آدینہ بیگ خان

گورنر پنجاب

آدینہ بیگ خان یا دینہ آرائیں (پیدائش: 1710ء— وفات: 15 ستمبر 1758ء) واحد پنجابی مسلمان حکمران ہیں جنہوں نے پورے متحدہ پنجاب سمیت سندھ سے جمنا تک آزاد حکمرانی کی۔

آدینہ بیگ خان
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1710ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شرقپور شریف ،  ضلع شیخوپورہ ،  پنجاب   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 15 ستمبر 1758ء (47–48 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بٹالا ،  ضلع گورداسپور ،  پنجاب   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات قولنج   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن خان پور، ہوشیار پور ،  ضلع ہوشیارپور ،  پنجاب   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فوجی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی ،  پنجابی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

آدینہ بیگ کی ابتدائی زندگی پردہ اخفا میں ہے جبکہ ابتدائی حالات ایک مجہول الاسم (نامعلوم الاسم) مصنف کے رسالہ دینا بیک خان سے ملتے ہیں جو اُس کی وفات کے تقریباً 50 سال بعد مرتب ہوا تھا، حالانکہ اِس رسالے میں بیشتر واقعات اور سالوں کا اندراج غلط ہے لیکن ابتدائی حالات کے متعلق یہی رسالہ مفید ثابت ہوا ہے۔ مصنف رسالہ ہذا کے مطابق آدینہ بیگ ارائیں قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ آدینہ بیگ کی پیدائش موضع سرک پور پیٹی (موجودہ شرقپور) متصل لاہور میں ہوئی۔تقریباً سال پیدائش 1710ء قرار دیا جا سکتا ہے۔[1] اُس کا ابتدائی نام دینہ بیگ تھا۔[2] آدینہ بیگ کے والد کا نام چَنُّو تھا۔ابتدائی تربیت مغلوں کے گھرانوں میں ہوئی اور اُس کا وقت زیادہ تر جلال آباد، خان پور (ہوشیار پور کے قریب جنوب مشرقی سمت میں 2 میل کے فاصلہ پر آباد موضع) میں گذرا۔ وہ نہایت مفلس آدمی تھا۔[3] اولاً سپاہیانہ زندگی بسر کی مگر بعد ازاں موضع جیووال سلطان پور کے قریبی علاقہ کنگ جو علاقہ لوہیاں میں واقع تھا، میں محصل (ٹیکس وصول کنندہ) مقرر ہوا۔[4] بہت جلد ہی وہ ایک ہندو ساہوکار لالہ سری نِواس دِھیر کی سرپرستی میں آگیا جو سلطان پور کا امیرساہوکار تھا۔ لالہ سری نواس کی ضمانت پر آدینہ بیگ کو علاقہ کنگ کے پانچ چھ گاؤں اور اگلے سال سارا علاقہ کنگ اجارے پر مل گیا۔ 1738ء کے قریب اُس کو لاہور طلب کر لیا گیا جہاں نواب زکریا خان بہادر سے اُس کی ملاقات ہوئی اور اِس کی خدمات کو دیکھتے ہوئے نواب زکریا خان بہادر نے اُسے سلطان پور کا حاکم مقرر کیا اور لالہ سری نواس دِھیر کو سلطان پور کا فوجدار مقرر کر دیا۔1752ء میں اُس نے گورداس پور سفر کے دوران میں دینا نگر کی بنیاد رکھی۔[5]

بحیثیت گورنر

ترمیم

نادر شاہ کے حملہ ٔ نادری 1739ء کے وقت آدینہ بیگ سلطان پور کا ہی حاکم تھا۔ نادر شاہ 6 فروری 1739ء کو لاہور سے دہلی کے سفر کو نکلا تھا۔[6] حملہ ٔ نادری 1739ء کے خطۂ پنجاب میں افراتفری پھیل گئی اور سکھوں نے زور پکڑا تو اُن کی سرکوبی کے لیے آدینہ بیگ کو جالندھر اور دوآبہ کا ناظم مقرر کر دیا گیا۔[7] آدینہ بیگ نے سکھوں کی سرکوبی کی بجائے اُن کی حوصلہ افزائی کرنا شروع کردی مگر نواب زکریا خان بہادر کے دباؤ سے مجبور ہوکر اُسے سکھوں کے خلاف اقدامات کرنا پڑے اور اپنے علاقے سے سکھوں کو نکال دیا۔ اِسی دور میں جب آدینہ بیگ نے نواب زکریا خان بہادر کو سرکاری روپیہ اداء نہ کیا تو اُسے گرفتار کر لیا گیا اور سختیاں بھگتنا پڑیں۔[8] (وہ نواب زکریا خان بہادر کے عہد میں عُمَّال میں داخل ہو چکا تھا، اِن دِنوں میں موردِ عتاب ہوا تو ضرب و شلاق تک نوبت پہنچی)۔ اِن سختیوں میں اُس کے بدن پر نشان باقی رہے۔[3] ایک سال کے بعد اُسے لاہور کے زندان سے رہائی ملی اور اُسے شاہنواز خان کے ماتحت نائب ناظم مقرر کر دیا گیا۔ اِس طرح وہ آئندہ سرکاری روپیہ ادا کرنے میں محتاط ہو گیا۔

