ادھم خاں (پیدائش: 1531ء — وفات: 16 مئی 1562ء) مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کا رضاعی بھائی اور مغلیہ سلطنت کا ایک جرنیل تھا۔ وہ ماہم انگہ کا چھوٹا بیٹا تھا جسے سرکشی اور بغاوت اور شمس الدین اتگہ خان کے قتل میں ملوث ہونے پر قتل کروا دیا گیا۔

ادھم خاں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1531ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کابل ،  مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 مئی 1562ء (30–31 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قلعہ آگرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن ادھم خان کا مزار ،  مہرؤلی ،  دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ ماہم انگہ   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

پیدائش اور ابتدائی حالات

ترمیم

ادھم خاں کی پیدائش 1531ء میں کابل میں ہوئی۔ اُس کی والدہ ماہم انگہ تھی جس نے مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کی پرورش کی تھی۔

عسکری عہدے

ترمیم

1561ء میں مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے بیرم خان کو مالوہ کی فتوحات اور لشکرکشی سے برخاست کرکے ادھم خاں کو مالوہ کی فتح پر فائز کر دیا۔ ادھم خاں پنج ہزاری امیر تھا۔ سب سے پہلے اُس نے شہنشاہ اکبر کی ہمرکابی میں محاصرۂ مان کوٹ میں بہادری کا مظاہرہ کرکے شہرت حاصل کی۔[1] جب 1561ء کے ابتدائی دِنوں میں جلال الدین اکبر نے بیرم خان کو مالوہ کی تسخیر سے الگ کر دیا تو ادھم خاں کو پیر محمد خاں شیروانی کے ساتھ مالوہ کی فتح پر مقرر کر دیا کیونکہ باز بہادر کے مظالم اور بے راہ روی کی شکایات دربارِ اکبری میں مسلسل پہنچ رہی تھیں۔جب ادھم خاں سارنگ پور پہنچا، جو باز بہادر کا دار الحکومت تھا، تو باز بہادر جو مستی اور بے ہوشی میں دِن رات مست رہتا تھا، جب ہوش آیا تو ادھم خاں کے مقابلے پر نکلا۔ سخت مقابلے کے بعد ادھم خاں نے سارنگ پور میں باز بہادر کے مال و اَسباب، خاندان اور کنیزوں پر قبضہ کر لیا۔[2]

ادھم خاں کی متکبرانہ زِندگی

ترمیم

سارنگ پور کی تسخیر و فتح کے بعد وہ شاہی خزانے، دفینے اور نفیس مال و متاع کے حاصل کرنے کے بعد جو سالہا سال سے جمع کیے گئے تھے، ادھم خاں نہایت متکبر ہو گیا۔ پیر محمد خاں شیروانی کے سمجھانے کے باوجود کچھ نصیحت حاصل نہ کی بلکہ مالوہ کی حکومت کو امرا میں تقسیم کرکے تمام مالِ غنیمت میں سے چند ہاتھی صادق خاں کے ہمراہ دربارِ شاہی (آگرہ) بھیج دیے اور خود عیش و عشرت میں مشغول رہا۔ یہ بات شہنشاہ اَکبر کو ناگوار گذری اور وہ ادھم خاں کی اصلاح کرنے کے لیے فتح سارنگ پور کے سولہ روز بعد آگرہ سے روانہ ہوا اور 2 مئی 1562ء کو خود سارنگ پور پہنچ گیا۔ جب ادھم خاں سارنگ پور سے دو کوس کے فاصلے پر قلعہ گاگروں کی فتح کے اِرادے سے پہنچا تھا تو اُسے جیسے ہی شہنشاہ اَکبر کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور شہنشاہ اَکبر اُس کے گھر ٹھہرا۔ کہا جاتا ہے کہ ادھم خاں فاسد خیال رکھتا تھا اور بہانہ سازی میں لگا ہوا تھا۔[3]

شمس الدین اتگہ خاں کا قتل اور ادھم خاں کی موت

ترمیم

نومبر 1561ء میں جلال الدین اکبر نے شمس الدین اتگہ خاں کو وکیل سلطنت مغلیہ یعنی وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ اتگہ خاں قربِ شاہی کی وجہ سے فوقیت اور برتری رکھتا تھا اور سلطنت کے تمام کاموں میں خاصا دخل رکھتا تھا۔ ادھم خاں اِقتدار سے بھٹکا ہوا ہمیشہ اُس سے حسد کرتا رہا اور منعم خاں خانخاناں کہ وہ بھی اِس مصیبت میں مبتلاء تھا، وہ ہمیشہ ادھم خاں کو فتنہ و فساد اور غداری پر اُکساتا رہتا تھا۔ 16 مئی 1562ء کو دولت خانہ شاہی میں اتگہ خاں اور منعم خاں دوسرے امرا کے ساتھ مہماتِ سلطنت کے متعلق مشورہ میں مشغول تھے کہ ادھم خاں بے اعتدالی کی حالت میں ایک جماعت کے ہمراہ وہاں پہنچ گیا اور سب تعظیماً اُٹھے، چونکہ اتگہ خاں نیم قد تھا، ادھم خاں ہاتھ میں خنجر لیے اُس کی طرف متوجہ ہوا اور اپنے ہمراہیوں کو اِشارہ کر دیا۔ انھوں نے اتگہ خاں کو قتل کرڈالا۔ اِس کے بعد وہ بے باکانہ طور پر ہاتھ میں تلوار لیے محل سراء کی جانب متوجہ ہوا اور اُس بلند اِیوان پر چڑھ گیا جو محل خاصہ کے چاروں اطراف تھا۔ شور بلند ہوا تو جلال الدین اکبر خواب سے بیدار ہوا اور محل سے باہر نکلا اور حال معلوم کیا۔ غیظ و غضب میں تلوار لی اور جیسے ہی ادھم خاں پر نظر پڑی تو بولا: ’’اے کتیا کے بچے! تو نے میرے اتگہ (رضاعی باپ) کو کیوں مار ڈالا؟‘‘۔ ادھم خاں نے آگے بڑھ کر شہنشاہ کے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا کہ آپ غور کیجئے۔ تھوڑی سی کشمکش میں شہنشاہ نے اُس کے منہ پر گھونسا مارا اور وہ زمین پر گر پڑا۔ شہنشاہ نے مرحمت خاں خاصہ خیل اور سنک رام ہوس ناک سے جو وہاں کھڑے تھے، بولا: کیا تماشا کرتے ہو؟ اِس دیوانے کو باندھ دو۔ انھوں نے تعمیل کی۔ حکم ہوا کہ ادھم خاں کو ایوان خانے سے اوندھا نیچے کی جانب پھینک دیا جائے۔ اُسے ایوان خانہ سے دو مرتبہ نیچے پھینکا گیا، تب جا کر کیفر کردار کو پہنچا۔ یہ واقعہ 16 مئی 1562ء کو قلعہ آگرہ میں پیش آیا۔ جلال الدین اکبر کے حکم سے اُس کی لاش دہلی پہنچا دی گئی جہاں اُس کی تدفین کی گئی۔ بعد میں اُس کا مقبرہ بھی تعمیر کروا دیا گیا جسے متاخر مغل شہنشاہوں نے کوئی اہمیت نہیں دی۔[4]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم