2017ء کا اناؤ جنسی زیادتی کا واقعہ
اُنَّاؤ اجتماعی آبرو ریزی معاملہ یا اناؤ جنسی زیادتی کا معاملہ[1] 2018ء کے ایک سنگین اجتماعی آبرو ریزی کے معاملے کا نام ہے جس میں بھارت کی ریاست اتر پردیش کی ایک لڑکی مبینہ طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ایم ایل اے اور اس کے بھائی کی جنسی ہوس کا شکار ہوئی۔ گوکہ یہ معاملہ 2017ء کا ہے تاہم یہ 2018ء میں اس لیے زور پکڑنے لگا کیوں کہ مظلومہ نے اسی سال ملزم ایم ایل اے کی شناخت کُلدیب سنگھ سینگر اور ان کے بھائی اتُل سنگھ سینگر کی ملزمین کے طور پر شناخت کی۔
2017ء کا اناؤ جنسی زیادتی کا واقعہ | |
---|---|
کٹھوعہ اور اناؤ کے سانحات کے خلاف مشترکہ احتجاج | |
مقام | اناؤ، اتر پردیش |
تاریخ | 4 جون 2017ء |
حملے کی قسم | آبروریزی اور قتل |
مظلومہ کا خاندان اور کُلدیب سنگھ سینگر ایک طویل عرصے سے اناؤ میں دوستانہ تعلقات رکھتے تھے۔ کلدیب پہلے کانگریس میں تھے۔ پھر وہ وقت اور حالات کے حساب سے سیاسی وابستگی بدلتے گئے اور بالآخر سر عام الزام تراشی کے وقت بی جے پی میں رہے۔ مظلومہ نے 2017ء کی ایف آئی آر میں کچھ دیگر افراد پر انگلی اٹھائی تھی، جس کے متعلق اس نے بعد میں بتایا کہ پولیس کے دباؤ کی وجہ سے وہ ایسا کر رہی تھی۔ احتجاج جب زور پکڑنے لگا، تب 5 اپریل کو مظلومہ کے باپ کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد مظلومہ نے انصاف کے لیے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی قیام گاہ کے سامنے خود سوزی کی کوشش کی۔ مبینہ طور پر ایم ایل اے کے بھائی اور ان کے حامی جیل میں قید بوڑھے شخص کو بے رحمی سے پیٹ ڈالتے ہیں۔ بعد ازاں ان زخموں کی تاب نہ لاکر باپ دم توڑ دیتا ہے۔ ایسے وقت میں میڈیا اور سماجی کارکن یہ امید کر رہے تھے کہ وزیر اعلیٰ آگے آئیں گے اور گلدیپ سنگھ کو گرفتار کریں گے۔ مگر 12 اپریل تک اترپردیش پولیس کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لاتی ہے۔ وہ ملزم کا نام ایف آئی آر میں تو لاتی ہے، مگر تمام شواہد کو کم زور قرار دیتی ہے۔ یہ مقدمہ ہنوز زیر تحقیق ہے اور اس کی تحقیق بھارت کا مرکزی تحقیقاتی ادارہ سی بی آئی کر رہا ہے۔[2][3][4][5][6]
حراست اور گرفتاری
ترمیم12 اپریل کی رات سے سی بی آئی اور اس کے ایما پر اترپردیش کی پولیس کلدیپ سنگھ کی تلاش اور تعاقب میں رہی۔ یہ سلسلہ صبح تک جاری رہا جب بالآخر 13 اپریل کو ساڑھے چار بجے صبح اسے حراست میں لے لیا گیا۔[7][8] الہ آباد ہائی کورٹ کی ایک پھٹکار کے بعد کہ سنگھ کو معاملے کی سنگینی کے پیش نظر گرفتار کرنا چاہیے، یہ تحویل گرفتاری میں بدل دی گئی۔ تاہم ملزم کا دعوٰی یہی رہا کہ اس نے خود کو قانون کے حوالے کیا۔
کلدیپ سنگھ کا کردار
ترمیماے بی پی نیوز پر نشر کردہ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق اناؤ ضلع کا ماکھی گاؤں کلدیپ سنگھ کی دہشت سے کانپتا ہے۔ یہاں وہ جو چاہے کر سکتے تھے۔ وہ بلا وجہ کسی کو بھی سو جوتے مار سکتے تھے اور اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتا۔ پولیس اور ضلع انتظامیہ پوری طرح سنگھ کے ساتھ تھا۔ اسی لیے میڈیا میں معاملے کے چھا جانے کے بعد بھی کارروائی خدا خدا کر کے کی گئی۔ اے بی پی نیوز کو کیمرے پر کوئی بھی فرد جان کے خوف کی وجہ سے کچھ بھی کہنے سے انکار کر رہا تھا۔ تاہم تصویر نہیں دکھانے کے وعدے پر لوگوں نے کلدیپ سنگھ کو سنی دیول کی فلم گھاتک کے منفی کردار کاتیا سے کی جو ایک جبری زانی تھا۔ اسے فلم میں سبق سنی دیول سکھاتا ہے، جسے لوگ بر صورت مسئولہ میں لوگ آبرو ریزی کی مظلومہ کے چچا میں تلاش کر رہے ہیں۔ لوگوں کا تو یہ بھی خیال ہے کہ چچا چناؤ میں بھی سنگھ کو ہرا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ 2007ء سے سنگھ اناؤ سے چناؤ جیتتا آیا ہے، حالانکہ وہ اپنی سیاسی وابستگی کئی بار بدل چکا ہے۔ وہ کبھی کانگریس میں رہا ہے تو کبھی بہو جن سماج پارٹی میں۔ موجودہ طور پر وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا ایم ایل اے ہے۔ اسے اس بات کا فائدہ ہے کہ یہی پارٹی ریاست اور مرکز میں حکومت چلا رہی ہے۔[9]
