ابو تمام

عربی زبان کا ایک شاعر

ابو تمام (پیدائش: 806ء — وفات: 29 اگست 846ء) عربی شاعر تھا جو خلیفہ المعتصم باللہ کے عہدِ خلافت میں عربی زبان کا سب سے بڑا قصیدہ گو شاعر تسلیم کیا جاتا تھا۔

ابو تمام
(عربی میں: أبو تمام ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (عربی میں: حبيب بن أوس بن حارث الطائي ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش سنہ 804ء (عمر 1219–1220 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جاسم [1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات موصل [1][2][3]،  بغداد [2]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [4]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل شاعری   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

سال پیدائش

ترمیم

ابوتمام کا نام حبیب بن اَوَس تھا۔ اُس کے بیٹے تمام کے قول کے مطابق اُس کی پیدائش 188ھ مطابق 804ء میں پیدا ہوا لیکن ایک اور قول جو خود ابوتمام سے منقول ہے، کے مطابق اُس کی پیدائش 190ھ مطابق 806ء میں ہوئی۔[5] ابوتمام کی پیدائش جاسم میں ہوئی جو بلاد الشام میں دمشق اور طبریہ کے درمیان ایک قصبہ ہے۔

ابوتمام کا باپ ثادُوس (Theodosius) تھا۔[6] ثادُوس ایک مسیحی تھا جس کی دمشق میں شراب کی دکان تھی۔ بعد ازاں ابوتمام نے اپنے باپ کا نام بدل کر اَوَس کر دیا۔ [7] اِس تبدیلی کے بعد اُس نے اپنے لیے ایک نیا نسب نامہ وضع کر لیا جس کی رُو سے اُس کا تعلق قبیلہ طے سے مل جاتا ہے۔ اِس غلط نسب نامے کی وجہ سے ہجویہ اَشعار میں اُس کا بہت مذاق اُڑایا گیا۔[8] بعد کے لوگوں نے اُس کے نسب نامے کو صحیح تسلیم کر لیا اور اِسی لیے بسا اَوقات اُسے ’’الطائی‘‘ یا ’’الطائی الکبیر‘‘ کہا جاتا ہے۔

دمشق اور مصر میں قیام

ترمیم

ابوتمام کی جوانی دمشق کے ایک جولاہے کے مددگار کی حیثیت سے گذری۔ [9] بعد کے سالوں میں وہ مصر چلا گیا جہاں اُس نے جامع الکبیر میں سقائی کے ذریعے کسب معاش حاصل کیا۔ اگرچہ اُسے عربی نظم اور اُس کے اُصول و قواعد کے مطالعے کا موقع بھی مل گیا۔ ابوتمام کی تاریخ وار سوانح مرتب کرنا مشکل ہے لیکن جب تک کہ وہ واقعات جو اُس کے کلام میں مذکور ہیں یا اُن لوگوں کے سوانح حیات جن کی اُس نے خود مدح سرائی کی، وہ صحیح طور پر متعین نہ ہوجائیں۔مصر میں غالباً تین سال (211ھ سے 214ھ ) قیام کے بعد وہ بلاد الشام چلا گیا۔

خلیفہ مامون کے دربار میں

ترمیم

جب 215ھ سے 218ھ کے وسطی زمانے میں خلیفہ مامون الرشید بازنطینیوں کے خلاف مہم سر کرکے واپس آیا تھا تو ابوتمام نے اپنے بدوی لباس میں (جو اُسے تمام عمر پسند رہا) خلیفہ مامون الرشید کے سامنے ایک قصیدہ پیش کیا تھا جو خلیفہ کو پسند نہ آیا، کیونکہ اُسے یہ بات نامناسب لگی کہ ایک بدوی شاعر شہری طرز کی نظم لکھے۔[10]

حلیہ

ترمیم

ابوتمام سانولی رنگت کا ایک طویل القامت شخص تھا۔ لباس عموماً بدوی ہوتا تھا جو اُس نے تمام عمر پسند کیے رکھا۔ نہایت شستہ اور فصیح عربی بولتا تھا لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اُس کی آواز بہت ناخوشگوار تھی، زبان میں کسی قدر لکنت واقع ہوئی تھی جس سے وہ اپنا کلام اپنے راوی صالح سے پڑھوایا کرتا تھا۔[11]

