اختر رضا سلیمی
اختر رضا سلیمی (پیدائش: 16 جون، 1974ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے بقید حیات اردو اور ہندکو زبان کے شاعر، ناول نگار اور اکادمی ادبیات پاکستان کے جریدہ ادبیات کے مدیر ہیں۔ان کے پانچ شعری مجموعے اور در ناولٹ شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا ناول جاگے ہیں خواب میں، 2015ء میں 1001 الک الگ سرورق کے ساتھ شائع ہوا، یہ 1001 وصی حیدر کے بنائے مصوری کے نمونے تھے، جن کو بطور سرورق استعمال کیا گیا۔
اختر رضا سلیمی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | محمد پرویز اختر |
پیدائش | 16 جون 1974ء (50 سال) ہری پور |
شہریت | پاکستان |
عرفیت | اختر رضا سلیمی |
مذہب | اسلام |
عملی زندگی | |
صنف | شاعری، ناول |
مادر علمی | علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، سرگودھا یونیورسٹی |
پیشہ | شاعر |
کارہائے نمایاں | جندر (ناول) |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیماختر رضاسلیمی 16 جون، 1974ء کو کیکوٹ، ہری پور، خیبر پختونخوا، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی نام سردار محمد پرویز اختر ہے۔ اختر رضا سلیمی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی بعد ازاں وہ کراچی چلے گئے جہاں سے میٹرک کاامتحان پاس کرنے کے بعد وہ راولپنڈی منتقل ہو گئے۔ انھوں نے انٹر یڈیٹ راولپنڈی بورڈ سے، گریجویشن علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے اور ایم اے (اردو) سرگودھایونیورسٹی سے کیا۔ 2006ء میں انھوں نے اکادمی ادبیات پاکستان میں اپنی ملازمت کا آغاز کیا، جہاں آج کل وہ اردو ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ اکادمی ادبیات پاکستان کے سہ ماہی جریدے ادبیات کے مدیر بھی ہیں۔
ادبی خدمات
ترمیماختررضا سلیمی نے لکھنے کا آغاز 1992ء میں روزنامہ جنگ میں بچوں کے لیے ایک کہانی لکھ کر کیا۔ شروع میں انھوں نے سماجی، معاشرتی، سیاسی، مذہبی اور ادبی موضوعات پر مضامین اور کالم بھی لکھے، لیکن آج کل وہ نئی نسل کے ایک اہم شاعر اور ناول نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے شاعری کا باقاعدہ آغاز 1997ء میں کیا اور بہت جلد شاعری کے میدان میں اپنا سکہ جما لیا۔[1] اختر رضاسلیمی ایسے لوگوں میں سے ایک جن کے ابتدائی شعر ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ اختراع 2003ء میں جبکہ دوسرا شعری مجموعہ ارتفاع 2008ء میں منظر عام پر آیا۔ 2014ء میں ان کی نظموں کا مجموعہ خواب دان کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے۔ 2009ء میں ان کے یہ دونوں شعری مجموعے خوشبو مرے ساتھ چل پڑی ہے کے نام سے یکجا صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا ناول جاگے ہیں خواب میں بھی شائع ہوا۔ یہ ناول اسلام آباد کے عقب میں واقع مارگلہ کے پہاڑی سلسلے کے دوسری طرف بہنے والے دریائے ہرو کے آس پاس رہنے والوں کی زندگیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ ناول کا نمایاں رنگ آواگون یا تناسخ کا نظریہ ہے، جس کے تحت ناول کا مرکزی کردار زمان مختلف ادوار میں مختلف شناختیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ادوار اشوکِ اعظم کے عہد سے لے کر انیسویں صدی میں انگریزوں کی عمل داری اور پھر سے وہاں سے ہوتے ہوئے جدید زمانے تک سفر کرتے ہیں۔[2]اس ناول کے اختر صاحب نے اپنے دوست وصی حیدر کی مدد سے ا00ا پینٹنگز کے کور جو ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں بنا کر ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔[3]2017 میں انھوں نے اپنی مثال آپ ایک اور ناول جندر لکھا۔ شعور کی رو میں بہتا ہوا یہ ناول، خیالات کا ایک دائرہ مکمّل کر کے اپنے نقطۂ آغاز پر آکر ختم ہوجاتا ہے۔ اس کا مرکزی کردار ولی خان (اپنی دانست میں) بسترِ مرگ پر لیٹا، موت کا منتظر ہے، خیالات کے گھیرے میں بار بار دور جاتا اور یوں ایک خاص مقام پر ٹھہرا ہوا وہ وقت کے سنگ ہائے میل ماپتا واپس اسی نقطے پر پلٹ پلٹ کر اپنی کہانی کو مکمل کرتا ہے۔
اختر رضا سلیمی کے فن پر مقالہ
ترمیماختر رضا سلیمی کی شاعری کا اعتراف ہر سطح پر کیا گیا۔ انھیں نہ صرف عوامی اور ادبی حلقوں سے داد ملی بل کہ ان کی شاعری کا اعتراف ان کی کم عمری میں ہی یونیورسٹی کی سطح پر ایم اے کا مقالہ لکھ کر بھی کیا گیا۔[4] 2009ء میں جامعہ نمل کی طالبہ نادیہ پروین نے ان کی مطبوعات اختراع اور ارتفاع کے تناظر میں ایم اے کا مقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کی۔
نمونۂ کلام
ترمیماشعار
میں عکس اس کا شعر میں ایسا اتارا تھا | سب نے مرے کلام کا صدقہ اتارا تھا | |
پھر اس کے بعد گر گیا سونے کا بھاؤ بھی | اک شام اس نے کان سے جھمکا اتارا تھ |
غزل
تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے | کنار چشم کئی خواب سر اٹھانے لگے | |
پلک جھپکنے میں گزرے کسی فلک سے ہم | کسی گلی سے گزرتے ہوئے زمانے لگے | |
مرا خیال تھا یہ سلسلہ دیوں تک ہے | مگر یہ لوگ مرے خواب بھی بجھانے لگے | |
نجانے رات ترے مے کشوں کو کیا سوجھی | سبو اٹھاتے اٹھاتے فلک اٹھانے لگے | |
وہ گھر کرے کسی دل میں تو عین ممکن ہے | ہماری دربدری میں بھی کسی ٹھانے لگے | |
میں گنگناتے ہوئے جا رہا تھا نام ترا | شجر ہجر بھی مرے ساتھ گنگنانے لگے | |
حدود دشت میں آبادیاں جو ہونے لگیں | ہم اپنے شہر میں تنہائیاں بسانے لگے | |
دھواں دھنک ہوا انگار پھول بنتے گئے | تمہارے ہاتھ بھی کیا معجزے دکھانے لگے | |
رضا وہ رن پڑا کل شب بہ رزم گاہ جنوں | کلاہیں چھوڑ کے سب لوگ سر بچانے لگے |
تصانیف
ترمیمشعری مجموعے
ترمیمناول
ترمیممرتب کردہ
ترمیممزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ ڈیلی ٹائمز، پاکستان
- ↑ ایک کتاب ایک ہزار ایک سرورق، ظفر سید، بی بی سی اردو، برطانیہ، 8 اپریل 2015ء
- ↑ "جندر"۔ 07 جولائی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جولائی 2020
- ↑ "مصنفین، گلوبل اردو فورم ویب"۔ 02 اگست 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جنوری 2011