عقبہ بن نافع (عربی: عقبة بن نافع) (پیدائش 622ء مكة سعودی عرب) بنو امیہ کے جرنیل تھے جنھوں نے مغرب (موجودہ مغربی الجزائر اور مراکش) میں اسلامی فتوحات کا آغاز کیا۔

عقبہ بن نافع
(عربی میں: عقبة بن نافع الفهري‎ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عقبہ بن نافع کا مجسمہ

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 622ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 683ء (60–61 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سیدی عقبہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات لڑائی میں مارا گیا   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ
سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عسکری قائد ،  والی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں جامع مسجد قیروان ،  قیروان   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری خلافت راشدہ ،  سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P945) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شاخ خلافت راشدہ کی فوج   ویکی ڈیٹا پر (P241) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں المغرب کی اسلامی فتح   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عقبہ بن نافع کا لشکر اپنے گھوڑے بحر اوقیانوس میں ڈالتے ہوئے

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورحکومت میں ان کو افریقہ کا گورنر مقررفرمادیا تھا اورانہوں نے افریقہ کے کچھ حصوں کو فتح کر لیا اوربربری لوگ جو اس ملک کے اصلی باشندہ تھے ان کے بہت سے باشندے دامن اسلام میں آگئے ۔ 670ء میں عقبہ رضی اللہ عنہ نے مصر کے صحراؤں کو عبور کرکے شمالی افریقہ فتح کیا اور اپنے راستے میں مختلف مقامات پر عسکری چوکیاں قائم کیں۔ موجودہ تیونس میں انھوں نے قیروان کا شہر بسایا جو موجودہ شہر تیونس سے 160 کلومیٹر جنوب میں آج بھی موجود ہے۔ یہ شہر اگلی فتوحات کے لیے پڑاؤ کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ انھوں نے اس ملک میں اسلامی فوجوں کے لیے ایک چھاؤنی بنانے اور ایک اسلامی شہر آباد کرنے کا ارادہ فرمایا لیکن اس مقصد کے لیے ماہرین حربیات وعمرانیات نے جس جگہ کا انتخاب کیا وہاں ایک نہایت ہی خوفناک او رگنجان جنگل تھا جو جنگلی درندوں اورہرقسم کے موذی اورزہریلے حشرات الارض اورجانوروں کا مسکن اور گڑھ تھا ۔ اس موقع پر حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک عجیب کرامت کا ظہور ہوا۔

ایک پکار سے درندے فرار

ترمیم

مروی ہے کہ حضرت عقبہ بن نافع فہری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس لشکر میں اٹھارہ صحابی موجود تھے ۔ آپ نے ان سب مقدس صحابیوں کو جمع فرمایا اوران بزرگوں کو اپنے ساتھ لے کر اس خوفناک اورگھنے جنگل میں تشریف لے گئے اوربلند آواز سے یہ اعلان فرمایا:”اے درندو!اورموذی جانورو!ہم رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے صحابہ ہیں اورہم اس جگہ اپنی بستی بسا کر آباد ہونا چاہتے ہیں لہٰذا تم سب یہاں سے نکل جاؤ ورنہ اس کے بعد ہم تم میں سے جس کو یہاں دیکھیں گے قتل کر دیں گے ۔

اس اعلان کے بعد اس آواز میں خدا ہی جانتا ہے کہ کیا تاثیر تھی کہ سب درندوں اورحشرات الارض میں ہل چل مچ گئی اورغول درغول اس جنگل کے جانور نکلنے لگے ۔ شیر اپنے بچوں کو اٹھائے ہوئے ، بھیڑیے اپنے پلوں کو لیے ہوئے، سانپ اپنے سنپولیوں کو کمرسے چمٹائے ہوئے جنگل سے باہر نکلے چلے جار ہے تھے اوریہ ایک ایسا عجیب ہیبت ناک اوردہشت انگیز منظر تھا جو نہ اس سے قبل دیکھا گیا نہ یہ کسی کے وہم وگمان میں تھا۔ غرض پورا جنگل جانوروں سے خالی ہو گیا اورصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور پورے لشکر نے اس جنگل کوکاٹ کر 50ھ؁ میں ایک شہر آباد کیا جس کا نام ”قیروان ہے۔ یہ شہر اسی لیے مسلمانوں میں بہت زیادہ قابل احترام شمار کیا جاتاہے کہ اس شہر کی آبادکاری میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مقدس ہاتھوں کا بہت زیادہ حصہ ہے اور یہی و جہ ہے کہ ہزاروں جلیل القدرعلماء ومشائخ اس سرزمین کی آغوش خاک سے اٹھے اور پھر اسی مقدس زمین کی آغوش لحد میں دفن ہوکر اس زمین کا خزانہ بن گئے ۔ (1)


معجم البلدان تذکرہ قیروان

گھوڑے کی ٹاپ سے چشمہ جاری

ترمیم

حضرت عقبہ بن نافع فہری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ کرامت بھی بہت ہی حیرت انگیز اور عبرت خیز ہے کہ افریقہ کے جہادوں میں ایک مرتبہ ان کا لشکر ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں دور دورتک پانی نایاب تھا جب اسلامی لشکر پر پیاس کا غلبہ ہو ااورتمام لوگ تشنگی سے مضطرب ہوکر ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگے تو حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھ کر دعامانگی ۔ ابھی آپ کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ آپ کے گھوڑے نے اپنے کھر سے زمین کو کریدنا شروع کر دیا۔ آپ نے اٹھ کر دیکھاتو مٹی ہٹ چکی تھی اورایک پتھر نظر آرہا تھا ۔ آپ نے جیسے ہی اس پتھر کو ہٹایا تو ایک دم اس کے نیچے سے پانی کا ایک چشمہ پھوٹ نکلا اور اس قدر پانی بہنے لگا کہ سارالشکر سیراب ہو گیا اور تمام جانوروں نے بھی پیٹ بھر کر پانی پیا اور لشکر کے تمام سپاہیوں نے اپنی اپنی مشکوں کو بھی بھر لیا اور اس چشمہ کو بہتا ہوا چھوڑ کر لشکر آگے روانہ ہو گیا۔ (2)

شمالی افریقہ فتح کرنے کے بعد جب وہ بحر اوقیانوس(جسے بحرِ ظلمات بھی کہتے ہیں) تک پہنچے تو فرطِ جذبات میں اپنا گھوڑا سمندر میں ڈال دیا (جنابِ عقبہ رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھتے ہوئے آپ کے لشکر نے بھی گھوڑے بحرِ ظلمات میں دال دیے کسی ایک فرد نے بھی اس بات پر اعتراض نہیں کیا سبحان اللہ) اور اللہ تبارک تعالٰی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر یہ سمندر میری راہ میں حائل نہ ہوتا تو زمین کے آخری کونے تک تیرا نام بلند کرتا چلا جاتا۔ علامہ اقبال نے اس تاریخی واقعے کو اپنی شہرہ آفاق نظم شکوہ میں اس طرح سے بیان کیا ہے

دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے


بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

تاریخ اسلام کا یہ عظیم فاتح اور جرنیل 683ء میں مفتوحہ علاقوں سے واپسی کے سفر میں مقامی بربر باغیوں کے ہاتھوں شہید ہو گیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. آئی ایس این آئی: https://isni.org/isni/0000000393189086 — اخذ شدہ بتاریخ: 16 اکتوبر 2015
  2. عنوان : Gran Enciclopèdia Catalana — گرین انسائکلوپیڈیا کیٹلینا آئی ڈی: https://www.enciclopedia.cat/ec-gec-0068546.xml — بنام: ‘Uqba ibn Nāfi‘