شاعری

ترمیم

ایک روایت کے مطابق ابوتمام نے سب سے پہلا قصیدہ اُس نے علی بن الجَہم شاعر کے بھائی محمد بن الجہم کی شان میں لکھا۔[12] لیکن یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی کیونکہ محمد بن الجہم کو خلیفہ المعتصم باللہ نے 225ھ میں دمشق کا والی مقرر کیا تھا۔[13] خود ابوتمام کا قول ہے کہ اُس نے سب سے پہلی نظم مصر میں محصل عیاش بن لہیعہ کی مدح میں لکھی تھی۔[14] لیکن اِس شخص کی طرف سے اُسے مایوسی ہوئی جس کا بدلہ اُس نے عیاش بن لہیعہ کی ہجو لکھ کر کر لیا۔[15] 211ھ سے 214ھ تک بعض ایسے واقعات جو مصر میں رونما ہوئے، اُن کا تذکرہ ابوتمام کے اشعار میں ملتا ہے۔بلاد الشام میں قیام کے دوران اُس کی ہجویہ و مدحیہ نظمیں وجود میں آئیں۔ ابوالمغیث موسیٰ بن ابراہیم الرافقی پر مدحیہ نظمیں لکھیں۔ابوتمام کی شہرت خلیفہ المعتصم باللہ کے عہد میں ہوئی اور اُس نے اِس دور میں خوب نام کمایا۔ 223ھ مطابق 838ء میں جب خلیفہ المعتصم باللہ عموریہ کی تباہی کے بعد معتزلی قاضی القضاۃ احمد بن ابی داؤد نے اُسے خلیفہ کے دربار میں سامرا میں بھیجا تو خلیفہ کو شاعر کی کرخت آواز یاد آگئی جو اُس نے مَصِیصَہ میں سنی تھی۔ اِس بات کا یقین کرلینے کے بعد خلیفہ المعتصم باللہ نے اُسے باریابی کی اجازت دے دی۔ اُس وقت سے ابوتمام کی شہرت عام ہوئی اور وہ اپنے زمانے کا سب سبے بڑا قصیدہ گو شاعر تسلیم کر لیا گیا۔ خلیفہ المعتصم باللہ کے علاوہ اُس نے اپنے عہد کے متعدد اعلیٰ ترین حکام و عمال کی شان میں قصائد لکھے۔[16]

وفات

ترمیم

خیال کیا جاتا ہے کہ مشہور فلسفی الکندی نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ ابوتمام شدتِ فکر یعنی قوائے دماغی سے بہت زیادہ کام لینے کے باعث جلد فوت ہوجائے گا۔ یہ بات کسی حد تک درست ثابت ہوئی کہ ابوتمام نے محض اکتالیس یا بیالیس سال کی عمر میں موصل میں انتقال کیا۔ابوتمام کے بیٹے کے قول کے مطابق ابوتمام کی وفات 231ھ مطابق 845ء میں ہوئی جبکہ دیگر مؤرخین کے مطابق ابوتمام کی وفات 2 محرم 232ھ مطابق 29 اگست 846ء کو ہوئی۔ابونہشل ابن حُمَید الطوسی نے ابوتمام کی قبر پر ایک قبہ تعمیر کروایا تھا جس کی زیارت مؤرخ ابن خلکان نے بھی کی تھی۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ عنوان : Абу-Тамман-Тайи
  2. ^ ا ب پ عنوان : Абу-Темам
  3. ^ ا ب عنوان : Abu Tammam — اشاعت: دائرۃ المعارف بریطانیکا 1911ء
  4. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb119697873 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  5. ابوبکر محمد بن یحییٰ الصولی: اخبار ابی تمام، صفحہ 272، 273۔ مطبوعہ قاہرہ، 1937ء
  6. ابوالفرج ابن جوزی: وفیات الاعیان، جلد 1، صفحہ 121، مطبوعہ قاہرہ، مصر، 1310ھ
  7. ابوبکر محمد بن یحییٰ الصولی: اخبار ابی تمام، صفحہ 246۔ مطبوعہ قاہرہ، 1937ء
  8. ابوبکر محمد بن یحییٰ الصولی: اخبار ابی تمام، صفحہ 235، 238۔ مطبوعہ قاہرہ، 1937ء
  9. ابن عساکر: تاریخ دمشق، جلد 4، صفحہ 19۔
  10. ابوہلال العسکری: دیوان المعالی،  جلد 2،  صفحہ 120۔  
  11. ابوبکر محمد بن یحییٰ الصولی: اخبار ابی تمام، صفحہ 210۔
  12. الموشح:  صفحہ 324۔
  13. خلیل مردم بک:  در مقدمہ دیوان علی بن الجہم،  صفحہ 4۔
  14. یوسف البدیعی: ھِبۃ الایام فیما یتعلق بابی تمام، صفحہ 181۔ مطبوعہ قاہرہ، مصر، 1934ء
  15. یوسف البدیعی: ھِبۃ الایام فیما یتعلق بابی تمام، صفحہ 174۔ مطبوعہ قاہرہ، مصر، 1934ء
  16. ابوبکر محمد بن یحییٰ الصولی: اخبار ابی تمام، صفحہ 143، 144۔ مطبوعہ قاہرہ، 1937