الفهريون
اس مضمون میں مزید حوالہ جات کی ضرورت ہے تاکہ مضمون میں تحریر کردہ معلومات کی تصدیق کی جاسکے۔ (October 2011) |
فہریون یا بنو فہر آٹھویں صدی عیسوی میں شمالی افریقا اور اندلس کا ایک ممتاز عرب خاندان تھا۔
بنو فہر الفهريون | |
---|---|
مورث خاندان | قریش |
ملک | افریقیہ (745–757) اندلس (747–756) |
مقام آغاز | مکہ، جزیرہ نما عرب |
قیام | 745 |
بانی | عبد الرحمان بن حبیب |
آخری حکمران | حبیب بن عبد الرحمان |
القاب | امیر |
تحلیل | 757 |
فہریوں کا نسلی تعلق قریش کی ایک شاخ بنو فہر سے تھا۔[1] بنو فہر کا سب سے مایہ ناز فرد عقبہ بن نافع تھا جو شمالی افریقا کا فاتح ہونے کے ساتھ ساتھ قیروان شہر کا بانی بھی تھا۔ 712ء میں جب فتح اندلس کی مہمات کا آغاز ہوا تو اس کے بیٹوں پوتوں میں سے بعض ان مہمات میں شریک تھے۔
مغربی ممالک کی فتح کے سرکردہ افراد میں یہ خاندان سرفہرست ہے اور اسی حیثیت میں آٹھویں صدی کے نصف اول میں یہ خاندان افریقیہ اور اندلس کی اشرافیہ میں شامل تھا۔ افریقیہ اور اندلس کے صوبجات کے کئی گورنرز اور فوجی سالاروں کا تعلق اِسی خاندان سے تھا۔ 740-41ء میں جو بربر بغاوت رونما ہوئی تھی اس کے نتیجے میں مغربی ممالک میں انتشار اور بد نظمی کا دور دورہ ہو گیا۔ بنو امیہ کے حکمرانوں کو مشرق میں فارسی ممالک میں بغاوتوں اور شورشوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا جس کے نتیجے میں وہ اس قابل نہ رہے تھے کہ مغربی ممالک میں اپنا اختیار از سر نو نافذ کر سکتے۔ اس سیاسی صورت حال کا فائدہ فہریوں نے اُٹھایا اور مغربی ممالک میں اپنی خود مختار حکومت قائم کر لی۔ افریقیہ پر تب عبد الرحمان بن حبیب (دورِ حکومت: 745–755) اور اندلس پر یوسف بن عبد الرحمان بن حبیب (دورِ حکومت: 747–756) کی حکومت قائم تھی جنھوں نے مرکز سے بغاوت کر کے خود مختاری حاصل کر لی تھی۔
اُس وقت کے سیاسی حالات کے پیشِ نظر ایسا لگتا تھا کہ بنو فہر اسلامی دُنیا کے مغربی ممالک اپنی نجی خاندانی سلطنت میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ 749-50 میں جب بنو امیہ زوال کی عمیق کھائیوں میں جا گرے اور بنو عباس عالم اِسلام کے نئے مالک و مختار ہوئے تو فہریوں نے اُنھیں نئے حکمرانوں کے طور پر خوش دلی سے قبول کیا تا کہ نئے حکمران اُنھیں مغربی ممالک میں حکومتی اُمور پر قائم رہنے دیں۔ لیکن عباسیوں نے اُنھیں مکمل اطاعت کا حکم دیا اور اس بات کو منظور نہ کیا کہ وہ اپنے مقبوضات میں عباسیوں کی برائے نام بادشاہی کو قائم رکھیں، تو بنو فہر نے مکمل خود مختاری اختیار کر لی۔
