ابومسلم خراسانی
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
ابومسلم خراسانی ایک ایرانی جرنیل ہے جس نے بنو امیہ کی خلافت کا تختہ الٹنے میں بنو عباس کی مدد کی۔ اموی خاندان کے خلاف بنی عباس نے مدت سے خفیہ تحریک چلا رکھی تھی۔ ابومسلم خراسانی بھی اس تحریک میں شریک ہو گیا۔ اس نے ایک خفیہ فوج تیار کی۔ اور بالآخر اموی خلافت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ امویوں کو شکست دینے کے بعد ابومسلم نے عباسیوں کو خلافت سونپ دی مگر دوسرے عباسی خلیفہ منصور نے اسے قتل کرادیا۔
ابومسلم خراسانی | |
---|---|
(عربی میں: أبو مسلم) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 718ء اصفہان ، مرو |
وفات | فروری755ء (36–37 سال) |
طرز وفات | قتل |
شہریت | دولت عباسیہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | عسکری قائد ، والی ، داعی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی ، فارسی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | عباسی انقلاب ، معرکۂ زاب |
درستی - ترمیم |
ابومسلم خراسانی کا نام ابراہیم بن عثمان بن بشار تھا، یہ ایرانی النسل تھے اور مشہور ہے کہ بزرحمیر کی اولاد سے تھے، اصفہان میں پیدا ہوا تھا، ماں باپ نے کوفہ کے متصل ایک گاؤں میں آکر سکونت اختیار کرلی تھی، جس وقت ابومسلم کا باپ عثمان فوت ہوا ہے تو ابو مسلم کی عمر سات برس کی تھی، اس کا باپ مرتے وقت وصیت کرگیا تھا کہ عیسیٰ بن موسیٰ سراج اس کی پرورش اور تربیت کرے، عیسیٰ اس کو کوفہ میں لے آیا ابومسلم چار جامہ دوزی کا کام عیسیٰ سے سیکھتا تھا اور اسی کے پاس کوفہ میں رہتا تھا، عیسیٰ بن موسیٰ اپنے زین اور چارجامے لے کرخراسان جزیرہ اور موصل کے علاقوں میں فروخت کے لیے جاتا تھا اور اس تقریب اکثر سفر میں رہتا اور ہرطبقہ کے آدمیوں سے ملتا تھا اس کی نسبت یہ شبہ ہوا کہ یہ بھی بنوہاشم اور علویوں کا نقیب ہے ؛ اسی طرح اس کے خاندان کے دوسرے آدمیوں پرشبہ کیا گیا، نتیجہ یہ ہوا کہ یوسف بن عمر گورنرِ کوفہ نے عیسیٰ بن موسیٰ اور اس کے چچا زاد بھائی ادریس بن معقل اور ان دونوں کے چچا عاصم بن یونس عجلی کو قید کر دیا؛ اسی قید خانہ میں خالد تسری کے گرفتار شدہ عمال بھی قید تھے۔
ابومسلم قید خانہ میں عیسیٰ بن موسیٰ کی وجہ سے اکثر جاتا جہاں تمام قیدی وہ تھے جن کو حکومت بنواُمیہ سے نفرت تھی یا قید ہونے کے بعد لازماً نفرت پیدا ہوجانی چاہیے تھی، انھی میں بعض ایسے قیدی بھی تھے جو واقعی بنو عباس یا بنو فاطمہ کے نقیب تھے ؛ لہٰذا ان لوگوں کی باتیں سن کر ابو مسلم کے قلب پر بہت اثر پڑا اور وہ بہت جلد ان لوگوں کا ہمدرد بن کران کی نگاہ میں اپنا اعتبار قائم کرسکا، اتفاقاً قحطبہ بن شبیب جوامام ابراہیم کی طرف سے خراسان میں کام کرتا اور لوگوں کوخلافت عباسیہ کے لیے دعوت دیتا تھا، خراسان سے حمیمہ کی طرف جا رہا تھا راستے میں وہ کوفہ کے ان قیدیوں سے بھی ملا یہاں اس کو معلوم ہوا کہ عیسیٰ وعاصم وغیرہ کا خادم ابومسلم بہت ہوشیار اور جوہر قابل ہے، اس نے عیسیٰ سے ابومسلم کو مانگ لیا اور اپنے ساتھ لے کر حمیمہ کی طرف روانہ ہو گیا وہاں امام ابراہیم کی خدمت میں ابومسلم کوپیش کیا، امام ابراہیم نے ابومسلم سے پوچھا کہ تمھارا نام کیا ہے؟ ابومسلم نے کہا کہ میرا نام ابراہیم بن عثمان بن بشار ہے، امام ابراہیم نے کہا نہیں ،تمھارا نام عبد الرحمن ہے ؛ چنانچہ اس روز سے ابومسلم کا نام عبد الرحمن ہو گیا، امام ابراہیم ہی نے اس کی کنیت ابومسلم رکھی اور قحطبہ بن شبیب سے مانگ لیا۔ چند روز تک ابومسلم امام ابراہیم کی خدمت میں رہا اور انھوں نے اچھی طرح ابومسلم کی فطرت واستعداد کا مطالعہ کر لیا، اس کے بعد اپنے ایک مشہور نقیب ابو نجم عمران بن اسماعیل ان لوگوں میں سے تھا جو خلافتِ اسلامیہ کو اولادِ علی میں لانا چاہتے تھے، اس عقد سے یہ فائدہ حاصل کرنا مقصود تھا کہ ابومسلم کو شیعانِ علی کی حمایت حاصل رہے اور اس کی طاقت کمزور نہ ہونے پائے، اس انتظام واہتمام کے بعد امام ابراہیم نے ابومسلم کو خراسان کی طرف روانہ کیا اور تمام دُعاۃ ونُقبا کو اطلاع دے دی کہ ہم نے ابومسلم کو خراسان کے تمام علاقے کا متہمم بناکر روانہ کیا ہے، سب کو دعوتِ بنو ہاشم کے کام میں ابومسلم کی فرماں برداری کرنا چاہیے، خراسان کے مشہور اور گارگزار نقبا جومحمد بن علی عباسی یعنی امام ابراہیم کے باپ کے زمانے سے کام کر رہے تھے یہ تھے سلیمان بن کثیر، مالک بن ہثیم، زیاد بن صالح، طلحہ بن زریق، عمر بن اعبن، یہ پانچوں شخص قبیلہ خزاعہ کے تھے، قحطبہ بن شبیب بن خالد بن سعدان یہ قبیلہ طے سے تعلق رکھتا تھا، ابوعیینہ موسیٰ بن کعب، لانبربن قریط، قاسم بن مجاشع، اسلم بن سلام یہ چاروں تمیمی تھے، ابو داؤد خالد بن ابراہیم شیبانی، ابوعلی ہروی اسی کوشبل بن طہمان بھی کہتے تھے، ابوالنجم عمران بن اسماعیل جب ابومسلم خراسان میں پہنچا توسلیمان بن کثیر نے اس کو نوعمر ہونے کی وجہ سے واپس کر دیا یہ تمام سن رسیدہ اور پختہ عمر کے تجربہ کار لوگ تھے، انھوں نے ایک نوعمر شخص کواپنی خفیہ کارروائیوں اور رازداری کے مخفی کاموں کا افسر ومتہمم بنانا خلافِ مصلحت سمجھا۔
