اٹک ، انسانی تہذیب کا اولین گہوارہ

عہد جدید میں ضلع اٹک کا علاقہ جتنا پسماندہ اور دور افتادہ ہے عہد قدیم میں اپنے شاندار تہذیبی،تمدنی اور آثاریاتی پس منظر کی وجہ سے مورخین اور ماہرین آثاریات کے لیے اتنا ہی پر کشش ہے۔ اٹک زمانہ قدیم ہی سے ہندوستان پر بیرونی حملہ آوروں کی گزرگاہ اور اہم تجارتی مرکز رہا ہے یہاں سے کابل، سمرقند، بخارا،کشمیر، ہزارہ، سنکیانگ چین، ہند اور سندھ کو راستے نکلتے تھے۔ نئے حملہ آور، نقل مکانی کر کے آنے والے لوگ، سوداگر اور سیاح سبھی مختلف اوقات میں یہاں وارد ہوتے رہے اور یہاں کی تہذیب کو تازہ اور نئی روایات سے آشنا کرتے رہے دنیا کا کوئی بھی محقق جب سطح زمین پر انسانی تہذیب کی ابتداو ارتقا کا ذکر کرتا ہے تو ٹیکسلا اور وادی سواں کی تہذیب کو نظر انداز کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ ٹیکسلا اور وادی سواں کی تہذیب پر مورخین اور محققین نے بے شمار کتابیں لکھیں ہیں، تحقیقات کی ہیں اور ان تہذیبوں کے حوالے سے انسانی تاریخ کے ماضی کو کروڑوں سال تک کرید ڈالا ہے۔ کرۂ ارض پر زندگی کے آغاز کے بارے میں جمہور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ زمین پر زندگی کی ابتدا تین ارب اسی کروڑ سال پہلے ہوئی۔ ابتدا میں زندگی سمندروں اور جھیلوں میں پروٹو پلازم کی صورت میں ظہور پزیر ہوئی۔ بعد ازاں یہ مادۂ حیات یک خلوی اور پھر کثیر خلوی صورت اختیار کر گیا۔ یہ صورت حیات اسی طرح ارتقا پزیر رہی اور ایک ارب سال پہلے یہ ’’حیوانات‘‘ اور’’ نباتات‘‘ دو اقسام میں تقسیم ہو گئی بعد ازاں حیات کا مزید ارتقا ہوا تو یہ قریباً پچاس کروڑ سال پہلے سمندر سے خشکی پر منتقل ہو گئی۔

قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے ’’ و جعلنا من المائِ کل شیئٍ ٍحیی‘‘ اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ اگلی منزل پر یہ کاروان حیات ایک نئے دور میں داخل ہوا جسے ماہرین ’’محجر حیات کا دور ‘‘ کہتے ہیں۔ محجر حیات کا ابتدائی قدیم زمانہ 57 کروڑ سے شروع ہو کر 39 کروڑ پچاس لاکھ سال قبل کے عرصہ پر پھیلا ہوا ہے۔ محجرحیات کا اگلا ترقی یافتہ دور ’’ بالائی قدیم محجر حیات کا دور‘‘ کہلاتا ہے جو 39 کروڑ 50 لاکھ سال قبل سے شروع ہو کر 22 کروڑ 50 لاکھ سال قبل تک کے عرصہ پر محیط ہے۔ ببعد کے زمانہ کو ’’ درمیانی محجر حیات کادور‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا یہ دور 22 کروڑ پچاس لاکھ سال قبل سے شروع ہو کر 6 کروڑ 50 لاکھ سال قبل تک شمار کیا جاتا ہے۔ اس دور میں رینگنے والے جانور، آکٹوپس اور ڈائینوسار بکثرت پیدا ہو چکے تھے۔ کرہ ارض پر حیات کی اگلی منزل کو ’’حیاتِ نو کا دور‘‘ کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے زندگی کا یہ دور ساڑھے چھ کروڑ سال قبل سے لے کر زمانہ حال پر محیط ہے۔ اسی دور میں کرۂ ارض کے نقشے میں انقلابی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ اس دور میں موجودہ بر اعظم ایشیا مشرقی اور مغربی دو حصوں میں بٹا ہوا تھا اور درمیان میں ایک سمندری راستہ تھا۔ پنجاب سمیت موجودہ جنوبی ایشیا کا علاقہ مشرقی ایشیائی علاقہ میں شامل تھا جو بحر ہند میں ایک عظیم جزیرہ نما تھا آسٹریلیا بھی اسی اسی جزیرہ کا حصہ بتایا جاتا ہے۔ پھر اس دور میں ایک ایسا وقت آیا کہمشرقی ایشیائی خطہ اچانک حرکت میں آیا اور شمالی جانب بڑھنے لگا۔ آج سے تقریباً دو کروڑ سال پہلے مشرقی ایشیائی خطہ‘ مغربی ایشیائی خطے سے نہایت زور سے ٹکرایا۔ جس کے نتیجے میں یہ دونوں ٹکڑے آپس میں مل گئے۔ اور موجودہ بر اعظم ایشیا وجو میں آگیا۔ یہ ٹکرائو اتنا زور دار تھا کہ اس کے نتیجہ میں پاکستان میں کوہ ہمالیہ و کوہ قراقرم کا سلسلہ اور پنجاب میں پوٹھوہار کا بلند علاقہ معرض وجود میں آیا۔ دنیا کے بلند ترین منطقہ’’تبت‘‘ کا وجود میں آنا بھی اسی واقعہ کا نتیجہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہاں کی زمین اور پہاڑ اب بھی بلندی کی طرف مائل ہیں کیونکہ گذشتہ چند سالوں میں کوہ قراقرم تقریباً تین میل بلند ہوا ہے۔ ’’حیات نو کے دور‘‘ کو بھی ماہرین نے تین حصون میں تقسیم کیا ہے جنہیں ’’حیات نوکا ابتدائی،وسطی اورمتاخر دور ‘‘کہا جاتا ہے۔ ’’حیات نو کے دور‘‘کا تیسرا زمانہ روئے زمین پر تبدیلیوں کے لحاظ سے بڑا اہم ہے۔ اس دور میں شیر دار جانور اور پرندے دنیا کے مختلف خطوں پر پھیل چکے تھے۔ شیر دار جانور اپنی کئی ارتقائی منازل طے کر چکے تھے۔ گھوڑے، ہاتھی،سور اور مانس انسان جسے نظریہ ارتقا کے حامی ماہرین موجودہ انسان کا جد امجد تسلیم کرتے ہیں بکثرت موجود تھے۔

بعد ازاں اسی عہد میں رام مانس کا ظہور ہوا جو انسانی ارتقائی سلسلہ کی اہم کڑی ہے۔ اس دور سے متعلق جانوروں کے محجرات دنیا میں کئی مقامات سے ملے ہیں۔ پاکستان کے علاقوں میں ان محجرات کا دنیا بھر میں سب سے زیادہ وسیع ذخیرہ ضلع اٹک کے علاقوں ’’نگری‘‘ ’’ڈھوک پٹھان‘‘ اور ’’ جھنجھی‘‘ سے ملا ہے۔ ’’موجودہ انسان کا پہلا گھر کہاں تھا؟ اس بارے میں ماہرین کی مختلف آراء ہیں تاہم ان کا ایک گروہ افریقہ کو انسان کی پہلی جنم بھومی اور پہلا گھر قرار دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں ڈارٹ، بروم،رابنسن،لیکے اور میری لیکے کے نام زیادہ نمایاں ہیں۔ ان کے اس دعویٰ کی بنیاد یہ ہے کہ افریقہ میں مانس کے جو بکثرت محجرات ملے ہیں وہ قابل اعتماد حالت میں ہیں۔ لیکن ماہرین کا دوسرا گروہ اس نظریہ کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کے نذدیک افریقہ میں جنوبی مانس کے محجرات کا کثیر تعداد میں قابل اعتماد حالت میں محفوظ رہ جانا وہاں پر چونے کے عناصر کی موجودگی کی وجہ سے ہے۔ دوسرے شواہد کی بنا پر بھی وہ یہ کہتے ہیں کہ پوٹھوہار مانس افریقہ کے جنوبی مانس سے تقریباّ سوا کروڑ سال پرانی مخلوق ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر انجم رحمانی: پنجاب (تمدنی و معاشرتی جائزہ) 1998ء ،الفیصل ناشران و تاجران کتب، لاہور، ص:

