امامہ بنت حمزہ (وفات: ساتویں صدی عیسوی، بمقام مدینہ منورہ) عہد نبوی میں موجود مشہور صحابیہ تھیں۔ امامہ کے والد حمزہ بن عبد المطلب اور والدہ سلمیٰ بنت عمیس تھیں۔ امامہ عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ کی ایک معروف شخصیت تھیں۔

امامہ بنت حمزہ
معلومات شخصیت
پیدائش 595
حجاز, سعودی عرب
وفات 630
حجاز, سعودی عرب
دیگر نام بنت حمزہ
شریک حیات سلمہ بن ابی سلمہ   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد لاولد
والدین
والد حمزہ بن عبد المطلب   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ سلمیٰ بنت عمیس   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان بنو ہاشم
عملی زندگی
وجہ شہرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیہ اور چچا زاد بہن

نام و نسب

ترمیم

سیدہ امامہ کے والد حمزہ بن عبد المطلب ہیں اور والدہ سلمیٰ بنت عمیس ہیں۔ امامہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چچازاد بہن ہیں۔ ابن حجر عسقلانی نے اِن کے متعدد نام نقل کیے ہیں جن میں عمارہ، فاطمہ، امامہ، امۃ اللہ اور سلمیٰ وغیرہ نام شامل ہیں اور لکھا ہے کہ اول الذکر نام یعنی عمارہ زیادہ معروف ہے۔[1] مختلف سیرت نگاروں نے بھی اِن کے نام کی صراحت کی ہے کہ اُن کا اصل نام عمارہ ہی تھا۔  [2] سلمیٰ بنت عمیس کا شمار اُن خواتین میں ہوتا ہے جنھوں نے دین اسلام کی ابتدائی تبلیغ کے دِنوں میں اسلام قبول کر لیا تھا اور جن خواتیں کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے "الاخوات مومنات" کا خطاب عطاء کیا یعنی "مسلمان بہنوں "۔[3] سلمیٰ بنت عمیس والدہ کی طرف سے ام المومنین میمونہ بنت حارث اور ام الفضل زوجہ عباس بن عبد المطلب کی بہن تھیں۔ حمزہ بن عبد المطلب سے سیدہ امامہ پیدا ہوئیں۔ غزوہ احد شوال میں حضرت حمزہ بن عبد المطلب شہید ہو گئے تو سلمیٰ بنت عمیس نے شداد بن الہاد اللیثی سے نکاح کیا اور اُن سے عبد اللہ اور عبد الرحمٰن کی پیدائش ہوئی جن کے نام پر انھوں نے اپنی کنیت رکھی۔[4]

ولادت

ترمیم

سیدہ امامہ کی ولادت غالباً ہجرت سے قبل ہوئی۔ سنہ تک اُن کے مکہ مکرمہ میں مقیم رہنے کا پتا چلتا ہے۔

کفالت

ترمیم

سیدہ امامہ کا تذکرہ پہلی بار کتبِ احادیث میں تب آتا ہے جب میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمرۃ القضاء کے واسطے مکہ مکرمہ آئے تو علی بن ابی طالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اِس بات کی طرف متوجہ کیا اور عرض کی کہ: " یا رسول اللہ! آپ ہماری چچا زاد یتیم بہن کو کس بنا پر مشرکین کے درمیان میں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اِس سے منع نہ فرمایا اور یوں علی بن ابی طالب اُن کو اُن کے گھر سے لے آئے۔ غالباً وہ اُس وقت سن بلوغت کو نہیں پہنچیں تھیں۔ جب امامہ علی بن ابی طالب کے ہمراہ مسلمان گھرانے میں آئیں تو جعفر طیار، زید بن حارثہ اور علی بن ابی طالب کے مابین اِن کی کفالت کے واسطے جھگڑا ہو گیا۔ حضرت جعفر نے جو حمزہ بن عبدالمطلب کے وصی تھے اور ہجرت مدینہ کے موقع پر وہ اُن کے بھائی بھی بنائے گئے تھے، نے کہا کہ: " یہ میری بھتیجی ہے، میں اِس کی کفالت کا تم سے زیادہ حق رکھتا ہوں "۔ اسماء بنت عمیس جعفر کی زوجہ تھیں تو انھوں نے کہا کہ: " خالہ ماں ہی کی طرح ہوتی ہے " اور جعفر نے کہا کہ:"میرے ہاں اِس کی خالہ اسماء بنت عمیس ہے، لہٰذا میں اِس کی کفالت کا زیادہ حقدار ہوں "۔ علی بن ابی طالب نے جب یہ باتیں سنیں تو کہا: "تم مجھ سے میری چچا زاد بہن کے متعلق کیوں جھگڑ رہے ہو؟ حالانکہ مشرکوں کے درمیان میں سے میں اِسے نکال لایا ہوں اور تم دونوں سے نسب میں اِس کے قریب میں ہوں۔ لہٰذا اس بچی پر میرا حق زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میں تمھارا فیصلہ کرتا ہوں، اے زید جہاں تک تیرا معاملہ ہے تو تم اللہ اور اُس کے رسول کا آزاد کردہ غلام ہے اور علی بن ابی طالب تو میرا بھائی اور میرا ساتھی ہے اور اے جعفر تو میری صورت اور سیرت میں میرے زیادہ مشابہہ ہے اور چونکہ تمھارے گھر میں اِس کی خالہ ہے اور شرعی حکم یہ ہے کہ خالہ کی موجودگی میں اُس کی بھانجی سے نکاح نہیں ہو سکتا، لہٰذا اِس بچی کی کفالت کے تم زیادہ حقدار ہو، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدہ امامہ جعفر کی کفالت میں دے دیں۔[5][6][7]