کلدیپ سنگھ نے آبرو ریزی کے الزام سے صاف انکار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے سیاسی سازش کے تحت پھنسایا گیا ہے۔ تاہم میڈیا کے نمائندوں اور سیاسی رہنماؤں نے اسے مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ حزب اختلاف کے لوگ اس وجہ بی جے پی کی خوب تنقید بھی کر رہے ہیں۔
2019ء کے واقعات
ترمیمجولائی 2019ء تک اگرچیکہ کلدیپ سنگھ قید میں ہی تھا، تاہم مقدمے کی رواں کار روائی شروع نہیں ہوئی۔ مظلومہ کے مطابق کلدیپ سنگھ نے شروع میں اس سے کہا تھا کہ وہ خاموش رہے، ورنہ اس کا پورا خاندان تباہ ہو جائے گا۔ چنانچہ پولیس نے اس کے والد کی ایسی پٹائی کی کہ وہ کافی پہلے ہی انتقال کر گئے تھے۔ مظلومہ کے چچا کو قریب 18 سال پرانے غیر قانونی ہتھیار کے معاملے میں گرفتار کیا گیا۔ 28 جولائی 2019ء کو مظلومہ اپنے چچا سے ایک ایسے قید خانے میں ملنے گئی جہاں انھیں حال ہی میں منتقل کیا گیا تھا۔ لوٹ کر آتے وقت ایک تیز رفتار ٹرک اس کار سے ٹکرا گیا جس میں مظلومہ سفر کر رہی تھی۔ اس واقعے میں مظلومہ اور اس کا وکیل بری طرح زخمی ہو گئے اور انھیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا۔ مظلومہ کی خالہ اور چچی بر سر موقع ہلاک ہو گئے۔ یہ موضوع نزاع ہے کہ یہ ٹکرانا حادثہ تھا یا سازش۔ تاہم ٹکرانے والی ٹرک کی نمبر پلیٹ پر کالک پوت دی گئی تھی۔ واقعے کے احوال کے پیش نظر کلدیپ سنگھ پر قتل کے مقدمے دائر ہوئے۔ مگر اسے سننے کے لیے ججوں کا ملنا بھی مشکل تھا کیوںکہ کلدیپ سنگھ ایک دبنگ قائد سمجھے جا رہے ہیں۔ [10][11] مظلومہ کا وکیل اپنے حادثے سے 15 دن پہلے ایک خط لکھا تھا جس میں الزام تھا کہ اس کی زندگی کو خطرہ ہے اور اس وجہ سے فوری ہتھیار رکھنے کا لائسنس اسے دیا جانا چاہیے۔ یہ خط ضلعی مجسٹریٹ کو لکھا گیا تھا۔[12]
یکم اگست 2019ء کو سپریم کورٹ نے اس آبرو ریزی معاملے سے جڑے پانچ مقدموں کو اترپردیش سے دہلی منتقل کرنے کا حکم جاری کیا۔ عدالت علیا نے عصمت دری کی مظلومہ کو 25 لاکھ روپیہ عبوری معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کو 7 دن کے اندر کار حادثے کی تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے یہ بھی وضاحت کی کہ ایجنسی صرف استثنائی حالات ہی میں مزید 7 دن کی مہلت طلب کر سکتی ہے، مگر یہ بھی استثنائی حالات میں۔اصل آبرو ریزی کے معاملے میں عدالت نے وضاحت کیا کہ مقدمہ اپنے آغاز سے 45 دن کے اندر مکمل ہو جانا چاہیے۔ عدالت نے زور دے کر ہدایت جاری کی کہ مظلومہ، اس کی ماں اور خاندان کے دیگر ارکان کو سنٹرل ریزرو پولیس پولیس فورس کی جانب سے حفاظت فراہم کی جائے اور برسر عہدہ شخص اس بابت عمل آوری کی رپورٹ لازمًا داخل کرے۔[13]