جس وقت ابومسلم خراسان پہنچا تھا اس وقت ابوداؤد خالد بن ابراہیم شیبانی ماورالنہر کی طرف کسی ضرورت سے گیا ہوا تھا، وہ جب مرو میں واپس آیا اور امام ابراہیم کا خط اس نے پڑھا توابومسلم کودریافت کیا اس کے دوستوں نے کہا کہ سلیمان بن کثیر نے اس کونوعمر ہونے کی وجہ سے واپس لوٹادیا ہے کہ اس سے کوئی کام نہ ہو سکے گا اور یہ ہم سب کواور اُن لوگوں کوجنھیں دعوت دیجاتی ہے خطرات میں مبتلا کر دے گا، ابوداؤد نے تمام نقبا کوجمع کرکے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائے تعالیٰ نے اولین وآخرین کا علم دیا، آپ کی عترت واہلِ بیت اس علم کے وارث ہیں اور آپ کے اہلِ بیت معدن علوم اور ورثاءرسول ہیں، کیا تم لوگوں کواس میں کچھ شک ہے؟ حاضرین نے کہا نہیں، ابوداؤد نے کہا: پھرتم نے کیوں شک وشبہ کودخل دیا، اس شخص کوامام نے کچھ سوچ سمجھ کراور اس کی قابلیت کوجانچ ک رہی تمھاری طرف بھیجا ہوگا اس تقریر کوسن کرسب کو ابو مسلم کے واپس کرنے کا افسوس ہوا؛ اسی وقت آدمی روانہ کیا گیا وہ ابومسلم کوراستے سے لوٹاکرواپس لایا، سب نے اپنے تمام کاموں کامتولی ومتہمم ابومسلم کوبنادیا اور بخوشی اس کی اطاعت کرنے لگے ؛ چونکہ سلیمان بن کثیر نے اوّل اس کوواپس کر دیا تھا اس لیے ابومسلم سلیمان بن کثیر کی طرف سے کچھ کبیدہ خاطر ہی رہتا تھا، ابومسلم نے نقبا کوہرطرف شہروں میں پھیلادیا اور تمام ملکِ خراسان میں اس تحریک کوترقی دینے لگا۔
سنہ129ھ میں امام ابراہیم نے ابومسلم کولکھ بھیجا کہ اس سال موسمِ حج میں مجھ سے آکر مل جاؤ؛ تاکہ تم کوتبلیغ دعوت کے متعلق مناسب احکام دیے جائیں، یہ بھی لکھا کہ قحطبہ بن شبیب کوبھی اپنے ہمراہ لے آؤ اور جس قدر مال واسباب اس کے پاس جمع ہو گیا ہے وہ بھی لیتا آئے، اس جگہ یہ تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان خفیہ سازشوں کے لیے ایامِ حج بہترین موقع تھا، مکہ معظمہ میں حج کے لیے دُنیا کے ہرحصہ سے لوگ آتے تھے، کسی کوکسی کے آنے پرکوئی شبہ کا موقع نہ ملتا تھا اور سازشی لوگ بآسانی آپس میں مل کرہرقسم کی گفتگو کرلیتے تھے اور حج کے موقع کوکبھی فوت نہ ہونے دیتے تھے ؛ چنانچہ ابوملسم اور نقبا کوبھی ہمراہ لے کر معہ قحطبہ بن شبیب امام سے ملنے کی غرض سے مکہ کی جانب روانہ ہوا، مقام قومس پہنچا توامام ابراہیم کا خط ملا جس میں لکھا تھا کہ تم فوراً خراسان کی طرف واپس ہوجاؤاور اگر خراسان سے روانہ نہ ہوئے ہوتووہیں مقیم رہو اور اب اپنی دعوت کوپوشیدہ نہ رکھو؛ بلکہ علانیہ دعوت دینی شروع کردو اور جن لوگوں سے بیعت لے چکے ہو ان کوجمع کرکے قوت کا استعمال شروع کردو، اس خط کوپڑھتے ہی ابومسلم تومرو کی جانب لوٹ گیا اوور قحطبہ بن شبیب مال واسباب لیے ہوئے امام ابراہیم کی جانب روانہ ہوا، قحطبہ نے جرجان کا راستہ اختیار کیا اطراف جرجان میں پہنچ کرخالد بن برمک اور ابوعون کوطلب کیا یہ لوگ معہ مال واسباب فوراً حاضر ہوئے قحطبہ اس مال واسباب کوبھی لے کرامام کی طرف چلا۔
جب ابومسلم کوعلانیہ دعوت اور طاقت کے استعمال کی اجازت ملی ہے تویہ وہ زمانہ تھا کہ خراسان میں کرمانی اور نصربن سیار کی لڑائیوں کا سلسلہ جاری تھا، جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے، ابومسلم نے اپنی جماعت کے لوگوں کوفراہم کیا اور اُن کولے کرکرمانی اور نصربن سیار کے درمیان میں خیمہ زن ہوا اور بالآخر کرمانی قتل ہوا، اس کا لڑکا علی بن کرمانی ابومسلم کے پاس آ گیا اور ابومسلم نے نصر کومرو سے خارج کرکے مروپرقبضہ کر لیا؛ مگرچند روزہ قیام کے بعد مرو سے ماحوان کی جانب چلا آیا، نصر بن سیار نے مروان بن محمد خلیفہ دمشق کوامداد کے لیے خط لکھا تھا، مروان بن محمد ان دنوں ضحاک بن قیس خارجی سے مصروفِ جنگ تھا، وہ کوئی مددنصر کے پاس نہیں بھیج سکا جن ایام میں نصر کی عرض داشت مروان کے پاس پہنچی انھیں دنوں امام ابراہیم کا خط جومسلم کے نام انھوں نے روانہ کیا تھا اور جس میں لکھا تھا کہ خراسان میں عربی زبان بولنے والوں کوزندہ نہ چھوڑنا اور نصروکرمانی دونوں کا خاتمہ کردینا، پکڑا گیا اور مروان الجماعہ کی خدمت میں پیش ہوا؛ یہی پہلا موقع تھا کہ بنواُمیہ کوعباسیوں کی سازش کا حال معلوم ہوا، مروان نے علاقہ بلقا کے عامل کولکھا کہ امام ابراہیم کوحمیمہ میں جاکرگرفتار کرلو؛ چنانچہ امام ابراہیم گرفتار ہوکر آئے اور مروان نے ان کوقید کر دیا، جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے، ابومسلم نے خراسان میں جب علانیہ دعوت وتبلیغ شروع کی توخراسان کے لوگ جوق درجوق اس کے پاس آنے لگے۔
