بد اعتمادی
بد اعتمادی (انگریزی: Distrust) ایک رسمی طریقہ ہے جس میں کہ کسی شخص یا فریق پر اعتماد نہیں کیا جاتا ہے، بہ طور خاص جوکھم بھری یا مشتبہ صورت حال میں۔ اسے علم شہریت میں اقتدار کی تقسیم یا توازن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے یا سیاست میں کسی معاہدے کی شرائط کی توثیق کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بد اعتمادی پر مبنی نظاموں میں صاف طور پر ذمے داری تقسیم کی جاتی ہے تاکہ جانچ اور درستی کا عمل بہ روئے کار لایا جا سکے۔ بد اعتمادی سے متعلق انگریزی میں ایک مشہور محاورہ "اعتماد کرو مگر تصدیق کرو" (Trust, but verify) رائج ہے۔
سیاست میں بد اعتمادی
ترمیمبھارت میں 2019ء میں ہوئے ریاست مہاراشٹر کے انتخابات میں بی جے پی اور شیو سینا دو انتخابی حلیف جماعتوں کے طور پر کامیاب ہوئیں تھیں اور ظاہری اعتبار سے یہ لگ رہا تھا کہ سابق کی طرح یہ جماعتیں مل کر پھر سے حکومت سازی کریں گے۔ مگر تبھی سے دونوں میں ریاستی اسمبلی کی آدھی آدھی میعاد کے لیے باری باری سے دونوں جماعتوں کے وزرائے اعلٰی کا معاملہ ابھر کر آیا۔ شیو سینا کا دعوٰی تھا کہ اس بارے میں امت شاہ نے وعدہ کیا تھا۔ جب کہ بی جے پی نے اس سے صاف انکار کیا۔ اس کے نتیجے میں یہ اتحاد ٹوٹ گیا۔ پھر ادھو ٹھاکرے کی زیر قیادت شیو سینا نے نیشنلسٹ کانکریس پارٹی اور کانگریس کو حلیف بنا کر حکومت بنوائی۔ یہ باوجود اس کے ہے کہ نظریاتی طور پر شیو سینا بی جے پی ہی کی طرح ہندوتوا کی حامی ہے اور اس کے قائدین ونایک دامودر ساورکر کو ایک رہنمایانہ شخصیت تصور کرتے ہیں۔ [1]
اسی طرح سے پاکستان کے سیاسی پس منظر میں مولانا فضل الرحمٰن کی تیزی سے رنگ بدلتی سیاست جس میں وہ کبھی حکومت کے کٹر حریف تو کبھی اس کے خاموش تماشائی بنتے ہیں کئی دوسری سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو مولانا کے سیاسی ارادوں پر بد اعتمادی کی فضا پیدا کرتے آئے ہیں اور عوام میں مذہبی جماعتوں کو غیر مقبول کر چکے ہیں۔[2]