کلدیپ سنگھ کو بی جے پی نے پارٹی سے خارج کر دیا۔[14] اترپردیش کے ریاستی بی جے پی صدر سوتنتر دیو سنگھ نے کار حادثے کے ایک دن بعد ہی یہ دعوٰی کیا گیا کہ کلدیپ سنگھ کو اپریل 2018ء ہی میں پارٹی سے خارج کر دیا گیا۔ وہ مگر تاریخ یا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں پیش کر سکے۔ وہ اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ کیوں گلدیپ سنگھ کی بیوی سنگیتا اسی شہ نشین سے اناؤ میں منعقدہ 2019ء کی لوک سبھا ریلی میں یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ بیٹھی تھی۔ وہ اس بات کا بھی جواب نہیں دے سکے کہ کیوں لوک سبھا انتخابات کے بعد بی جے پی قائد ساکشی مہاراج نے انتخابی کامیابی کے لیے کلدیپ سے جیل میں مل کر ان کا شکریہ ادا کیا۔ [15] کئی متصاد خبروں کے بعد یکم اگست ہی کے دن بی جے پی نے یہ وضاحت کر دی کہ کلدیپ سنگھ کو ریاستی بی جے پی نے معطل کیا تھا، تاہم پارٹی کی مرکزی قیادت نے اسے پارٹی سے خارج کر دیا۔[16]
مظلومہ لکھنؤ کے کنگ جارجز ہاسپٹل میں زیر علاج شریک ہوئی جہاں وہ بے ہوش اور وینٹی لیٹر پر رکھی گئی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے کہا کہ اگر مظلومہ کا خاندان چاہے تو اسے دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (ایمس) میں شریک کیا جا سکتا ہے۔ تاہم خاندان نے فوری طور پر لکھنؤ کے کنگ جارجز میڈیکل ہاسپٹل میں علاج کو جاری رکھنے کی خواہش ظاہر کی۔[17] 6 اگست کو بگڑتی صحت کے پیش نظر مظلومہ کو ایمس منتقل کر دیا گیا۔ [18]
ملزم سے اظہار ہمدردی
ترمیمبلگرام ملاوان کے بی جے پی رکن اسمبلی آشیش کمار آشو نے 2 اگست 2019ء نے کیمرا کے روبرو کلدیپ سنگھ سے اپنی دلی ہمدردی کا مقامی پنچایتی اجلاس میں یوں اظہار کیا:
” | ہمارا بھائی کلدیپ سنگھ ہمارے بیچ نہیں آ سکا کیونکہ وہ ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ہماری نیک تمنائیں اس کے ساتھ ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ برے دور سے اوپر اٹھے گا، اس مقابلہ کر کے آگے آئے گا اور آپ سب کے ساتھ رہے گا اور آپ قیادت کرے گا۔ | “ |
بی جے پی کے ریاستی ترجمان راکیش ترپاٹھی نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ پارٹی نے ضابطے کی کارروائی کر دی ہے اور ایم ایل اے کا شاید یہی مطلب ہے کہ کوئی بھی شخص قانون سے خاطی قرار دیے جانے تک بے قصور ہے۔ [19] تاہم ترپاٹھی نے "قانون سے خاطی قرار دیے جانے تک بے قصور" کے اصول اور اس کے اسی پارلیمان میں منظور کردہ قانون غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام قانون [20] سے تصادم پر کچھ بھی کہنے سے گریز کیا۔
اناؤ کے لوگ بھی کلدیپ سنگھ کے لیے نرم گوشہ بنتے ہوئے دیکھے گئے جیسا کہ ان کے گاؤں کے اسکول کے پرنسپل نے یوں کہا:
” | رکن مقننہ صاحب (وِدھایک جی) وہی مشکل دور سے گزر رہے ہیں جس سے کہ راجا ہریشچندر اپنے برے دنوں میں گزرے تھے۔ انہیں (ہریشچندر) کو ایک چور اور مجرم قرار دیا گیا تھا، جہاں تک کہ ان کی رسائی ہوئی۔ فطرۃً حادثے کا سارا قصور ودھایک جی کے سر پر بغیر کسی ثبوت کے لاد دیا گیا ہے۔[21] | “ |
لڑکیوں کی لفاظت پر سوال کرنے والی لڑکی کے والدین خوفزدہ
ترمیمبارہ بنکی میں پولیس اور طالبات کے ایک باہمی ملاقات کے پروگرام میں ایک گیارہویں جماعت کی طالبہ نے پولیس کو اناؤ معاملے کی روشنی میں لڑکیوں کی حفاظت کو لے کر تیکھے سوال کیے، جس کے پولیس جواب نہیں دے سکی۔ اس پر لڑکی اور اس کے والدین کافی خوفزدہ ہو گئے اور لڑکی کو دوبارہ اسکول بھیجنے پر کافی فکرمند ہو گئے۔[22]
ملزم کو حبس دوام