77’’اگرچہ۔۔ ۔۔ ۔۔ افریقہ سے دستیاب ہونے والے قدیم انسانی آثار کے پیش نظر آج کئی ایک دانشور افریقہ ہی کو اولین انسانی گہوارہ تسلیم کرنے کی طرف مائل نظر آتے ہیں لیکن ہاورڈ یونیورسٹی (امریکا) کے پروفیسر ولیم ہاولز(William Howells) نے اس بارے میں بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کیا اس سے یہ مراد لی جا سکتی ہے کہ اولین انسان کا آبائی وطن جنوبی افریقہ ہے؟ یقینا نہیں۔ فقط بات اتنی ہے کہ جنوبی افریقہ میں اولین انسان کے آثار کا کثرت سے پایا جانا وہاں محض چونے کے پتھر کے غاروں کی موجودگی کا نتیجہ ہے۔ جہاں یہ آثار اپنی اصلی حالت میں محفوظ رہے لیکن اس امر کے شواہد موجود ہیں کہ ایشیا میں اولین بوزنہ انسان(Ape-man) اایک وسیع تر خطے میں آباد تھا۔ ہاولز جب ایشیا کو انسان کا اولین گھر تسلیم کرتا ہے تو اس سلسلہ میں پنجاب سر فہرست آتا ہے۔ ‘‘

(ڈاکٹر انجم رحمانی، پنجاب تمدنی و معاشرتی جائزہ، الفیصل ناشران کتب، لاہور،1998ء صفحہ:12)

’’اٹک کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود بنی نوع انسان کی۔ ماہرین آثاریات کے نزدیک انسان کی جنم بھومی پوٹھوہار ہے جس میں اٹک کا ضلع بھی شامل ہے۔ سرزمین اٹک صرف قدرتی حسن و جمال ہی کا شاہکار نہیں بلکہ خالق ارض و سما نے اسے اشرف المخلوقات انسان کے ارتقائی سفر کے اولین مراکز میں بے مثال اہمیت بخشی ہے۔ اس کا شمار دنیا کے ان خوش قسمت تریں خطوں میں ہوتا ہے جہاں انسان کو اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا ادراک ہوا۔ اس علاقے کی تہذیب و ثقافت کو محتاط سائنسی اور تحقیقی اندازوں کے مطابق قدیم ترین انسانی تہذیب قرار دیا جاتا ہے۔ جسے طبقات الارض کا دور ااولین کہا جاتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ بدیشی ماہرین و محققین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ اٹک اور راولپنڈی کا علاقہ ہی بنی نوع انسان کا اولین ملجاء و ماوی رہا ہے۔ ‘‘

(راجا نور محمد نظامی،تاریخ اٹک قبل از تاریخ، غیر مطبوعہ،)

