ام رومان
زینب ، کنیت ام رومان بنت عامر ( متوفی 9ھ / 630ء ) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحابیہ اور ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی زوجہ تھیں۔[1]
ام رومان | |
---|---|
أم رومان | |
ذاتی | |
پیدائش | زینب بنت 'عامر بن عویمر بن 'عبد شمس بن 'عتاب الفراسیہ الکنانیہ زينب بنت عامر ابن عويمر ابن عبد شمس ابن عتاب الفراسية الكنانية |
وفات | ت ء628 یا ء630 عیسوی, 6 یا 8 ہجری |
مدفن | مدینہ |
مذہب | اسلام |
شریک حیات |
|
اولاد |
|
والدین |
|
دور | اسلام کا ابتدائی زمانہ |
وجہ شہرت |
|
نام و نسب
ترمیمام رومان کنیت ہے ان کا نام زینب بنت عامر بن عويمر بن عبد شمس بن عتاب بن اذينہ بن سبيع بن دھمان بن الحارث بن غنم بن مالک بن کنانہ ہے۔
قبیلہ کنانہ کے خاندان فراس سے تھیں۔[2][3]
اسلام
ترمیمابتدائے اسلام میں ابوبکر کے ساتھ انھوں نے بھی اس صدا کو لبیک کہا۔[2]
ہجرت
ترمیمہجرت کے وقت ابوبکر تنہا آنحضرتﷺ کی معیت میں مدینہ کو روانہ ہو گئے تھے لیکن ان کا خاندان مکہ میں مقیم تھا، مدینہ پہنچے تو وہاں سے زید بن حارثہ اور ابورافع مستورات کو لانے کے لیے بھیجے گئے، اُمّ رومان بھی ان ہی کے ہمراہ مدینہ میں آئیں۔[3]
عام حالات
ترمیمشعبان سنہ6ھ میں افک کا واقعہ پیش آیا، ام رومان رضی اللہ عنہا کے لیے یہ نہایت مصیبت کا وقت تھا، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر میکہ آئیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بالاخانے پر تھے اور حضرت اُم رومان رضی اللہ عنہا نیچے بیٹھی تھیں، پوچھا کیسے آئیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سارا واقعہ بیان کیا، بولیں بیٹی! اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں جو عورت اپنے خاوند کو زیادہ محبوب ہوتی ہے، اس کی سوتنیں حسد کی وجہ سے ایسا کرتی ہیں لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس سے کچھ تسکین نہ ہوئی اور چیخ مار کر روئیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آواز سنی تو بالاخانہ سے اتر آئے اور خود بھی رونے لگے؛ پھران سے کہا کہ تم اپنے گھرواپس جاؤ اس کے ساتھ ہی حضرت اُم رومان رضی اللہ عنہا کولے کرخود بھی روانہ ہوئے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو چونکہ اس صدمہ سے بخار آگیا تھا، دونوں نے ان کوگود میں لٹایا، عصر پڑھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: عائشہ! اگر واقعی تم سے ایسی غلطی ہوئی توخدا سے توبہ کرو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے والدین سے کہا کہ آپ لوگ جواب دیں؛ لیکن جواب ملا کہ ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟ غرض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود جواب دیا، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی جس میں ان کی صاف طور پر برأت کی گئی تھی تو حضرت اُم رومان رضی اللہ عنہا بولیں کہ تم اُٹھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں نہ ان کی مشکور ہوں اور نہ آپ کی میں صرف اپنے اللہ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔[4] [5] اسی سنہ کے اخیر میں مہمانوں کا واقعہ پیش آیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اصحاب صفہ میں سے تین صحابیوں کواپنے گھر لائے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے توواپسی میں دیر ہو گئی گھر آئے تو حضرت اُم رومان رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں بیٹھ رہے؟ بولے تم نے کھانا نہیں کھلایا؟ جواب ملا کھانا بھیجا تھا؛ لیکن ان لوگوں نے انکار کیا؛ غرض کھانا کھلایا گیا اور اس قدر برکت ہوئی کہ نہایت افراط کے ساتھ بچ رہا تھا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت اُم رومان رضی اللہ عنہا سے پوچھا اب کتنا ہے؟ بولیں تین گنا سے زیادہ؛ چنانچہ سب اُٹھوا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا گیا۔ [6]
ازدواجی حیثیت
ترمیمپہلا نکاح عبد اللہ بن حارث بن سخيرة الازدی سے ہوا جن سے طفیل بن عبد اللہ متولد ہوئے اور ان ہی کے ہمراہ مکہ آکر اقامت کی،عبد اللہ ابوبکر کے حلیف بن گئے تھے۔ جب ان کے مذکورہ شوہر کا انتقال ہوا تو ابو بکر صدیق نے ام رومان سے نکاح کر لیا۔
اولاد
ترمیمام المومنین عائشہ بنت ابی بکر اور عبد الرحمن بن ابی بکر انہی کے بطن سے تھے۔اور طفیل بن عبد اللہ پہلے شوہر عبد اللہ بن حارث سے۔
وفات
ترمیماُمّ رومان نے 9ھ یا اس کے بعد انتقال کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود قبر میں اُترے اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ 6ھ میں وفات پائی تھی۔[7] [3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تهذيب الكمال، للحافظ المزي، ج 35، ص 359
- ^ ا ب الطبقات الكبرى، لابن سعد، جزء 8، صفحة 276
- ^ ا ب پ الإصابة في تمييز الصحابة - ابن حجر العسقلاني - ج 8 - ص 391
- ↑ صحيح البخاري، جزء 3، صفحة 1239
- ↑ (صحیح بخاری:2/595،596،699)
- ↑ (بخاری:1/84،85)
- ↑ سیر الصحابیات، مؤلف، مولانا سعید انصاری 87،مشتاق بک کارنر لاہور