سنہ130ھ کے شروع ہوتے ہی ابومسلم نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی اور اہلِ بیت نبوی کی اطاعت وفرماں برداری پرلوگوں سے بیعت لینے اور لوگوں کے فراہم کرنے سے ناراض تھے ؛ لیکن وہ اس طرح اپنی لڑائیوں میں مصروف تھے کہ ابومسلم کا کچھ نہ بگاڑسکے، قتل کرمانی کے بعد علی بن کرمانی اپنے باپ کی جماعت کا سردار تھا، ادھرابومسلم بھی کافی طاقت حاصل کرچکا تھا، نصربن سیار اور شیبان خارجی بھی اسی درجہ کی طاقت رکھتے تھے، اب خراسان میں یہی چار طاقتیں موجود تھیں۔
ابومسلم نے شیبان خارجی کواپنی طرف مائل کرنا چاہا اور ابنِ کرمانی کواس کے پاس جانے کی تحریک کی، علی بن کرمانی شیبان خارجی سے صلح کرنی چاہی؛ تاکہ وہ مطمئن ہوکر ابومسلم سے دودوہاتھ کرے ؛ لیکن ابومسلم نے علی بن کرمانی کے ذریعہ ایسی کوشش کی کہ دونوں کی صلح نہ ہو سکے، جب ان دونوں کی صلح نہ ہوئی توابومسلم نے موقع مناسب دیکھ کرنصر بن نعیم کوایک جمعیت کے ساتھ ہرات کی طرف روانہ کر دیا، نصر بن نعیم نے ہرات پہنچ کربہ حالتِ غفلت ہرات پرقبضہ کر لیا اور نصربن سیار کے عامل عیسیٰ بن عقیل بن معقل حریشی کوہرات سے نکال دیا، یحییٰ بن نعیم بن ہبیرہ شیبانی یہ سن کرابن کرمانی کے پاس آیا اور کہا کہ تم نصر سے صلح کرلو؛ اگرتم نے صلح کرلی توابومسلم فوراً نصر کے مقابلہ پرآمادہ ہو جائے گا اور تم سے کوئی تعرض نہ کرے گا؛ لیکن اگرتم نے نصر سے صلح نہ کی توابومسلم نصر سے صلح کرکے تمھارے مقابلہ پرمستعد ہوگا، شیبانی نے فوراً نصر کولکھا کہ ہم تم سے صلح کرنا چاہتے ہیں، نصر فوراً صلح پرآمادہ ہو گیا؛ کیونکہ اس کی پہلے ہی سے یہ خواہش تھی۔
ابومسلم نے فوراً علی بن کرمانی کوجوشیبان خارجی کا شریک تھا توجہ دلائی کہ نصر بن سیار تمھارے باپ کا قاتل ہے، علی بن کرمانی یہ سنتے ہی شیبان خارجی سے جدا ہو گیا اور اس کے ساتھ لڑائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا، ابومسلم ابنِ کرمانی کی مدد کے لیے پہنچا ادھر نصر بن سیار شیبان خارجی کی طرف سے آمادہ پیکار ہوا، یہ بھی عجیب زمانہ تھا، لڑنے والے چاروں گروہ محتلف الخیال اور مختلف العقیدہ تھے ؛ مگرموقع اور وقت کی مناسبت سے ہرایک دوسرے کواپنے ساتھ ملاکر تیسرے کوفنا کرنے کی تدبیروں میں مصروف تھا، خاص کرشیعانِ علی بھی خراسان میں پہلے سے بکثرت موجود تھے، وہ بھی سب ابومسلم کے شریک تھے۔
عبد اللہ بن علی بن عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب نے کوفہ میں لوگوں سے بیعتِ خلافت لی تھی؛ مگرعبداللہ بن عمر بن عبد العزیز کے غالب ہوجانے پروہ مدائن کی طرف چلے گئے تھے ان کے ساتھ کوفہ کے بھی کچھ لوگ آئے تھے ؛ پھرانھوں نے پہاڑی علاقہ کا رُخ کیا اور اس پرقابض ہوکر حلوان، تومس، اصفہان اور رے پرقابض ہوئے، اصفہان کواپنی قیام گاہ بنایا، سنہ128ھ میں شیراز پرقبضہ کیا، جب یزید بن عمر بن ہبیرہ عراق کا گورنرمقرر ہوکر آیا تواس نے عبد اللہ بن علی کے مقابلہ کولشکر روانہ کیا، اصطخر کے قریب جنگ ہوئی، عبد اللہ بن علی کوشکست ہوئی، ان کے ہمراہی بہت سے مارے گئے، منصور بن جمہور سندھ کی طرف بھاگ گیا، اس کا تعاقب کیا گیا؛ لیکن وہ ہاتھ نہ آیا، عبد اللہ بن علی کے ہمراہیوں میں سے جولوگ گرفتار ہوئے ان میں عبد اللہ بن علی بن عبد اللہ بن عباس بھی تھا، جس کویزید بن عمر گورنرکوفہ ے رہا کر دیا، عبد اللہ بن معاویہ فرار ہوکر ابومسلم کی طرف چلے ؛ کیونکہ اس سے امداد کی توقع تھی کہ وہ اہلِ بیت کا ہواخواہ ہے ؛ لیکن وہ شیراز سے کرمان اور وہاں سے اوّل ہرات پہنچے، ہراب میں ابومسلم کے عامل نصربن نعیم نے ان کوٹھہراکر ابومسلم کوان کے آنے کی اطلاع دی، ابومسلم نے لکھ بھیجا کہ عبد اللہ بن علی کوقتل کردو اور ان کے دونوں بھائیوں حسن و جعفر کو رہا کردو؛ چنانچہ نصر بن نعیم نے اس حکم کی تعمیل کردی۔
