اہلِ بیت اور صحابۂ کرام کی سیرت و مناقب پر اردو زبان میں اولین کتاب’’آل و اصحاب‘‘

تعارف ترمیم

عہدِرسالت سے لے کر آج تک امتِ مسلمہ اہلِ بیت سے محبت رکھتی ہے، اسی طرح صحابۂ کرام کی فضیلت پر بھی بے شمار احادیث موجود ہیں، ان کی عظمت اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ خود خالقِ کائنات نے اپنے کلام میں ان کی جا بجا تعریف فرمائی اور ان کو اپنی رضامندی کا پروانہ عطافرمایا،اہلِ بیت اور صحابۂ کرام کے درمیان توشروع سے محبت تھی، ایک دوسرے کااحترام واکرام تھا، وہ ایک دوسرے کی ثناخوانی میں رطب اللسان تھے، دین کی سربلندی،اس کے احیاکی کوششیں، اس کے نفاذکے لیے جدوجہد،رسول اللہ کی مدد کرنے میں ہمیشہ سرگرداں تھے اورخاکساری و انکسار کے نمونہ تھے،یہ بات ہر ایک کومعلوم ہے کہ اصحابِ رسول اورآلِ رسول افضل سے افضل تر لوگ ہیں۔[1]

یوں تو’’ آل و اصحاب ‘‘کی فضیلت نہایت بلند و بالاہے، اس موضوع پر چھوٹی بڑی سیکڑوں کتابیں اب تک لکھی جاچکی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز قائم ہے، تیرہویں صدی ہجری میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا رسالہ اہمیت کا حامل ہے، اس کے بعد سیّد اظہارحسنین (کھجوا،بہار)نے بھی 1350ھ میں’’ آل و اصحاب مسمّٰی مشعلِ ہدایت‘‘ نامی کتاب تصنیف کی۔[2]

اس سلسلے کی ایک کڑی پیشِ نظر کتاب ’’آل و اصحاب‘‘ ہے، اس کے مصنف حضرت شاہ اکبر داناپوری برصغیرکے معروف صوفی شاعر، مصنف، مؤرخ، محقق اورخانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کے سجادہ نشیں گذرے ہیں،ان کی شخصیت اور کارنامے تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔[3]

وجہ تسمیہ ترمیم

اس کتاب کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ حضرت شاہ اکبر داناپوری کے مریدین نے خواہش ظاہر کی کہ ہم لوگوں کے لیے اس سلسلے میں کچھ تحریر فرمادیں کہ اس باب میں بڑی رَدّ و قدح ہوئیں اورہنوزہوئی جاتی ہیں، لِہٰذابرادرانِ طریقت کے واسطے یہ رسالہ وجود میں آیا تا کہ آپ کے اعزّہ واقربا آل و اصحاب کے تعلق سے افراط وتفریط کا شکار نہ ہوں۔[4]

معلومات ترمیم

یہ رسالہ دو فصلوں پر مشتمل ہے، یہ حضرت رسول اللہ کے آل و اصحاب پر اردو زبان کی چند بنیادی تذکروں میں سے ایک ہے،پہلی فصل میں اہلِ بیت کی فضیلت حضرت فاطمہ زہرا،حضرت علی،حضرت حسن اور حضرت حسین کے مناقب جب کہ دوسری فصل میں صحابۂ کرام کی فضیلت اور حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی مرتضیٰ کے مناقب ہیں،پوری کتا ب قرآن و حدیث ، تفسیر وتاریخ اور تذکرہ و فائدہ سے مزین ہے، جگہ جگہ حضرت اکبرکی قیمتی آرا و اقوال، اس دور کے حالات و کوائف اور مولانا جلال الدین رومی،حافظ شیرازی، عبدالرحمٰن جامی،شیخ سعدی، نظامی گنجوی، فریدالدین عطار، خواجہ ہمام الدین علا، صائب تبریزی،مرزا عبدالقادر بیدل،خواجہ حیدرعلی آتش،مخدوم سجاد پاک ساجد،نسیم لکھنوی اور حضرت اکبر وغیرہ کے دل پسند اشعار سے یہ رسالہ نہایت پُرلطف ومعلوماتی ہو گیا۔[5]