’’کئی ایک مقتدر محققین کا دعوی ہے کہ حقیقی انسان سب سے پہلے پانچ دریائوں کی سرزمین(پنجاب) میں ہی ارتقا کی موجودہ منزل تک پہنچا مشہور تاریخ دان ڈاکٹر رادھا کمود مکرجی نے 1940ء میں لاہور کے مقام پر منعقد ہونے والی مجلس تاریخ کے اجلاس میں اپنے صدارتی خطبہ میں ماہر طبقات ڈاکٹر بیرل(BERRELL)کے حوالہ سے بیان کیا کہ تیسرے ارضیاتی دور (MIOCENE)کے اواخر(قریباً ڈیڑھ کروڑ سال قبل) میں انسان او ر ہمالہ ایک ساتھ اس خطہ میں نمودار ہوئے۔ ماہر بشریات مسٹر ایلیٹ سمتھ(ELLIOT SMITH) نے اس نظریہ پر صاد کیا ہے آپ نے شاہی مجلس بشریات کے ایک اجلاس میں بیان کیا کہ’’ تیسرے ارضیاتی دور میں بر صغیر کے شمالی حصے (یعنی موجودہ پنجاب) میں موجودہ انسان کے جد امجد آباد تھے۔ ‘‘ ایک فرانسیسی ماہر موسیو ہینری ولائس نے بھی بعینہٖ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ برصغیر کا شمالی حصہ ہی انسان کے اولین گہوارے کا درجہ رکھتا ہے۔ روسی ماہر بشریات پروفیسر بورس کوفسکی نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں اس نظریے کی تائید کی ہے ان کا دعوی ہے کہ اس اولین وحشی انسان کے آثار جو موجودہ انسان کے جد امجد کی حیثیت رکھتا ہے شمالی بھارت اور پاکستان میں دستیاب ہوئے ہیں ‘‘۔ ’’اصل میں جب پروفیسربورس کوفسکی شمالی بھارت اور پاکستان کو انسان کا اولین وطن کہتا ہے تو اس سے اس کی مراد براہ راست پنجاب سے ہی ہے۔ ‘‘

(عین الحق فرید کوٹی’’ پنجاب میں فن و ثقافت کے ابتدائی نقوش‘‘) ( سہ ماہی ثقافت ،اسلام آباد : جلد:1 شمارہ :2)

’’پاکستان میں۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ پتھرائے ہوئے مردہ جانوروں اور درختوں کے آثار(Fossils) پنجاب میں پوٹھوہار کے علاقے، سندھ میں روہڑی کے پہاڑی سلسلے اور بلوچستان میں کوہ کرتھار کے علاقے میں پائے گئے ہیں۔ پنجاب میں ان کے زیادہ تر ذخائر ضلع اٹک کے دیہاتوں مثلاً نگری، ڈھوک پٹھان اور جھنجھی کے علاقوں میں کھدائیوں سے ملے ہیں جھنجھی کے ذخیرے دنیا بھر میں وسیع ترین سمجھے گئے ہیں۔ یہاں سے گھوڑے، ہاتھی،ہرن، سور اور مانس انسان کے محجرات کثیر تعداد میں ملے ہیں۔ حال ہی میں ایسے محجرات کا ایک عظیم ذخیرہ پنجاب میں ضلع چکوال کے نزدیک بن امیر خاتون سے ملا ہے۔ دوسرے محجرات کے علاوہ یہاں گینڈا، مال مویشی(Bovids)اور زرافے(Giraffe)کے محجرات بھی ملے ہیں ماہرین کے نزدیک زمانی طور پر یہ محجرات آج سے سات کروڑ سال قبل سے لے کر ایک کروڑ بیس لاکھ سال قبل کے عرصے پر محیط ہیں گویا پنجاب کے خطہ میں سوا چھ کروڑ سال مسلسل حیوانی زندگی کی مختلف ارتقائی شکلوں کی ذخیرہ اندوزی ہوتی رہی۔ دنیا میں اور کسی بھی مقام سے تعداد میں اتنے زیادہ اور زمانی طور پر اتنے وسیع عرصے پر پھیلے ہوئے محجرات نہیں ملتے جتنے پنجاب کے علاقے پوٹھوہار میں ملے ہیں ‘‘

(ڈاکٹر انجم رحمانی، پنجاب تمدنی و معاشرتی جائزہ، الفیصل ناشران کتب، لاہور،1998ء صفحہ:69 )