سنہ130ھ کے شروع ہوتے ہی خراسان میں مذکورہ بالا چاروں طاقتیں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں، آخر علی بن کرمانی اور ابومسلم نے نصر بن سیار اور شیبان خارجی کوہزیمت دے کرمروپرمستقل قبضہ کر لیا، ابومسلم نے مرو کے دارالامارۃ میں جاکرلوگوں سے بیعت لی اور خطبہ دیا، نصر مرو سے شکست خوردہ سرخس اور طوس ہوتا ہوا نیشاپور میں آکرمقیم ہوا اور علی بن کرمانی ابومسلم کے ساتھ ساتھ رہنے لگا اور ہاں میں ہاں ملاتا رہا، شیبان خارجی جومرو کے قریب ہی شکست خوردہ قیام پزیر تھا اس کے پاس ابومسلم نے پیغام بھیجا کہ تم بیعت کرلو؟ اُس نے جواب میں کہلا بھیجا کہ تم ہی میری بیعت کرلو، اس کے بعد شیبان خارجی سرخس اور ایک گروہ بکر بن وائل کا اپنے گرد جمع کر لیا، یہ سن کرابومسلم نے ایک دستہ فوج سرخس کی طرف روانہ کیا وہاں لڑائی ہوئی اور شیبان خارجی مارا گیا، اس کے بعد ابومسلم نے اپنے نقیبوں میں سے موسیٰ بن کعب کوا بیورو کی طرف اور ابوداؤد خالد بن ابراہیم کوبلخ کی جانب بھیجا، دونوں کوکامیابی ہوئی، ابیورد اور بلخ پر جب قبضہ ہو گیا ۔۔۔
ابومسلم نے ابوداؤد کوتوبلا بھیجا اور یحییٰ بن نعیم کوبلخ کا حاکم مقرر کرکے بھیج دیا، زیاد بن عبد الحق قسری نے جوحکومت بنواُمیہ کی طرف سے بلخ کا عامل تھا اور ابوداؤد سے شکست کھاکر ترمذ چلا گیا تھا، یحییٰ بن نعیم سے خط کتابت کرکے اس کواپنا ہم خیال بنالیا اور مسلم بن عبد الرحمن باہلی اور عیسیٰ بن زرعہ سلمی، ملوک طخارستان، ملوک ماورالنہر اور بلخ واہلِ ترمذ سب کومجتمع کرکے اور یحییٰ بن نعیم کومعہ اس کے ہمراہیوں کے ہمراہ لے کرابومسلم کی جنگ کے لیے روانہ ہوئے سب نے متفق ہوکر سیاہ پھریرے والوں سے (دُعاۃ بنوعباس) لڑنے کی قسمیں کھائیں، مقاتل بن حیان نبطی کوامیرلشکر بنایا۔
ابومسلم نے یہ کیفیت سن کرابوداؤد کودوبارہ بلخ کی جانب روانہ کیا، بلخ سے تھوڑے فاصلہ پرفریقین کا مقابلہ دریا کے کنارے ہوا، مقابل بن حیان نبطی کے ساتھ سردار ابوسعید قرشی تھا، ساقہ فوج کا پچھلا حصہ ہوتا ہے اس حصہ کومسلح اور زبردست اس لیے رکھتا تھا کہ کہیں حریف دھوکا دے کرپیچھے سے حملہ نہ کر دے، جب لڑائی خوب زور شور سے ہو گئی توابوسعید قرشی نے بھی اپنی متعلقہ فوج سے دشمنوں کا مقابلہ کرنا اور ان کومار کرپیچھے بھگانا ضروری سمجھا، اتفاقاً ابوسعید کا جھنڈا بھی سیاہ تھا وہ جب اپنی فوج لے کرمتحرک ہوا تولڑنے والی اگلی صفوں کے لوگ بھول گئے کہ ہمارا بھی ایک جھنڈا سیاہ ہے وہ ابوسیع کے جھنڈے کودیکھتے ہی یہ سمجھے کہ دشمنوں کی فوج نے پیچھے سے ہم پرزبردست حملہ کیا ہے اور یہ انھیں کی فوج فاتحانہ پیچھے سے بڑھتی چلی آتی ہے ؛ چنانچہ ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور میدان چھوڑ کربھاگ نکلے، بہت سے دریا میں غرق ہوکر ہلاک ہوئے زیادہ یحییٰ ترمذ کی طرف چلے گئے اور ابوداؤد کوبلخ سے واپس بلالیا اور بلخ کی حکومت پرنصر بن صبیح مزنی کومامور کیا، جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے، علی بن کرمانی ابومسلم کے پاس رہتا تھا اس کے ساتھ اس کا بھائی عثمان بن کرمانی بھی تھا، ابوداؤد نے ابومسلم کورائے دی ک ان دونوں بھائیوں کوایک دوسرے سے جدا کردینا ضروری ہے، ابومسلم نے اس رائے کوپسند کرکے عثمان بن کرمانی کوبلخ کی حکومت پرنازز کرکے بھیج دیا، عثمان بن کرمانی نے بلخ پہنچ کرفافضہ بن ظہیر کواپنا نائب بنایا اور خود معہ نصر بن صبیح کے مردالردو چلا گیا، یہ خبر سن کرمسلم بن عبد الرحمان باہلی نے ترمذ سے مصریوں کوہمراہ لے کر بلخ پرحملہ کیا اور بزورِ شمشیر اس اس پرقابض ہو گیا۔
عثمان ونصر کواس کی اطلاع ہوئی تووہ مرو رور سے بلخ کی طرف روانہ ہوئے ان کے آن کی خبرسن کرعبدالرحمن کے ہمراہی راتوں رات بھاگ نکلے، نصر نے ایک سمت سے اور عثمان نے دوسری سمت سے بلخ پرحملہ کیا تھا، نصر کے ہمراہیوں نے توبھاگنے والوں سے کوئی تعرض نہ کیا؛ لیکن عثمان بن کرمانی نے لڑائی چھیڑ دی اور خود ہزیمت اُٹھاکر بھاگ نکلے اور بہت سے مارے گئے اور بلخ پرقبضہ ہوتے ہوتے رہ گیا، یہ خبر سن کرابومسلم اور ابوداؤد نے مشورہ کیا، ابومسلم تونیشاپور کی طرف روانہ ہوا اور ابوداؤد پھربلخ کی جانب آیا، ابومسلم کے ہمراہ علی بن کرمانی تھا، ابومسلم نے نیشاپور کے راستے میں علی بن کرمانی کوقتل کیا اور ابوداؤد کے مشورہ کے موافق بلخ پرقابض ہوکر اور عبد الرحمن کوبلخ سے بھگاکر عثمان بن کرمانی کوقتل کر دیا، اس طرح ان دونوں بھائیوں کے خرحشے کومٹایا۔
اوپر پڑھ چکے ہو کہ امام ابراہیم نے ابومسلم کواوّل بلایا تھا؛ پھراس کوروک دیا تھا کہ علانیہ دعوت شروع کر دے، ابومسلم نے قحطبہ بن شبیب کومال واسباب کے ساتھ روانہ کیا تھا، قحطبہ نے امام ابراہیم سے ملاقات کی، مال واسباب پیش کیا، امام ابراہیم سے ملاقات کی، مال واسباب پیش کیا، امام ابراہیم نے ایک جھنڈا قحطبہ کہ ہاتھ روانہ کیا اور مکہ معظمہ سے اس کوخراسان کی جانب رخصت کر دیا اور خود حمیمہ کی طرف چلے آئے یہاں آتے ہی گرفتار ہوکر قید ہو گئے، قحطبہ یہ جھنڈا لے کرابومسلم کے پاس آیا، ابومسلم نے اس جھنڈے کومقدمۃ الجیش میں رکھا اور قحطبہ بن شبیب کومقدمۃ الجیش کا سردار بنایا اور سنہ130ھ کے ختم ہونے سے پہے پہلے خراسان کے بڑے حصہ پرقابض ومتصرف ہوکر ایک ایک دشمن کا قصہ پاک کیا، علی بن کرمانی کے قتل سے فارغ ہوکر ابومسلم مرو کی طرف لوٹ آیا اور قحبطہ کوچند سردارانِ لشکر ابوعون عبد الملک بن یزید، خالد بن برمک، عثمان بن نہیک اور خازم بن خزیمہ وغیرہ کے ساتھ طوس کی جانب روانہ کیا، اہل طوس نے مقابلہ کیا اور شکست کھائی، قحطبہ ے بڑی بے دردی سے ان کاقتل عام کیا، اس کے بعد قحطبہ نے تمیم بن نصرپر جومقام سوزقان میں تھا، حملہ کی تمیم بن نصرمعہ تین ہزار ہمراہیوں کے مقتول ہوا، قحبطہ نے شہر میں داخل ہوکر قتلِ عام کیا اور خالد بن برمک کومالِ غنیمت کی فراہمی پرمامور کیا۔