علمی دلائل و براہین کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل،مشاجراتِ صحابہ اور چند تلخ حقائق پر بھی تبصرہ کیاگیاہے،ایک جگہ حضرت اکبراپنے والد قطب العصرحضرت مخدوم سجاد پاک سے حضرت امیر معاویہ کے نام میں لفظ ’’حضرت‘‘ اور ’’رضی اللہ عنہ‘‘ لگانے کے متعلق دریافت کرتے ہیں تو ارشاد ہوتا ہے کہ

’’ تم مجھ جیسے ہیچ مداں کو ’حضرت‘کہتے ہو جو اُن سے تیرہ سو سال بعد دنیا میں آیااورجوصحابۂ رسول ہو اورچشمِ ظاہرسے رسول اللہ کو دیکھاہو وہ کیوں کرعظمت کا مستحق نہیں ہو سکتا، جس طرح اؤلیا اللہ کو لفظ ’قدس سرہٗ‘اور ’رحمۃ اللہ علیہ‘سے یاد کرتے ہیں، اس طرح یہ لفظ صحابہ کے لیے مختص ہے، چوں کہ ان کا صحابہ ہونا مسلم ہے اس لیے یہ لفظ ان کے شایانِ شان ہے‘‘[6]

مشاجراتِ صحابہ پرحضرت اکبرکی نصیحت بھی نہایت قیمتی ہے۔

’’ اے میری آنکھوں کے نور اوردل کے سُرور! تمھاری خیریت اس میں ہے کہ صحابہ کی آپس کی لڑائیوں میں لب نہ کھولو،حضرت سیّدناعلی کے حقیقی بھائی عقیل تھے جن کے فرزند حضرت مسلم تھے، حضرت سیّدنا علی ان سے ناخوش تھے اوروہ جنگِ صفین میں حضرت امیر معاویہ کے ساتھ تھے اوردونوںمیں بہت اتحاد تھا، اُن حضرات کا فیصلہ ہو چکا ہے، اُن کی روحیں عالمِ ارواح میں معانقہ کر رہی ہیں، حضرت نور دیدۂ علی وبَتول وجگرگوشۂ رسولِ مقبول سیّدناحسن مجتبیٰ نے یہ حکم سنادیا، اِن مقدمات میں ذرا سی بھی جان باقی نہیں رہی‘‘ ( التماس المعروف بہ دین و دنیا،ملحقہ اشرف التواریخ جلد؍1،ص 637)

اہلِ بیت کے تذکرے میں حضرت اکبراپنے صاحبزادےحضرت شاہ محسن داناپوری کونصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’تم اپنے نسب کے ذریعہ سے بزرگ ہونا پسند نہ کرنا اس لیے کہ نسب حیوان کے لیے شرافت کا سبب ہے نہ کہ انسان کے لیے کیوں کہ حیوان کی طبیعت فطری ہے جیسے ماں باپ اس کے اصیل ہوں گے ویسا ہی وہ بھی ہوگا اورانسان کی طبیعت کسبی ہے‘‘[7]

کیفیت ترمیم

1301ھ موافق 1883 ء میں 2؍15x22-1سائز کے 48؍صفحات پر مشتمل منشی عابد حسین عابد (مدیراعلیٰ : اخبار انیس)کی فرمائش پر احسن المطابع، پٹنہ سے پہلی اشاعت ہوئی، اب اس کی دوسری اشاعت تقریباً140؍برس بعدخانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ سے ہوئی ہے۔[8]

حوالہ جات ترمیم

  1. ابوالعلائی ریان (2023)۔ آل و اصحاب۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ صفحہ: 11 
  2. ابوالعلائی ریان (2023)۔ آل و اصحاب۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ صفحہ: 11 
  3. ابوالعلائی ریان (2023)۔ آل و اصحاب۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ صفحہ: 12 
  4. ابوالعلائی ریان (2023)۔ آل و اصحاب۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ صفحہ: 13 
  5. ابوالعلائی ریان (2023)۔ آل و اصحاب۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ صفحہ: 13 
  6. ابوالعلائی ریان (2023)۔ آل و اصحاب۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ صفحہ: 13 
  7. ابوالعلائی ریان۔ آل و اصحاب۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ صفحہ: 13 
  8. ابوالعلائی ریان (2023)۔ آل و اصحاب۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ صفحہ: 13