فتاویٰ رضویہ
فتاویٰ رضویہ فقہ حنفی کے مطابق احمد رضا خان کے جاری کردہ ہزاروں فتاوی جات کا مجموعہ ہے، اس علمی ذخیرے کو فقہ حنفی کا انسائیکلوپیڈیا کہا جاتا ہے۔ اس کا پورا نام العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ہے جسے مختصر طور پر فتاویٰ رضویہ کہا جاتا ہے۔ تخریج شدہ تینتیس جلدوں جن میں کل 6847 سوالات کے جوابات ہیں اور احمد رضا خان کے 206 رسائل بھی اس میں شامل ہیں۔[1]
فائل:Fatawarazavia.jpg کراچی سے 2017ء کی ایک اشاعت کا سرورق | |
مصنف | احمد رضا خان |
---|---|
اصل عنوان | اَلْعَطَایَا النَّبَوِیَّۃ فِی الْفَتَاوی الرِّضْوِیَّۃِ |
ملک | بھارت |
زبان | اردو، فارسی، عربی اور ایک انگریزی میں فتویٰ ہے۔ |
موضوع | شریعت اسلامیہ (فقہ حنفی) |
صنف | اسلامی ادب |
محل وقوع | بریلی |
اشاعت | 1911 تا 2005 |
ناشر | پاکستان اور بھارت کے کئی ناشرینرضا فاؤنڈیشن، لاہور |
طرز طباعت | مجلد، سافٹ وئير |
صفحات | 30 جلدیں، 22000+ صفحات، چھ ہزار آٹھ سو چالیس سوالات مع جوابات |
خصوصیات
ترمیم- فتوی کی ترتیب سب سے پہلے قرآنی آیات اس کے بعد احادیث کا حوالہ آتا ہے۔
- فقہا احناف کی کتابوں کے حوالے کثرت سے دیتے ہیں، صرف حوالہ ہی نہیں دیتے بلکہ نئے نکات کا اضافہ کرتے ہیں۔
- فتوی دیتے وقت اپنے و بیگانہ کی تمیز نہیں کرتے، بلکہ جو تحقیق سے حاصل ہو وہی بیان کرتے ہیں۔
- ایک ہی مسئلہ پر کثرت سے حوالے دیتے ہیں جو بعض اوقات سو سے اوپر چلے جاتے ہیں۔[2]
کثرت حوالہ کی مثالیں
ترمیم- فتوی الہادی الحاجب عن جنازۃ الغائب میں 239 کتابوں کے حوالے دیے ہیں۔[2]
- حرمت سجدہ تعظیمی پر 70 صفحات پر مفصل فتوی ہے جس میں 40 احادیث اور 150 حوالے فقہ و فتاوی کی کتابوں سے دیے ہیں۔[3]
- سماع موتی کے مسئلے پر 149 صفحات پر فتوی ہے جس میں 60 احادیث اور 300 اقوال علما بطور حوالہ پیش کیے ہیں۔[3]
- جمع الصلاتین کے مسئلے پر 114 صفحات پر فتوی میں 80 احادیث اور سینکڑوں حوالے دیے ہیں۔[3]
اہمیت و فضیلت
ترمیمملفوظات اعلیٰ حضرت میں ہے:
- فتاوٰی رضویہ توغواصِ بحرِفِقہ کے لیے آکسیجن کا کام دیتا ہے۔ فتاوٰی رضویہ (غیر مخرجہ ) کی 12اور تخریج شدہ کی 30 جِلدیں ہیں۔ یہ غالباً اُردو زبان میں دنیا کے ضَخیم ترین فتاویٰ ہیں جو تقریباً بائیس ہزار (22000) صَفَحات، چھ ہزار آٹھ سو سینتا لیس (6847) سُوالات کے جوابات اور دو سو چھ (206) رسائل پرمُشتَمل ہیں۔ جبکہ ہزا رہا مسائل ضِمناً زیرِ بَحث آ ئے ہیں۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ چودھویں صدی کے مجدد ہیں لہٰذا الفاظ آپ کے قلم سے صفحہ قرطاس پر منتقل ہوئے ہوں یا زبان سے، دونوں صورتوں میں ہمارے لیے رہنمائی کا سر چشمہ ہیں۔[4]
جبکہ فتاویٰ رضویہ میں لکھا ہے۔ بلا مبالغہ ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں 30 جِلدوں پر مشتمل یہ دنیا کا ضَخیم ترین فتاویٰ ہے۔ یہ بلند فقہی شاہکارمجموعی طور پر (21970) صَفَحات، چھ ہزار آٹھ سو سنتا لیس (6847) سُوالات کے جوابات اور دو سو چھ (206) رسائل پرمُشتَمل ہیں۔ جبکہ ہزا رہا مسائل ضِمناً زیرِ بَحث آ ئے ہیں[5]
اکابرین کی رائے
ترمیمماہر رضویات پروفیسر مسعود احمد دہلوی فرزند مفتی محمد مظہر اللہ نقشبندی نے 1980ء میں اپنے تاثر کا اظہار اس انداز میں کیا تھا کہ: سچ تو یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت معاصرین کے دیے جانے والے القابات کے جامع ہیں۔