اس کے بعد قحطبہ نے نیشاپور کا قصد کیا؛ یہاں نصر بن سیار مقیم تھا وہ نیشاپور سے قومس بھاگ آیا، قحطبہ شروع رمضان سنہ130ھ میں نیشاپور پرقابض ہوا اور آخر شوال تک نیشاپور میں مقیم رہا، نصر بن سیار کی مدد کے لیے یزید بن عمربن ہبیرہ گورنر کوفہ نے نباتہ بن حنظلہ کے ماتحت ایک فوج کوفہ سے بھیجی تھی نصر بن سیار قومس میں بھی زیادہ دنوں نہ ٹھہرا وہاں سے وہ جرجان چلا آیا وہیں نباتہ بن حنظلہ معہ اپنی فوج کے نصر بن سیار کے پاس پہنچا، قحطبہ نے شروع ذیقعدہ میں نیشاپور سے جرجان کی جانب کوچ کیا۔
قحطبہ کے ہمراہیوں نے جب یہ سنا کہ نباتہ بن حنظلہ عظیم الشان لشکر شام کے ساتھ جرجان میں پہنچ گیا ہے تو وہ خوف زدہ ہوئے قحطبہ نے ان کوایک پرجوش خطبہ دیا او رکہا کہ امام ابراہیم نے پیشین گوئی کی ہے کہ تم لوگ ایک بڑی فوج کا مقابلہ کرکے اس پرفتح پاؤ گے، اس سے لشکریوں کے دل بڑھ گئے، آخر معرکہ کارزار گرم ہوا، نباتہ بن حنظلہ معہ دس ہزار آدمیوں کے مارا گیا، قحطبہ کوفتح عظیم حاصل ہوئی، اس نے نباتہ بن حنظلہ کا سرکاٹ کرابومسلم کے پاس بھیج دیا یہ لڑائی شروع ماہ ذی الحجہ سہ 247ھ میں ہوئی قحطبہ نے جرجان پرقبضہ کیا، تیس ہزار اہلِ جرجا کوقتل کرڈالا، شکست جرجان کے بعد نصر بن سیار حرار الرائے کی طرف چلا آیا وہاں کا امیرابوبکر عقیلی تھا، یزید بن عمرہبیرہ کوجب یہ حالت معلوم ہوئے تواس نے ایک بہت بڑا لشکر ابن غعلیف کی سرداری میں نصر بن سیار کی امداد کے لیے روانہ کیا۔
قحطبہ نے جرجان سے اپنے لڑکے حسن بن قحطبہ کوخوارالرائے کی طرف روانہ کیا اور عقب سے ایک لشکر ابوکامل اور ابو القاسم صحرزبن اباریم اور ابوالعباس مروزی کی سرداری میں حسن کی امداد کے لیے روانہ کیا؛ لیکن جس وقت یہ لوگ حسن کے لشکر کے قریب پہنچے توابوکامل اپنے ہمراہیوں سے جدا ہوکر مفر سے جاملا اور اس کوحسن کے لشکر کی نقل وحرکت سے آگاہ کر دیا، آخر لڑائی ہوئی اور حسن بن قحطبہ کوشکست فاش حاصل ہوئی، بنونصر سے مالِ غنیمت اور فتح کا بشارت نامہ یزید بن عمر بن ہبیرہ کے پاس روانہ کیا، یہ واقعہ محرم سنہ131ھ کا ہے، اُدھر سے نصر بن سیار کے قاصد مالِ غنیمت اور فتح کی خوشخبری لیے ہوئے جا رہے تھے، اِدھر سے ابن غعلیف فوج لیے ہوئے آ رہا تھا، مقام رے میں دونوں کی ملاقات ہوئی ابن غعلیف نے خط اور مال غنیمت لے لیا اور رے میں قیام کر دیا۔ نصر کویہ خبر سن کرسخت ملال ہوا جب نصر نے خود رے کا قصد کیا توغطیف معہ فوج ہمدان کی جانب روانہ ہو گیا؛ مگرہمدان کوچھوڑ کراصفہان چلا گیا، نصردوروز تک رے میں مقیم رہا، تیسے ر روز بیمار ہوتے ہی رے سے کوچ کر دیا، مقام سادہ میں پہنچا تھا کہ 12/ربیع الاوّل سنہ131ھ کوفوت ہو گیا، اس کے ہمراہی اس کی وفات کے بعد ہمدان چلے گئے، رے کا عامل حبیب بن یزید ہنشلی تھا، نصر کی وفات کے بعد جب قحطبہ بن شبیب جرجان سے فوج لے کررے کی طرف آیا توحبیب بن یزید اور اہلِ شام جو اس کے پاس موجود تھے بلامقابلہ رے کوچھوڑ کرچل دیے، قحطبہ نے رے پرقبضہ کیا اور اہلِ رے کے اموال واسباب ضبط کیے رے کے اکثر مفرور ہمدان چلے گئے، حسن نے نہادند پہنچ کرنہایت مضبوطی سے محاصرہ ڈال دیا۔
یزید بن عمر بن ہبیرہ نے سنہ129ھ میں اپنے بیٹے داؤد بن یزید کوعبداللہ بن معاویہ سے لڑنے کوبھیجا تھا اور داؤد بن یزید کرمان تک ان کا تعاقب کرتا ہوا چلا گیا تھا، داؤد کے ساتھ عامر بن صبارہ بھی تھا یہ دونوں کرمان میں پچاس ہزار کی جمعیت سے مقیم تھے، جب یزید بن عمربن ہبیرہ کونباتہ بن حنظلہ کے مارے جانے کا حال معلوم ہوتا تواس نے داؤد بن صبارہ کولکھا کہ تم قحطبہ کے مقابلہ کوبڑھو، یہ دونوں پچاس ہزار فوج کے ساتھ کرمان سے روانہ ہوئے اور اصفہان جاپہنچے، قحطبہ نے ان کے مقابلہ کے لی مقاتل بن حکیم کیعبی کومامور کیا، اس نے مقام قم میں قیام کیا، ابن صبارہ نے یہ سن کرکہ حسن بن قحطبہ نے نہادند کا محاصرہ کررکھا ہے، نہادند کے بچانے کا ارادہ کیا اور اس طرح روانہ ہوا جب دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا توقحطبہ کے ہمراہیوں نے ایسی جاں بازی سے حملہ کیا کہ ابن صبارہ کے لشکر کوہزیمت ہوئی اور وہ خود بھی مارا گیا۔