ترمیماناؤ کے ملزم کلدیپ سنگھ سینگر کو دسمبر 2019ء کو مقامی عدالت کے جج نے قصور وار پاتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی۔[23]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ https://www.urdutahzeeb.com/india/congress-midnight-protest-مارچ-against-unnao-kathua-rape-incidents/%7B%7Bمردہ%7B%7Bمردہ%7B%7Bمردہ%7B%7Bمردہ%7B%7Bمردہ%7B%7Bمردہ%7B%7Bمردہ%7B%7Bمردہ%7B%7Bمردہ%7B%7Bمردہ[مردہ ربط] ربط|date=June 2021 |bot=InternetArchiveBot}} ربط|date=April 2021 |bot=InternetArchiveBot}} ربط|date=March 2021 |bot=InternetArchiveBot}} ربط|date=March 2021 |bot=InternetArchiveBot}} ربط|date=March 2021 |bot=InternetArchiveBot}} ربط|date=February 2021 |bot=InternetArchiveBot}} ربط|date=February 2021 |bot=InternetArchiveBot}} ربط|date=February 2021 |bot=InternetArchiveBot}} ربط|date=January 2021 |bot=InternetArchiveBot}} ربط|date=January 2021 |bot=InternetArchiveBot}}
- ↑ "Unnao rape case: Kuldeep Singh Sengar, BJP MLA accused of raping 18-year-old, is a known political turncoat – Firstpost"۔ www.firstpost.com۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2018
- ↑ "All that has happened in Unnao rape case, a timeline"۔ Hindustan Times (بزبان انگریزی)۔ 2018-04-10۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2018
- ↑ "Unnao Rape: FIR Filed Against BJP MLA, Case Transferred to CBI"۔ The Quint (بزبان انگریزی)۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2018
- ↑ Omar Rashid (2018-04-11)۔ "Allahabad HC takes up Unnao rape case"۔ The Hindu (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0971-751X۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2018
- ↑ Omar Rashid (2018-04-11)۔ "Unnao gang rape case: BJP MLA's wife demands narco test of husband, minor"۔ The Hindu (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0971-751X۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2018
- ↑ "Rape-Accused BJP Lawmaker Kuldeep Singh Sengar Taken In For Questioning By CBI"۔ NDTV.com۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2018
- ↑ "Allahabad High Court Orders Arrest Of BJP Lawmaker Kuldeep Singh Sengar"۔ NDTV.com۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2018
- ↑ "GROUND REPORT from Kuldeep Sengar's village Makhi: Residents are too scared to talk"۔ 13 اپریل 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2018
- ↑ "Unnao rape and murder: No judge to hear Kuldeep Singh Sengar case"۔ یاہو نیوز
- ↑ "Unnao rape and murder: No judge to hear Kuldeep Singh Sengar case"۔ انڈیا ٹوڈے ویب ڈیسک
- ↑ "Fear I may be killed: Unnao lawyer wrote before crash"۔ ریڈیف
- ↑ "Unnao: SC transfers cases to Delhi, orders Rs 25 lakh compensation"۔ ریڈیف
- ↑ "Rape accused Kuldeep Sengar expelled from BJP"۔ ریڈیف
- ↑ "Suspended Kuldeep Sengar, says BJP, but has no proof"۔ ٹائمز آف انڈیا
- ↑ "'Kuldeep Sengar was suspended by UP BJP, expelled by central leadership': State party chief clarifies on action against Unnao rape accused"۔ فرسٹ پوسٹ ڈاٹ کام
- ↑ "Family refuses to move Unnao rape victim to AIIMS"۔ ریڈیف
- ↑ "Unnao rape victim airlifted to AIIMS in Delhi after SC order"۔ یاہو نیوز
- ↑ "BJP MLA sympathises with Unnao rape accused Kuldeep Singh Sengar"۔ دی ہندو
- ↑ "Elders debate UAPA Bill, voting today"۔ دی ہندو
- ↑ "Despite the outrage, Unnao bats for rape-accused Kuldeep Singh Sengar"۔ دی ہندو
- ↑ "Uttar Pradesh: Schoolgirl speaks up on Unnao incident, family scared"۔ انڈین ایکسپریس
- ↑ 2017 Unnao rape case: Ex-BJP MLA Kuldeep Singh Sengar gets life imprisonment