محمد ادریس کاندھلوی، امین احسن اصلاحی کے شاگرد، سید ابوالاعلیٰ مودودی کے معتمد، ہفت روزہ شہاب لاہور کے چیف ایڈیٹر، نے امام احمد رضا کانفرس اسلام آباد منعقدہ 1993ءمیں کہا تھا: قرطاس و قلم سے میرا تعلق دو چار سال کی ہی بات نہیں، نصف صدی کی بات ہے اس دوران میں وقت کے بڑے بڑے اہل علم و قلم علما و مشائخ کی صحبت میں بیٹھ کر استفادہ کرنے کا موقع ملا اور ان کے درس میں شریک رہا اور اپنی بساط کے مطابق فیض حاصل کرتا رہا۔ زندگی میں میں نے اتنی روٹیاں نہیں کھائی ہوں گی جتنی کتابیں پڑھی ہیں۔ میری اپنی ذاتی لائبریری میں دس ہزار سے زیادہ کتابیں ہیں وہ سب مطالعہ سے گذری ہیں۔ ان مطالعے کے دوران میں امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی کتب نظر سے نہیں گذری تھیں اور مجہے یوں محسوس ہوتا تھا کہ علم کا خزانہ پالیا ہے اور علم کا سمندر پار کر لیا ہے۔ علم کی ہر جہت تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ مگر جب امام اہل سنت (مولانا احمد رضا بریلوی) کی کتابیں مطالعہ کیں اور ان کے علم کے دروازے پر دستک دی اور فیض یاب ہوا تو اپنے جہل کا احساس اور اعتراف ہوا۔ یوں لگا کہ ابھی تو علم کے سمندر کے کنارے کھڑا سیپیاں چن رہا تھا۔ علم کا سمندر تو امام کی ذات ہے۔ امام (احمد رضا بریلوی) کی تصانیف کا جتنا مطالعہ کرتا جاتا ہوں عقل اتنی ہی حیران ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ امام احمد رضا حضور نبی کریم ﷺ کے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اتنا وسیع علم دے کر دنیا میں بھیجا ہے کہ علم کی کوئی جہت ایسی نہیں جس پر امام کو دسترس حاصل نہ ہو اور اس پر کوئی تصنیف نہ کی ہو۔ یقیناًآپ سرکار دوعالم ﷺ کے علوم کے صحیح جانشیں تہے جس سے ایک عالم فیض یاب ہوا۔[6][7]
شماریات
ترمیمفتاوی کی نئی اشاعت جو لاہور سے 1990ء سے 2005ء تک عربی و فارسی عبارات مع رسائل و تخریج حوالہ جات کے شائع ہوا اس کے مطابق شماریات ہیں۔
جلد نمبر | عنوانات | جواباتِ اسئلۃ | رسائل تعداد | سنین اشاعت | صفحات |
---|---|---|---|---|---|
1 | کتاب الطھارۃ | 22 | 11 | شعبان المعظم 1410___مارچ 1990ء | 1152 |
2 | کتاب الطھارۃ | 33 | 7 | ربیع الثانی1412__نومبر 1991 | 710 |
3 | کتاب الطھارۃ | 59 | 6 | شعبان المعظم 1412__فروری1992ء | 756 |
4 | کتاب الطھارۃ | 125 | 5 | رجب المرجب 1413__جنوری 1993 | 760 |
5 | کتاب الصلوٰۃ | 140 | 6 | ربیع الاول1414__ستمبر 1993 | 692 |
6 | کتاب الصلوٰۃ | 457 | 4 | ربیع الاول1415__اگست1994 | 736 |
7 | کتاب الصلوٰۃ | 269 | 7 | رجب المرجب 1415__دسمبر1994 | 720 |
8 | کتاب الصلوٰۃ | 337 | 6 | محرم الحرام1416__جون 1995 | 664 |
9 | کتاب الجنائز | 273 | 13 | ذیقعدہ 1416__اپریل1996 | 946 |
10 | کتاب الجنائز، کتاب الصوم، کتاب الحج | 316 | 16 | ربیع الاول1417__اپریل 1996 | 832 |
11 | کتاب النکاح | 459 | 6 | محرم الحرام 1418__اگست 1996 | 736 |
12 | کتاب النکاح، کتاب الطلاق | 328 | 3 | رجب المرجب 1418__مئی1917 | 656 |
13 | کتاب الطلاق، کتاب الایمان، کتاب الحدود و التعزیر | 293 | 2 | ذیقعدہ 1418__نومبر1997 | 688 |
14 | کتاب السیر | 339 | 7 | جمادی الاخریٰ1419__ستمبر1998 | 712 |
15 | کتاب السیر | 81 | 15 | محرم الحرام1420__اپریل1999 | 744 |
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ فہارس فتاوی رضویہ۔ لاہور: رضا فاؤنڈیشن۔ 2006۔ صفحہ: 4
- ^ ا ب "برصغیر کے چند جید علما کی کتب فتاوی (اجمالی تعارف)" (PDF)۔ سہ ماہی فکر ونظر۔ 44 (1): 41۔ 2006ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جون 2017
- ^ ا ب پ "اکابر علمائے بریلی کی کتب فتاوی - تجزیاتی مطالعہ" (PDF)۔ جھہات الاسلام۔ 5 (1): 134۔ 2011ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جون 2017
- ↑ ملفوظات اعلیٰ حضرت، صفحہ 43، مولانا مصطفیٰ رضا خان، مجلس المدینۃ العلمیۃ
- ↑ فتاویٰ رضویہ جلد 1 صفحہ 9رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور
- ↑ ص49۔ مجلہ امام احمد رضا کانفرنس۔ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی۔ 1415ھ 1944ء
- ↑ "Alahazrat"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 مئی 2015