یہ تمام صورت حال دنیا بھر میں پنجاب اور پھر پنجاب میں بالعموم علاقہ پوٹھوہار اور بالخصوص ضلع اٹک میں شامل علاقوں کی تہذیبی و تمدنی قدامت کی ترجمان ہے۔ مسٹر ویلر اپنی کتاب’’ وید کا زمانہ‘‘(VEDICAGE) میں لکھتے ہیں۔ ’’ پنجاب کی سرزمین میں اولین آبادی اٹک اور راولپنڈی کے اضلاع میں ہوئی‘‘۔ ’’کرۂ ار۔ ض کا دوکروڑ پچاس لاکھ سال سے ایک کروڑ چالیس لاکھ سال تک کا زمانہ جنگلی حیات میں انقلابی تبدیلیوں کا دور ہے اس عرصہ میں بین البر اعظمی نقل مکانی کا آغاز ہواتھا اسی زمانے میں یوریشیا کا بیشتر علاقہ جنگلات سے اٹ گیا تھا اس دور میں یوریشیا اور افریقہ کے درمیان ایک زمینی پل کے ذریعے رابطہ قائم ہو گیا تھا۔ اس پل کے ذریعے بندر اور مانس شمالی بر اعظموں کی جانب منتقل ہو گئے تھے ایسی نقل مکانی کرنے والوں میں دیو قامت مانس (Giganto Pithecus)یعنی ڈرائیو پتھے کس (Dryopithecus) بھی شامل تھا۔ یہ جانور اس زمانے میں پنجاب میں ببھی موجود تھا کیونکہ اس کا ایک ڈھانچہ پنجاب میں واقع شوالک کے پہاڑی سلسلہ سے ملا ہے۔ بعد ازاں پلبیمز نے موضع گولیال نزد کھوڑ (ضلع اٹک) سے اس بوزنہ نما انسان کی تین چار کھوپڑیاں دریافت کی تھیں۔ بندر کی اس نوع کو نظریہ ارتقا کے حامی علما کے بقول انسانی ارتقا کی تاریخ میں جد امجد کا درجہ حاصل ہے۔ یہ بوزنہ نما انسان اب تک پنجاب اور افریقہ ہی سے ملا ہے۔ پنجاب (ضلع اٹک)میں ملنے والے اس کے آثار کی عمر ایک کروڑپچاس لاکھ سال سے دو کروڑ سال تک بتائی گئی ہے اس لحاظ سے پوری دنیا میں ملنے والا اپنی نوعیت کا یہ قدیم ترین ڈھانچہ ہے۔ بعد ازاں اسی عہد میں انسانی ارتقائی سلسلہ سے متعلق نوع، رام مانس(Rama Pithecus) کا ظہور بھی ہو گیا۔۔۔ اس نوع کا پتہ یہاں سے ملنے والے ایک ڈھانچے سے چلا ہے۔ پنجاب میں بسنے والے اس جانور کو نسل انسانی کا دادا یا پرداد سمجھا جاتا ہے۔ رام انسان کا یہ ڈھانچہ ایک جبڑے پر مشتمل ہے۔ جو پلبیمز نے 1977ء میں راولپنڈی کے نواح سے ڈھونڈ نکالا تھا۔ اس کی عمر کا اندازہ ایک کروڑ چالیس لاکھ سال لگایا گیا ہے۔ کینیا، بھارت اور چین میں اس کا زمانہ شاید بعد میں آتا ہے۔ ‘‘

(ڈاکٹر انجم رحمانی، پنجاب تمدنی و معاشرتی جائزہ، الفیصل ناشران کتب، لاہور،1998ء صفحہ:70)