یہ واقعہ ماہِ رجب سنہ131ھ کا ہے، قحطبہ نے اس فتح کی خوشخبری اپنے بیٹے حسن کے پاس کہلا بھجوائی اور خو داصفہان میں بیس روز قیام کیا، پھرحسن کے پاس آکرمحاصرہ میں شریک ہو گیا، تین مہینے تک اہلِ نہادند محاصرہ میں رہے، آخرنہادند فتح ہو گیا اور بہت سے آدمی اہلِ نہادند کے قتل کیے گئے، اس کے بعق قحطبہ نے حسن کوحلوان کی طرف روانہ کیا، حلوان بآسانی قبضہ میں آ گیا؛ پھرقحطبہ نے ابوعون بن عبد الملک بن یزید خراسانی کوشہر زور پرحملہ کرنے کوبھیجا، یہاں کا عامل عثمان بن سفیان تھا، اس کے مقدمۃ الجیش پرعبداللہ بن مروان بن محمد تھا، ابوعون اور عثمان کی آخری ذی الحجہ تک لڑائی ہوتی رہی، آخرعثمان مارا گیا، اس کی فوج کوشکست ہوئی ابوعون عبد الملک نے بلادِ موصل پرقبضہ کر لیا۔
جب عامر بن صبارہ مارا گیا توداؤد بن یزید اپنے باپ کے پاس بھاگ آیا، داؤد بن یزید نے جب یزید بن عمربن ہبیرہ کی اس شکست کا حال سنا توایک عظیم الشان لشکر لے کرچلا، خلیفہ مروان بن محمد نے بھی حوثرہ بن سہیل باہلی کواس کی کمک کے لیے روانہ کیا، یزید بن عمر بن حوثرہ بن سہیل حلوان پہنچا، قحطبہ بھی یہ سن کرحلوان کی طرف چلا اور دجلہ کوانبار کی طرف عبور کیا، یزید بن عمر نے بھی کوفہ کی طرف مراجعت کی اور حوثرہ کوپندرہ ہزار کی جمعیت سے آگے کوفہ کی طرف بڑھنے کا حکم دیا، قحطبہ نے انبار سے 8/محرم الحرام سنہ132ھ کودریائے فرات عبور کیا اس وقت ابن ہبیرہ وہانہ فرات پر23/فرسنگ کے فاصلہ پرمقیم تھا، ہمراہیوں نے اس کورائے دی کہ کوفہ چھوڑ کرخراسان کا قصد کیجئے، قحطبہ مجبوراً کوفہ کا ارادہ ترک کرکے ہمارے تعاقب میں آئے گا، یزید بن عمر نے اس رائے سے اختلاف کرکے دجلہ کومدائن سے عبور کیا اور دونوں لشکر بقصد کوفہ فرات کے دونوں جانب سفر کرنے لگے، فرات کے ایک پایاب مقام پرقحطبہ نے دریا کوعبور کیا، سخت لڑائی ہوئی، یزید بن عمر بن ہبیرہ کی فوج کوشکت ہوئی؛ مگرقحطبہ بن شبیب مارا گیا، قحطبہ جب معن بن زائدہ کے مارے زخمی ہوکر گرا تواس نے وصیت کی کہ کوفہ میں شیعانِ علی کی امارت قائم ہونی چاہیے اور ابوسلمہ کوامیر بنانا چاہیے، حوثرہ ویزید بن عمر بن ہبیرہ وابن نباتہ بن حنظلہ واسط کی طرف بھاگے، قحطبہ کی فوج نے حسن بن قحطبہ کواپنا سردار بنایا، اس واقعہ کی خبر کوفہ میں پہنچی تومحمد بن خالد قسری نے شیعان علی کومجتمع کرکے شب عاشورا سنہ132ھ کوخروج کیا ور قصرامارت میں داخل ہوکر قابض ہو گیا۔
اس واقعہ کا حال سن کرحوثرہ واسطہ سے کوفہ کی طرف لوٹا محمد بن خالد قصرامارت میں محصور ہو گیا، مگرحوثرہ کے ہمراہیوں نے دعوتِ عباسیہ کوقبل کرکے حوثرہ سے جدا ہونا شروع کیا، وہ مجبوراً واسطہ کی طرف واپس چلا گیا، محمد بن خالد نے اس واقعہ کی اطلاع اور اپے قصرامارت پرقبضہ ہونے کی اطلاع ابن قحطبہ کودی، حسن بن قحطبہ کوفہ میں داخل ہوا اور محمد بن خالد کوہمراہ لے کرابوسلمہ کے پاس حاضر ہوااور ابوسلمہ کوبطورِ امیرمنتخب کرکے بیعت کی، ابوسلمہ نے حسن بن قحطبہ کوابن ہبیرہ کی جنگ کے لیے واسطہ کی طرف روانہ کیا اور محمد بن خالد کوکوفہ کا حاکم مقرر کیا، اس کے بعد ابوسلمہ نے حمید بن قحطبہ کومدائن کی طرف روانہ کیا، اہواز میں عبد الرحمن بن عمر بن ہبیرہ امیر تھا، اس سے اور بسام سے جنگ ہوئی، عبد الرحمن شکست کھاکر بصرہ کی جانب بھاگا، بصرہ میں مسلم بن قیقبہ باہلی عامل تھا، بسام نے عبد الرحمن کوشکست دے کربصرہ کی حکومت پرسفیان بن معاویہ بن یزید بن مہلب کومامور کرکے بھیجا، ماہ صفر سنہ132ھ میں لڑائی ہوئی اور مسلم نے فتح پائی اور وہ بصرہ پراس وقت تک قابض رہا جب تک کہ اس کے پاس یزید بن عمر کے مارے جانے کی خبر پہنچی، اس خبر کوسن کروہ بصرہ سے نکل کھڑا ہوا اور میدان خالی پاکر محمد بن جعفر نے خروج کرکے بصرہ پرقبضہ کیا، چند روز کے بعد ابومالک عبد اللہ بن اسید خزاعی ابومسلم کی طرف سے واردبصرہ ہوااور ابوالعباس سفاح نے اپنی بیعت خلافت کے بعد سفیان بن معاویہ کوبصرہ کا عامل مقرر کیا۔
امام ابراہیم کی وفات کے وقت حمیمہ میں ان کے خاندان کے مندرجہ ذیل حضرات موجود تھے، ابوالعباس، عبد اللہ سفاح، ابوجعفر منصور اور عبد الوہاب، یہ تینوں امام ابراہیم کے بھائی تھے، محمد بن ابراہیم، عیسیٰ بن موسیٰ، داؤد، عیسیٰ، صالح، اسماعیل، عبد اللہ، عبد الصمد، یہ آخرالذکر جوشخص امام بن ابراہیم کے چچا تھے، امام ابراہیم نے گرفتاری سے پہلے اپنے بھائی ابوالعباس عبد اللہ سفاح کواپنا جانشین مقرر فرمایا تھا اور مرتے وقت ابوالعباس عبد اللہ سفاح کے لیے وصیت کی تھی کہ کوفہ میں جاکر قیام کریں ؛ چنانچہ اس وصیت کے مطابق ابوالعباس عبد اللہ سفاح معہ مذکورہ بالا اہلِ خاندان حمیمہ سے روانہ ہوکر کوفہ میں آیا، ابوالعباس، جب کوفہ میں پہنچا ہے تووہ یہ زمانہ تھا کہ کوفہ میں ابوسلمہ کی حکومت قائم ہو چکی تھی، ابوسلمہ کوفہ میں امام ابراہیم کی طرف سے قائم مقام اور مرکز کوفہ میں تحریک کا متہمم تھا؛ لیکن اب اس کی تمام ترکوششیں اولاد علی کوخلیفہ بنانے میں صرف ہونے لگی تھیں، قحطبہ بن شبیب بھی اسی خیال کا آدمی تھا؛ لیکن چونکہ ابوہاشم بن محمد نے وصیت کردی تھی کہ محمد بن علی عباسی کوان کی جماعت کے تمام آدمی اپنا پیشوا تسلیم کریں، اس لیے وہ اس آخری نتیجہ کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کرسکا تھا۔
