین سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ غیر متوازی مدار اور اس کی ظاہری ہیت پلوٹو کی ایک سیارے سے تنزلی کی بڑی وجہ بنی تھی۔
اس کی دریافت فلیگ اسٹاف مشاہدہ گاہ کے پروفیسر ٹوم بگ نے 1930ء میں کی تھی۔ سورج سے تین ارب 67 کروڑ میل کے فاصلے پر ہے۔ سورج کے گرد 247 سال اور 225 دنوں میں اپنی گردش پوری کرتا ہے۔ اور اس کا دن زمین کے 6 دن ، 9 گھنٹے 17 منٹ کے برابر ہوتا ہے۔
یہ بونے سیاروں کی اس قسم تعلق رکھتا ہے جسے ابھی تک کوئی نام نہیں دیا گیا۔
2۔ ایک یونانی اساطیر کا ایک دیوتا جس کی سیادت عالم اسفل پر تھی۔ یورینس اور ریہہ کا بیٹا اور پوسائڈن اور زیوس کا بھائی تھا۔ عالم سماوی کی بادشاہی کے لیے اپنے بھائیوں سے لڑا۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی اور عالم اسفل کی بادشاہی پر قانع ہو گیا۔ جہاں اپنی ملکہ پرسیفون کے ساتھ حکمرانی کرتا رہا۔ نہایت سخت گیر ، عبادات اور قربانیوں سے رام ہونے والا۔ لیکن عدل پسند دیوتا تھا۔ مدفون خزانوں کا مالک تھا اور اس کی سخت گیر طبیعت میں محض اور فیس کی موسیقی ہی گداز پیدا کیا کرتی تھی۔
خلائی مشن نیو ہورائزنز کی تصاویر کے مطابق، جو اس نے پلوٹو کے قریب سے یعنی 12 ہزار 500 کلومیٹر کی دوری سے لی ہیں، ان میں ایک تصویر میں دل کی طرح کی جگہ واضح طور پر نظر آ رہی تھی جسے سائنسدانوں کی ٹیم نے کلائیڈ ٹومبا کا نام دیا ہے جب کہ کلائیڈ وہ سائنس دان تھا جس نے پہلی بار 1930ء میں پلوٹو کو دریافت کیا تھا۔
اس مشن کے اہم سائنس دان جان اسپینسر نے صحافیوں کو بتایا پلوٹو کی سطح پر قریب سے لی گئی پہلی تصاویر میں نظر آرہا ہے کہ گذشتہ 10 کروڑ سال کے دوران آتش فشانی جیسے ارضیاتی عمل کے نتیجے میں یہاں زمینی سلسلہ نمودار ہوا ہے جب کہ اس تصویر میں ہمیں ایک بھی گڑھا نظر نہیں آیا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سلسلہ بہت زیادہ پرانا نہیں ہے۔
مشن کے چیف سائنس دان ایلن اسٹرن کا کہنا تھا کہ اب ان کے پاس ایک الگ دنیا میں چھوٹے سیارے کی معلومات ہیں جو ساڑھے 4 ارب برسوں کے بعد کی سرگرمی کو ظاہر کرتا ہے جب کہ اس نے سیارے کے بارے میں سائنس دانوں کے سابق نظریات کو بدل کر رکھ دیا ہے لہٰذا اس دریافت سے سائنس دان اب پلوٹو کا ازسرِ نو جائزہ لیں گے۔
اہلن اسٹرن کا تصاویر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ پلوٹو میں دل کی شکل والے علاقے کے کنارے پر 11 ہزار فٹ اونچا ایک پہاڑی سلسلہ ہے جس کا موازنہ سائنسدانوں نے شمالی امریکا کے پہاڑی سلسلے راکیز سے کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پلوٹو پر میتھین، کاربن مونو آکسائیڈ اور نائٹروجن والی برف کی ایک دبیز تہ ہے جو اتنی مضبوط نہیں کہ اس سے پہاڑی سلسلہ بن سکے تاہم پلوٹو کے درجہ حرارت پر برفیلا پانی بڑے پہاڑوں کو سہارا دیتا ہے جب کہ اس پر 4 سے 6 میل لمبا ایک شگاف ہے جو اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ وہاں پہاڑی سلسلہ متحرک ہے۔
نیو ہوریزنز منگل 14 جولائی کو گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق صبح 11:50 پر اس سیارے کے قریب ترین پہنچا اور اس کا پلوٹو سے فاصلہ صرف 12 ہزار 500 کلومیٹر تھا۔ پلوٹو کے قریب سے 14 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گزرتے ہوئے نیو ہورائزنز نے سیارے کی تفصیلی تصاویر کھینچیں اور اس کے بارے میں دیگر سائنسی معلومات اکٹھی کیں[19]۔
↑Color image produced using a black and white image from the Long Range Reconnaissance Imager (LORRI) that "has been combined with lower-resolution color information from the Ralph instrument that was acquired earlier on 13 July [2015]" Approaching Plutoآرکائیو شدہ(Date missing) بذریعہ solarsystem.nasa.gov (Error: unknown archive URL), nasa.gov