اُس زمانہ میں بنو امیہ کا ایک شاہزادہ عبد الرحمان بن معاویہ جان بچا کر افریقیہ میں پناہ کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ عبد الرحمان بن حبیب جو افریقیہ کا والی تھا، اُس نے ابنِ معاویہ کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ اس کے ساتھ ساتھ بنو امیہ کے دیگر مفروریوں کو بھی دعوتِ پناہ دی گئی۔ یہ مفرور شاہزادے چوں کہ امرائے بنو امیہ کے بیٹے اور پوتے تھے جو بنو فہر سے بڑھ کر اعلیٰ نسبی اور رُتبے کے حامل تھے چناں چہ جلد ہی وہ ابن حبیب کی مطلق العنانیت سے ناراض قیروان کے شیوخ میں مرکزِ نگاہ بن گئے اور وہ اُن شہزادوں کی آڑ میں ابن حبیب کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازشیں رچانے لگیں۔ ابن حبیب کو جب یہ اطلاعات پہنچیں تو اُسے اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہوا اور اُس نے ان پناہ گزینوں کو ستانے کا قصد کیا مگر ابن معاویہ بروقت خبردار ہو کر اندلس چلا گیا اور 756ء میں فہریوں کو معزول کر کے اپنی امارت قائم کر لی۔ اندلس میں فہری حکومت کے خاتمہ کے بعد افریقیہ میں بھی اُن کی حکومت کا چراغ زیادہ دیر تک نہ جل سکا اور 755ء میں وہ خانہ جنگی کا شکار ہو گئی، آخر 757–758ء میں خارجی بربر بغاوت میں افریقیہ سے بھی فہری حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
تاہم اندلس میں فہری نام کے اثرات باقی رہے۔ اس خاندان سے تعلق رکھنے کے دعویٰ دار صدی کے آخر تک اموی خاندان کے لیے مشکلات کھڑی کرتے رہے۔ آج تک اس خاندان کی نسل کے باقی ماندہ افراد مراکش کے شہر فاس میں رہتے ہیں جو الفاسی الفہری کہلاتے ہیں جب کہ کچھ افراد تیونس میں پائے جاتے ہیں۔[2]
فہریوں کا نسب نامہ
ترمیم1۔ نافع بن عبد القیس: یہ مشہور مسلم جرنیل اور شمالی افریقا کے فاتح عقبہ بن نافع کے والد محترم تھے۔
2۔ عقبہ بن نافع: یہ شمالی افریقا کے فاتح، قیروان شہر کے بانی اور افریقیہ کے دو بار گورنر تعینات رہے۔ پہلی بار معاویہ اول کے دور میں 666–674 تک 8 سال اور دوسری بار یزید اول ملعون کے دور میں 681–683 تک 2 سال کے لگ بھگ گورنر رہے۔
3۔ ابو عبیدہ بن عقبہ بن نافع: یہ 712ء میں فتح اندلس کی مہمات میں شامل تھے۔
4۔ حبیب بن ابو عبیدہ بن عقبہ بن نافع: یہ سوس شہر کے فاتح اور افریقیہ کی مسلم فوج کے کمان دار تھے۔ اکتوبر 741ء میں بربروں کے خلاف فاس کے نزدیک بقدورة کے معرکہ میں لڑتے ہوئے مقتول ہوئے۔
5۔ عبد الرحمان بن حبیب بن ابو عبیدہ بن عقبہ بن نافع: یہ 745ء سے 755ء تک 10 سال افریقیہ کے گورنر رہے۔ انھی کے دور میں امارت قرطبہ کا بانی عبد الرحمان الداخل عباسیوں سے جان بچا کر افریقیہ میں پناہ گزین ہوئے تھے۔
6۔ حبیب بن عبد الرحمان بن حبیب بن ابو عبیدہ بن عقبہ بن نافع: یہ برقہ شہر کے والی تھے، والد کی وفات پر اپنے چچاؤں محمد اور الیاس کو قتل کر کے جانشین ہوئے اور 755ء سے 757ء تک افریقیہ کے گورنر رہے۔