مدینہ منورہ میں اقامت

ترمیم

مؤرخ مدینہ منورہ ابوجعفر بن حبیب نے اپنی کتاب المحبر میں لکھا ہے کہ: " جب امامہ مدینہ منورہ آئیں تو وہ لوگوں سے اپنے والد کی قبر کے متعلق پوچھتی تھیں۔ اِس پر حسان بن ثابت نے انھیں چند اشعار میں جواب دیا تھا۔[8] سیدہ امامہ جعفر بن ابی طالب کے گھر میں عزت و احترام سے مقیم رہیں۔ اِس دوران میں جعفر کی شہادت ہو گئی تو اُن کی زوجہ اسماء بنت عمیس نے ابوبکر صدیق سے نکاح کر لیا۔ جعفر نے شہادت سے قبل سیدہ امامہ کو حضرت علی بن ابی طالب کی تولیت میں دے دیا تھا۔ چنانچہ اِنہی کے گھر میں سیدہ امامہ نے حدِ بلوغ میں قدم رکھا۔[9]

عقد و نسبت

ترمیم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امامہ کا نکاح اپنے سوتیلے بیٹے سلمہ سے کر دیا جن کی والدہ سیدہ ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ تھیں۔[10] بعض روایات میں یہ صراحت ملتی ہے کہ دونوں کی نسبت بچپن میں کردی گئی تھی اور رخصتی تک نوبت نہیں آسکی۔ ابن حجر عسقلانی، الواقدی اور ابوحاتم نے لکھا ہے کہ سلمہ تو خلیفہ عبدالملک بن مروان کے زمانہ تک زندہ رہے مگر سیدہ امامہ کم عمری میں ہی رخصتی سے قبل فوت ہو گئی تھیں۔[11]

وفات

ترمیم

سیدہ امامہ نے نہ کوئی روایت کی اور نہ اولاد کا سلسلہ چھوڑا۔ اُن کے سنہ وفات سے متعلق تاریخ خاموش ہے البتہ اِن کا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ابن حجر عسقلانی: فتح الباری، جلد 8۔ ص 55۔ مطبوعہ بیروت، لبنان۔
  2. المنذری:  حواشی ابی داؤد،  جلد 2۔ ص 710۔
  3. ابن حجر عسقلانی: الاصابہ فی تمیز الصحابہ، جلد 4۔ ص 324، ترجمہ سلمیٰ بنت عمیس۔
  4. ابن سعد: طبقات الکبیر، جلد 8، ص 158۔ مطبوعہ قاہرہ، مصر۔
  5. ابن سعد: طبقات الکبیر، جلد 8، ص 159/160۔ مطبوعہ قاہرہ، مصر۔
  6. امام بخاری: صحیح بخاری، جلد 8، ص 499، کتاب المغازی، باب عمرۃ القضاء، الرقم الحدیث 4251۔ مطبوعہ دار المعرفۃ، بیروت، لبنان۔
  7. امام ابوداؤد: سنن ابوداؤد، جلد 2، ص 710، کتاب الطلاق، باب 35، الرقم الحدیث 2280۔ مطبوعہ دارالحدیث، بیروت، لبنان
  8. ابن حجر عسقلانی: الاصابہ فی تمیز الصحابہ، جلد 4، ص 235۔ مطبوعہ بیروت، لبنان۔
  9. ابن حجر عسقلانی: فتح الباری، جلد 8، ص 508۔
  10. ابن حجر عسقلانی: الاصابہ فی تمیز الصحابہ، جلد 4، ص 236۔ مطبوعہ بیروت، لبنان۔
  11. ابن حجر عسقلانی: الاصابہ فی تمیز الصحابہ، جلد 2، ص 66، ترجمہ ابی سلمہ، رقم 3383۔ مطبوعہ بیروت، لبنان۔