زکریا خان بہادر کے انتقال کے بعد

ترمیم

یکم جولائی 1745ء کو نواب زکریا خان بہادر کا لاہور میں انتقال ہو گیا اور اُس کے انتقال کے بعد اُس کے دونوں بیٹوں یحییٰ خان اور شاہنواز خان میں گورنری کے سلسلے میں رسہ کشی شروع ہو گئی۔[9] آدینہ بیگ نے دونوں سے تعلقات استوار رکھے۔ شاہنواز خان نے مرکزی حکومت (یعنی مغلیہ سلطنت) کی مرضی کے خلاف 21 مارچ 1746ء کو کوڑامل کو اپنا دِیوان بنالیا اور آدینہ بیگ کو جالندھر اور پنجاب دوآبہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ اِسی زمانے میں نادر شاہ 19 جون 1747ء کو اصفہان میں قتل ہو گیا اور اُس کی جگہ احمد شاہ ابدالی قندھار اور کابل کا حکمران ہو گیا۔ شاہنواز خان نے مرکزی حکومت کے خوف سے آدینہ بیگ کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے احمد شاہ ابدالی سے ساز باز کرلی اور اُسے خطۂ پنجاب پر حملے کی دعوت دی۔ دوسری جانب آدینہ بیگ نے اِن حالات کی خبر دہلی میں مرکزی حکومت کو بھی کردی۔ احمد شاہ ابدالی پنجاب کی طرف بڑھا لیکن اس دوران میں شاہنواز خان نے اپنا ارادہ تبدیل کر دیا۔ احمد شاہ ابدالی سے جنگ کے نتیجے میں شاہنواز کو پنجاب سے بھاگنا پڑا اور وہ دہلیپہنچا۔ احمد شاہ ابدالی آگے بڑھتا ہوا سرہند تک پہنچ گیا۔ وزیر قمر الدین خان سرہند سے 10 میل شمال مغربی سمت میں منوپور کے مقام پر گولی لگنے سے جاں بحق ہوا لیکن معین الملک معروف بہ میر منو روک تھام میں کامیاب ہو گیا اور آدینہ بیگ نے میرمنو کا ساتھ دیا اور اِس دوران میں وہ دو بار زخمی بھی ہوا۔[10]

وفات

ترمیم

آدینہ بیگ 12 محرم 1151ھ مطابق 15 ستمبر 1758ء کو بٹالہ میں قولنج کے مرض سے فوت ہوا۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Adina Beg – from Patwari to Subedar of Punjab
  2. Dina Arain: the master ‘double game’ player - Newspaper - DAWN.COM
  3. ^ ا ب غلام علی: عماد السعادت، صفحہ 69۔ مطبوعہ نول کشور، لکھنؤ، 1897ء
  4. پنجاب ہسٹاریکل سوسائٹی: جرنل آف دی پنجاب ہسٹاریکل سوسائٹی، جلد 6، صفحہ 25۔ مطبوعہ لاہور
  5. پنجاب ہسٹاریکل سوسائٹی: جرنل آف دی پنجاب ہسٹاریکل سوسائٹی، جلد 6، صفحہ 43۔ مطبوعہ لاہور
  6. لاک ہارٹ: نادر شاہ، صفحہ 131۔ مطبوعہ لندن، 1938ء
  7. ہری رام گپتا: مقالہ آدینہ بیگ خان، صفحہ 5۔ مطبوعہ جرنل آف دی پنجاب ہسٹاریکل سوسائٹی، جلد 6، صفحہ 23 تا 77۔ مطبوعہ لاہور
  8. ہری رام گپتا: مقالہ آدینہ بیگ خان، صفحہ 6۔ مطبوعہ جرنل آف دی پنجاب ہسٹاریکل سوسائٹی، جلد 6، صفحہ 23 تا 77۔
  9. صمصام الدولہ شاہنواز خان: مآثر الامراء، جلد 2، صفحہ 107۔ مطبوعہ کلکتہ، 1890ء
  10. ہری رام گپتا: مقالہ آدینہ بیگ خان، صفحہ 6۔