’’ امریکا کی پیل یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈیوڈ پلبیمز امریکی ماہرین کی ایک ٹیم کو لے کر 1975ء میں پاکستان آئے تھے اور حکومت پاکستان کے شعبہ جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے تعاون سے ضلع اٹک کے علاقے میں کھدائیاں کروائیں جن کے نتیجہ میں انھیں کھوڑ آئل فیلڈ سے نو میل کے فاصلہ پر۔۔۔ (یہ) انسانی جبڑا ملا جبکہ اس دور کے کئی دوسرے انسانی اعضاء اٹک کے مختلف دیہاتوں نگری،ڈھوک پٹھان وغیرہ کے علاقوں میں کھدائیوں سے ملے۔ ‘‘

(راجا نور محمد نظامی،تاریخ اٹک قبل از تاریخ، غیر مطبوعہ، بحوالہ تاریخ پاکستان قدیم دور صفحہ:83)

ماہرین آثاریات کی ایک کثیر تعداد اس بات پر متفق ہے کہ پاکستانی پنجاب میں پوٹھوہار کا علاقہ ہی انسان کی پہلی جنم ببھومی اور پہلا گھر ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں پورے ایشیا میں پنجاب ہی وہ خطہ ہے جہاں سوا چھ کروڑ سال پر محیط زندگی کے پتھرائے ہوئے آثار پائے گئے ہیں۔ جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہاں زندگی کروڑوں سال تک متواتر ارتقا پزیر رہی۔ ان شواہد کی روشنی میں یہی بات سامنے آتی ہے کہ ضلع اٹک اور راولپنڈی کے وہ علاقے جو وادی سوان میں شامل ہیں دنیا بھر میں انسان کا پہلا گھر ہیں۔ انہی شواہد کی روشنی میں اگر مزید ارتکاز کیا جائے تو توجہ ضلع اٹک پر مرتکز ہوتی ہے کیونکہ ضلع اٹک میں ملنے والے بوزنہ انسان کے آثار کی عمر ایک کروڑپچاس لاکھ سال سے دو کروڑ سال تک بتائی گئی ہے اس لحاظ سے پوری دنیا میں ملنے والے اپنی نوعیت کے یہ قدیم ترین آثار ہیں۔ جو ضلع اٹک کو اولین وحشی انسان کاابتدائیی گھر ثابت کرتے ہیں۔

اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل کتب اور مضامین سے استادہ کیا گیا ہے (مرتب)

ترمیم

1۔ اکبر نامہ از علامہ ابوالفضل

2۔ تاریخ ہزارہ از ڈاکٹر شیر بہادر پنی

3۔ دربار اکبری مولانا محمد حسین آزاد

4۔ مغلیہ دور حکومت

5۔ سید احمد شہید از مولانا غلام رسول مہر

6۔ شاجہان نامہ

7۔ تذکرہ رؤسائے پنجاب

8۔ تزک جہانگیری

9۔ قصۂ مشائخ از خواجہ محمد زاہد اٹکی

10تعمیر اٹک1963ئ(ضلع کونسل)

11تاریخ وادی چھچھ از سکندر خان

12تاریخ حسن ابدال منظور الحق صدیقی

13ڈسٹرکٹ گزیٹیئر اٹک 1930ء

14ڈسٹرکٹ گزیٹیئر پشاور

15ون تھائوزنڈ ایئر آف پاکستان

16اے جنرل رپورٹ آف یوسف زئی افغان

17دائرۃ المعارف اسلامیہ

18تزک بابری

19دامن اباسین از سکندر خان

20رنجیت سنگھ مصنف نریندر کرشن سہنا

21تاریخ پنجاب مصنف کنہیا لال ہندی

22تاریخ پنجاب مرتبہ کلب علی خان فائق

23تاریخ وادی چھچھ سکندر خان

24تاریخ پنجاب از سید محمد لطیف

25عمدہ التواریخ

26قلعہ اٹک، سیاحوں کی نظر میں از آغا عبد الغفور( مطبوعہ اٹک نامہ اٹک)

27ضلع اٹک پر سکھوں کا قبضہ: از نور محمد نظامی (قلمی)

28ٹیکسلا طلوع اسلام کے بعد، راجا نور محمد نظامی (قلمی)

مزید دیکھیے

ترمیم