جب ابوالعباس کے قریب پہنچنے کی خبر پہنچی توابوسلمہ معہ شیعانِ علی بہ غرض استقبال حمام اعین تک آیا اور ابوالعباس کوولید بن سعد کے مکان پرٹھہرایا اور کل شیعان علی وسپہ سالاران لشکر سے چالیس دن تک اس راز کوپوشیدہ رکھا، ابوسلمہ نے چاہا کہ آل ابی طالب میں سے کسی شخص کوخلیفہ منتخب کرکے اس کے ہاتھ پربیعت کی جائے ؛ لیکن ابوجہم نے جوشیعانِ علی میں سے تھا اس رائے کی مخالفت کی اور کہا کہ کہیں آلِ ابی طالب خلافت سے محروم نہ رہ جائیں اور لوگ ابوالعباس ہی کوخلیفہ نہ تسلیم کر لیں اگرابوالعباس امام ابراہیم کی وصیت کے موافق کوفہ میں نہ آ گیا ہوتا توبہت زیادہ ممکن تھا کہ ابوسلمہ ابی طالب کوخلیفہ بنانے میں کامیاب ہوجاتا، ابوسلمہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگوں کوابوالعباس کے آنے کی اطلاع ہو اور وہ اس کی طرف متوجہ ہونے لگیں، چنانچہ ابوسلمہ نے اس عرصہ میں امام جعفر صادق بن امام باقربن امام زین العابدین بن حسین بن علی کوخط لکھا کہ آپ کوفہ میں آئیے اور خلیفہ بن جائیے ؛ انھوں نے جواب میں انکار کیا، اتفاقاً لوگوں کوابوالعباس سفاح کے کوفہ میں آجانے کی اطلاع ہو گئی۔
کوفہ میں اب دوقسم کے لوگ موجود تھے ایک وہ جوآلِ عباس کی خلافت کے خواہاں تھے، دوسرے وہ جوآل ابی طالب کوخلیفہ بنانے کے خواہش مند تھے، عباسیوں کی طرف داروں نے سنتے ہی ابوالعباس سفاح کے پاس آنا جانا شروع کیا اور ان کے ساتھ ہی شیعانِ علی بھی ابوالعباس کے پاس آنے جانے لگے، جب لوگوں کویہ معلوم ہوا کہ ابوسلمہ حاکم کوفہ نے جووزیراہلِ بیت کے لقب سے مشہور تھا، ابوالعباس عبداللہ سفاح کے ساتھ مہمان نوازی کے لوازم وشرائط کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہے توبہت سے شیعانِ علی عبد اللہ سفاح کے ہواخواہ بن گئے اور اس طرح ابوالعباس عبد اللہ سفاح کی کوفہ کی موجودگی نے عام طور پرلوگوں کی توجہ اور ہمدردی کواپنی طرف منعطف کر لیا۔
آخر12/ربیع الاوّل بروز جمعہ سنہ132ھ مطابق 30/اکٹوبر سنہ729ء کولوگوں نے مجتمع ہوکر ابوالعباس عبد اللہ سفاح کواس کی جائے قیام سے ہمارہ لیا اور دارالامارۃ زیں داخل ہوئے، عبد اللہ سفاح دارالامارۃ سے جامع مسجد میں آیا، خطبہ دیا، نماز جمعہ پڑھائی اور نماز جمعہ کے بعد پھرمنبر پرچڑھ کرتمام لوگوں سے بیعت لی، یہ خطبہ نہایت بلیغ وفصیح تھا، اس میں اپنے آپ کومستحقِ خلافت ثابت کیا اور لوگوں کے وظائف بڑھانے کا وعدہ کیا، اہلِ کوفہ کی ستائش کی اس خطبہ کے بعد عبد اللہ سفاح کے چچاداؤد نے منبر پرچڑھ کرتقریر کی اور بنوعباس کی خلافت کے متعلق مناسب الفاظ بیان کرکے بنواُزیہ کی مذمت کی اور لوگوں سے بیان کیا کہ آج امیر المومنین عبد اللہ سفاح کسی قدر بخار اور اعضاشکنی کی تکلیف میں مبتلا ہیں اس لیے زیادہ بیان نہ کرسکے، آپ سب لوگ ان کے لی دُعا کریں، اس کے بعد ابوالعباس عبداللہ سفاح قصرِامارت کی طرف روانہ ہوا اور اس کا بھائی ابوجعفر منصور مسجد میں بیٹھا ہوا رات تک لوگوں سے بیعت لیتا رہا، ابوالعباس عبد اللہ سفاح بیعتِ خلافت لینے کے لیے قصرِ امارت میں گیا؛ پھروہاں سے ابوسلمہ کے خیمہ میں جاکر اس سے ملاقات کی ابوسلمہ نے بھی بیعت توکرلی مگروہ دل سے اس بیعت اور عباسیوں کی خَافت پررضامند نہ تھا، عبد اللہ سفاح نے مضافات کوفہ کی نیابت اپنے چچا داؤد کودی اور اپنے دوسرے چچا عبد اللہ بن علی کوابوعون بن یزید کی کمک کے لیے روانہ کیا اور اپنے بھتیجے عیسیٰ بن موسیٰ کوحسن بن قحطبہ کی مدد کے لیے بھیجا، جوواسطہ کا محاصرہ کیے ہوئے پڑا تھا اور ابن ہبیرہ کومحصور کررکھا تا اور یمیمی بن جعفر بن تمام بن عباس کوحمیدبن قحطبہ کی امداد پرمدائن کی طرف روانہ کیا؛ اسی طرح ہرطرف سرداروں کومتعین ومامور کیا، ابومسلم خراسان ہی میں تھا اور وہ خراسان کوجلد ازجلد دشمنوں سے صاف کر رہا تھا، عبد اللہ سفاح کوفہ میں خلیفہ ہوکر ہرایک اہم معاملہ میں ابومسلم کا مشورہ طلب کرتا تھا اور جیسے ابومسلم لکھتا تھا اسی کے موافق عمل درآمد کرتا تھا۔