7۔ عبد الرحمان بن حبیب بن عبد الرحمان بن حبیب بن ابو عبیدہ بن عقبہ بن نافع: یہ الصقلبی کہلاتے تھے۔ بربری باغی ابو حاتم سے اتحاد کر کے یہ 778-779 میں اندلس میں شورشوں کے قائد بنے۔ انھیں عباسیوں کی تائید بھی حاصل تھی۔ عباسیوں نے اندلس میں بنو امیہ کا اقتدار ختم کرنے کے لیے عبد الرحمان الداخل کے مقابلے میں اندلس کا عباسی گورنر مقرر کر کے 770ء کی دہائی میں اندلس بھیجا تھا۔ یہ تدمیر کے مقام پر لنگر انداز ہوئے اور حملے شروع کر دیے مگر عبد الرحمان الداخل کا ستارہِ اقبال چوں کہ عروج پر تھا اس لیے اپنے مقصد میں ناکام ہوئے۔
8۔ عبد الرحمان بن یوسف: یہ 740ء کی دہائی میں سرقسطہ شہر کے گورنر تھے۔
9۔ محمد بن یوسف: 785ء میں عبد الرحمان الداخل کے خلاف اندلس میں بغاوت کی قیادت کی۔
10۔ یوسف بن عبد الرحمان بن حبیب بن ابو عبیدہ بن عقبہ بن نافع: یہ اندلس کے آخری اموی گورنر تھے، ان کا عرصہ امارت جنوری 750ء سے مئی 756ء تک رہا۔ ان سے عبد الرحمان الداخل نے اقتدار چھین کر اپنی امارت قائم کی تھی۔ 756ء میں قرطبہ کی فتح اور حکومت کے قیام کے بعد عبد الرحمان الداخل نے انھیں طلیطلہ کی گورنری سونپ دی تھی، یہ اس منصب پر 759ء تک قائم رہے۔ ان کی اولاد میں دو بیٹے محمد اور قاسم تھے۔
11۔ الیاس بن حبیب بن ابو عبیدہ بن عقبہ بن نافع: یہ طرابلس کا والی تھا، 755ء میں اپنے بھائی عبد الرحمان کو قتل کر کے افریقیہ کا گورنر بنا۔ دسمبر 755ء میں بھائی عبد الرحمان بن حبیب سے جنگ کرتا ہوا مارا گیا۔
12۔ عبد الوارث بن حبیب: یہ عبد الرحمان بن حبیب کے قتل میں ملوث تھا۔
13۔ عمران بن حبیب: یہ عبد الرحمان کے قتل کے حق میں نہ تھا، چناں چہ حبیب بن عبد الرحمان (دورِ امارت: 755-57) سے جا ملا۔
14۔ خالد بن حبیب بن ابو عبیدہ بن عقبہ بن نافع: یہ بربری بغاوت کے دوران ایک جنگ غزوة الاشراف میں فوج کا سالار تھا، اس جنگ میں مقتول ہوا۔
15۔ محمد بن ابو عبیدہ: یہ عبد الرحمن کے قتل میں ملوث تھا مگر یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی، حبیب بن عبد الرحمن کے ساتھ تنازعہ میں مارا گیا تھا۔[3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ہیو کینیڈی (2010-12-09)۔ عظیم عرب فتوحات: کس طرح اسلام کے پھیلاؤ نے اس دنیا کو بدل دیا جس میں ہم رہتے ہیں (بزبان انگریزی)۔ اوریون۔ ISBN 978-0-297-86559-9
- ↑ مراکشی کنیتوں کی لغت، مونا ہاشم، صفحہ 584، ناشر: لی فینیک، مقامِ اشاعت: کاسابلانکا، سالِ اشاعت: 2012،
- ↑ عربوں کی طرف سے افریقہ کی فتح پر مطالعہ، ایچ فورنل، صفحہ 95، پیرس، امپرمیری امپیریل، 1857