باوا جی سلوئی
باوا جی سلوئی سلوئی ضلع چکوال کو پہچان دینے والے استاذ الحفاظ، عالم دین مدرس خطیب اور روحانی پیشوا تھے۔
باوا جی سلوئی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | غلام احمد |
پیدائش | 0 دسمبر 1888 عینو، پنجاب، پاکستان |
وفات | 11 فروری 1974 چوآسیدن شاہ، پنجاب، پاکستان |
قومیت | اعوان |
عملی زندگی | |
صنف | عالم دین استاذ |
موضوعات | اردو |
مادر علمی | ملتان |
پیشہ | مدرس عالم دین |
کارہائے نمایاں | سینکڑوں شاگرد |
متاثر | اہلسنت |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
نام
ترمیمباوا جی سلوئی کے نام سے اس قدر معروف تھے کہ اکثر لوگ ان کے نام سے واقفیت ہی نہ رکھتے ان کا نام حافظ غلام احمد گولڑوی تھا۔
ولادت
ترمیمان کی ولادت1305ھ بمطابق 1888ء موضع عینو ضلع خوشاب میں ہوئی والد کا نام میاں محمد اعوان دادا خیر محمد اور پردادا حاظ علی محمد تھا۔
تعلیم و تربیت
ترمیمدس سال کی عمر میں انھیں حفظ قرآن کے لیے حافظ نامدار صاحب کے پاس ٹھٹھہ عمر ضلع جھنگ بھیجا گیا حفظ کے بعد درس نظامی کی تکمیل کے لیے گھوٹہ ملتان گئے جہاں شیخ الجامعہ غلام محمد گھوٹوی تھے گورمانی ضلع مظفر گڑھ اور جامعہ بگویہ بھیرہ ضلع سرگودھا میں بھی اسباق کی تکمیل کی۔
بیعت
ترمیمسلوک میں ان کی بیعت پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف سے تھی بڑی عقیدت کے ساتھ مرشد کے پاس حاضری دیتے پیرو مرشد بھی ان کے پاس سلوئی تشریف لائے تھے سلوئی میں بھیجنے کا اشارہ بھی پیر مرشد نے دیا تھا۔
خدمات
ترمیمآپ نے چک نمبر 70 سرگودھااور موہن سرگودھا میں دینی خدمات سرانجام دیں اور پھر سلوئی میں دینی تعلیم کے لیے مدرسہ حفظ القرآن قائم کیا اس علاقے میں سب سے پہلا مدرسہ تھا جس نے قرآن کی تعلیم اور دینی خدمات سر انجام دیں بچوں کے ساتھ مدرسہ میں قیام اور کھانا ان کی سادگی کی علامت تھا ہر جمعہ جھلاری جاکر بچوں کے ساتھ کپڑے دھونا معمول تھا پورے گاؤں کی غمی خوشی میں شرکت ان کی اپنائیت کی پہچان تھی مڈل اسکول کو ہائی اسکول بنوانے میں آپ کا کاوش شامل تھی، سلوئی کا راستہ نہ تھا پہاڑوں کو کاٹ کر راستہ اور پھر سڑک کی تعمیر آپ کے نمایا ں کاموں کی یادگار ہے، سڑک کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے ہر اس شخص کے پاس گئے جس کا تعلق سلوئی سے تھا اور افرادی قوت مہیا کر کے پہاڑی کو کھودنا باواجی سلوئی کا بڑا کارنامہ ہے جو ان کے علاوہ کوئی اور نہ کر سکتا تھا۔ اسی طرح گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی بس چلانے میں بڑا حصہ باوا جی سلوئی کا ہے۔ سلوئی میں آپ 47 سال تک خدمات سرنجام دیتے رہے کثیر علماء و مشائخ آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں۔
وفات
ترمیموفات سے کچھ عرصہ پہلے آپ چوآسیدن شاہ ضلع چکوال تشریف لے گئے جہاں 6 محرم الحرام 1394ھ /11 فروی 1974ء میں وفات پائی اور وہیں رحمانیہ مسجد میں مدفون ہیں۔[1] [2]