یہ وہ زمانہ تمام عالم اسلامی میں بڑا نازک اور خطرناک زمانہ تھا، ہرایک ملک اور ہرایک صوبہ میں جابجا لڑائیاں اور فسادات برپا تھے، واسط میں ابن ہبیرہ کومغلوب کرنا آسان نہ تھا ادھر مروان بن محمد اموی خلیفہ شام میں موجود تھا، حجاز میں بھی طائف الملوکی برپا تھی، مصر کی حالت بھی خراب تھی، اندلس میں عباسی تحریک کا مطلو کوئی اثر ہی نہ تھا، جزیرہ وآرمینیا میں اموری سردار موجود تھے اور عباسیوں کے خلاف مقابلہ پرآمادہ ہو گئے تھے، خراسان بھی پورے طور پرقابو میں نہ آیا تھا، بصرہ میں بھی عباسی حکومت قائم نہ ہو سکتی تھی، حضرِموت ویمامہ ویمن کی بھی یہی حالت تھی، عبد اللہ سفاح کے خلیفہ ہوتے ہی آل ابی طالب یعنی علویوں میں جواب تک شریکِ کار تھے ایک ہلچل سی مچ گئی اور وہ اس نتیجہ پرحیران اور ناراض تھے ؛ کیونکہ ان کواپنی خلافت کی توقع تھی، عباسیوں کی اس کامیابی میں سب سے بڑادخل محمد بن حنیفہ کے بیٹے ابوہشام عبد اللہ کی اس وصیت کوہے جوانھوں نے مرتے وقت محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس کے حق میں کی تھی، اس وصیت کی وجہ سے شیعوں کے فرقے کیسانیہ کا یہ عقیدہ قائم ہوا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بعد محمد بن حنیفہ امام تھے، ان کے بعد ان کے بیٹے ابوہشام عبد اللہ امام ہوئے ان کے بعد محمد بن علی عباسی ان کے جانشین اور امام تھے، محمد بن علی کے بعد ان کے بیٹے ابراہیم امام ہوئے اور امام ابراہیم کے بعد عبد اللہ سفاح امام ہیں، اس طرح شیعوں کی ایک بڑی جماعت شیعوں سے کٹ کرعباسیوں میں شامل ہو گئی اور علویوں یافاطمیوں کوکوئی موقع عباسیوں کے خلاف کھڑے ہونے کا نہ مل سکا وہ اندر ہی اندر پیچ وتاب کھاکررہ گئے۔
جب مروان بن محمد آخری اموی خلیفہ مارا گیا توحبیب بن مرہ حاکم بلقاء نے عبد اللہ سفاح کے خلاف خروج کیااور سفید جھنڈے لے کرنکلا ادھر عامل بن قنسرین بھی اُٹھ کھڑا ہوا؛ حالانکہ اس سے پہلے وہ عبد اللہ بن علی عباسی کے ہاتھ پربیعت کرچکا تھا، اہلِ حمص بھی اس کے شریک ہو گئے ادھر آرمینیا کے گورنراسحاق بن مسلم عقیلی نے عباسیوں کے خلاف خروج کیا ان تمام بغاوتوں کے فرو کرنے کے لیے عبد اللہ سفاح نے اپنے سرداروں اور رشتہ داروں کوبھیجا اور بتدریج کامیابی حاصل کی؛ لیکن یزید بن عمر بن ہبیرہ ابھی تک واسط پرقابض ومتصرف تھا اور کوئی سردار اس کومغلوب ومفتوح نہ کرسکا تھا، آخر مجبور ہوکر یزید بن عمربن ہبیرہ نے ابوجعفر منصور اور عبد اللہ سفاح نے جاکر صلح کی اور یزید بن عمر بیعت پرآمادہ ہوا؛ لیکن ابومسلم نے خراسان سے عبد اللہ سفاح کولکھا کہ یزید بن عمر کا وجود بے حد خطرناک ہے اس کوقتل کردو؛ چنانچہ دھوکے سے منصور عباسی نے اس کوقتل کرادیا اور اس خطرہ سے نجات حاصل کی۔
اب کوفہ میں ابوسلمہ باقی تھا اور بظاہر کوئی موقع اس کے قتل کا حاصل نہ تھا؛ کیونکہ عباسی اس ابتدائی زمانے میں شیعانِ اولاد علی کی مخالفت علانیہ نہ کرنا چاہتے تھے، ابوسلمہ کے متعلق تمام حالات لکھ کرابومسلم کے پاس خراسان بھیجے گئے اور اس سے مشورہ طلب کیا گیا، ابومسلم نے لکھا کہ ابوسلمہ کوفوراً قتل کرادینا چاہیے، اس پرعبداللہ سفاح نے اپنے چچاداؤد بن علی کے مشورہ سے ابومسلم کولکھا کہ اگرہم اس کوقتل کر دیں گے توابوسلمہ کے طرف داروں اور شیعانِ علی کی جانب سے علانیہ مخالفت اور بغاوت کا خطرہ ہے تم وہاں سے کسی شخص کوبھیج دو جوابوسلمہ کوقتل کر دے، ابومسلم مراد بن انس کوابوسلمہ کے قتل پرمامور کرکے بھیج دیا، مراد نے کوفہ میں آکر ایک روز کوفہ کی کسی گلی میں جب کہ ابوسلمہ جا رہا تھا اس پرتلوار کا وار کیا، ابوسلمہ مارا گیا، مراد بن انس بھاگ گیا اور لوگوں میں مشہور ہوا کہ کوئی خارجی ابوسلمہ کوقتل کرگیا ہے ؛ اسی قتل کے بعد ابومسلم نے اسی طرح سلیمان بن کثیر کوبھی قتل کرادیا، یہ وہی سلیمان بن کثیر ہے جس نے ابومسلم کوشروع میں وارد خراسان ہونے پرواپس کرادیا تھا اور ابوداؤد نے ابومسلم کوراستے سے واپس بلایا تھا؛ غرض ابومسلم نے چن چن کرہرایک اس شخص کوجواس کی مخالفت کر سکتا تھا قتل کرادیا۔ اس کے بعد سفاح کے سامنے ابومسلم خراسانی كا خطرہ باقی رہ گيا۔ سفاح کو خدشہ تھا کہ خراسانی بغاوت كر كے خلافت چھین ليگا۔ اسی ليے اس نے خراسانی كو اپنے پاس بلا كے قتل كرنے كا منصوبہ بنايا۔ اس نے خراسانی كو دار الخلافہ انبار آنے كا خط بھیجا ليكن اس نے انكار كر ديا اور دہمکی دی كے زيادہ اسرار پر وہ بغاوت كر لیگا۔ آخرکار سفاح کی چالوں میں آ كر وہ آنبار پہنچ گيا۔ محل مين خليفہ سے ملاقات كے وقت خليفہ نے مناظرہ شروع كر ديا۔ بحث وتکرار زیادہ ہوئی تو سفاح نے تالی بجا كر پردے كے پیچھے چھپے محافظوں كو اشارہ كر ديا کے خراسانی پر حملہ كر کے اسے قتل کر دو۔ اسن طرح خراسانی اپنے برے انجام كو پہنچا۔