بلج بن بشر قشیری
بلج بن بشر القشیری ( عربی: بَلْج بن بِشْر القُشَیرِی) مغرب (شمالی افریقہ) اور الاندلس میں ایک اموی فوجی کمانڈر اور الاندلس کا والی تھا۔
بلج بن بشر قشیری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
وفات | 7 اگست 742ء قرطبہ |
شہریت | سلطنت امویہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | حاکم ، عسکری قائد |
درستی - ترمیم |
خاندان
ترمیمبلج کا تعلق بنو قشیر سے تھا جو بنو عامر کی ایک شاخ اور بنو ہوازن سے متعلق ایک عدنانی عربی قبیلہ تھا۔ کلثوم بن عیاض قشیری اُس کا چچا تھا جو ہشام بن عبدالملک کے دور میں افریقیہ کا گورنر تعینات تھا اور اس سے قبل دمشق ، اردن ، قنصرین ، حمص ، فلسطین اور مصر کی جنگوں میں 30 ہزار عرب فوجیوں کی کمان کر چکا تھا۔ 741ء میں جب بربروں نے شمالی افریقا میں بغاوت برپا کی تو ہشام نے کلثوم کو اُن کی سرکوبی پر مامور کیا، اس مہم میں بلج بھی اپنے چچا کے ہمراہ گھڑ سوار فوج کے ایک قائد (لیفٹیننٹ) کی حیثیت سے شریک تھا۔[1]
سلسلۂ نسب
ترمیمذیل میں بلج کا سلسلۂ نسب دِیا جا رہا ہے:
بلج بن بشر بن عیاض بن وحوح بن قیس بن الاعور بن قشیر بن کعب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ بن معاویہ بن بکر بن ہوازن بن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس عیلان بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان القشیری العامری الہوازنی۔[2]
طنجہ میں بربری بغاوت
ترمیم122ھ (741ء) میں طنجہ میں بربروں نے بغاوت کی اور مصر و افریقا کے گورنر عبید اللہ بن الحبحاب کی اطاعت کا طوق گلے سےاُتار ڈالا۔ اس بغاوت میں بربری باغی سردار میسرۃ المدغری نے طنجہ اور اس کے نواحی علاقوں کے گورنر عُمر بن عبد اللہ المرادی کو قتل کر ڈالا۔ [3] ابن الحبحاب تک جب ان واقعات کی اطلاع پہنچی تو اُس نے عقبہ بن نافع کی اولاد سے ایک قابل سالار خالد بن ابی حبیب الفہری کو بربروں کی سرکوبی پر مامور کِیا لیکن خالد فہری اس بغاوت پر قابو پانے میں ناکام رہے اور اپنے لشکر کے بڑے حصہ کے ہمراہ شہادت پائی۔[4]
اموی فوج کی افریقا آمد
ترمیماس مہم کی ناکامی پر ہشام بن عبدالملک جمادی الآخر 123ھ (مئی 741ء) میں بلج بن بشر کے چچا کلثوم بن عیاض قشیری کی قیادت میں ایک لشکر شمالی افریقا روانہ کِیا اور والیانِ صوبجات کے نام یہ فرمان بھجوایا[4] کہ وہ تیس ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک فوج تیار کر کے کلثوم قشیری کی مدد کے لیے روانہ کریں[5]۔ رمضان 123ھ (جولائی 741ء) میں کلثوم قشیری افریقا میں داخل ہوا۔[6][4]
بقدورۃ کی جنگ
ترمیماس لشکر میں بلج بھی شریک تھا، کلثوم نے گھڑ سوارں کی کمان اپنے بھتیجے کے سپرد کی اور اُسے ہراول کا سردار بنا کر روانہ کِیا۔ بلج ہراول دستے کی قیادت کرتا ہوا 741ء کے موسم گرما میں قیروان پہنچ گیا لیکن یہاں ایک نئے مسئلے نے جنم لیا، افریقیہ کے گورنر حبیب بن ابی عبیدہ الفہری نے سامانِ رسد کی فراہمی میں رُکاوٹیں ڈالنا شروع کر دیں۔[7] دراصل اس تناؤ کی وجہ یہ تھی کہ زمانۂ جاہلیت سے ہی عربوں میں قیسی و یمنی کی تفریق رہی تھی۔ بلج بن بشر اور اُس کی شامی و مصری فوجوں کا تعلق قیسی - مضری (حجازی - نجدی) عربوں سے تھا جب کہ افریقی عربی فوج کلبی - قحطانی (یمنی) گروہ سے تعلق رکھتی تھی، چُناں چہ دونوں کے مابین قدیم جاہلی تعصّب نے جنم لے لیا جس کی سراسر ذمہ داری والیٔ افریقا کے سر تھی۔ یہ تناؤ کلثوم کی قیروان آمد پر ہی ختم ہو سکا اور حالات دوبارہ معمول پر آ گئے۔ کچھ عرصہ قیام اور آرام کے بعد فوج نے کوچ کِیا اور طنجہ پہنچ گئی۔ یہاں کلثوم کا سامنا بربروں کی باغی فوج سے ہوا جس کی قیادت خالد بن حمید الزناتی کے سپرد تھی۔ وادیٔ طنجہ میں دونوں فوجوں کے مابین جنگ چھڑ گئی جسے تاریخ میں معرکۂ بقدورۃ کے نام سے شہرت حاصل ہے۔ اس جنگ میں ثعلبہ بن سلامہ بھی شریک تھا جو بلج کی وفات پر اندلس کا والی ہوا۔[8]
عربوں کی شکست
ترمیماس جنگ میں عربوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، والیٔ افریقا حبیب الفہری اور کلثوم تو دورانِ جنگ شہید ہو گئے جب کہ بلج زخمی ہو گیا۔ اس شکست کی بڑی وجہ یہ تھی کہ عربی لشکر میں مضری و یمنی تفریق کے سبب دُشمنی دِلوں میں مخفی تھی اور اِسی گروہی تفریق نے لشکرِ اِسلام کو معرکہ میں شکست سے دو چار کِیا تھا کیوں کہ وہ کھل کر ایک دُوسرے کے ساتھ تعاون نہ کر سکے تھے جس کا فائدہ بربروں نے اُٹھایا اور میدان مار لیا۔ 20 ہزار کے لگ بھگ شامی (مصری) فوج کے سپاہی گرفتار اور قتل ہوئے۔ بقیہ 10 ہزار بچ جانے والے سپاہیوں کے ہمراہ بلج نے شمال کی سمت ساحل کا رُخ کِیا جب کہ بربر عربوں کے تعاقب میں تھے۔ بلج نے بقیہ فوج کے ہمراہ سبتہ میں جا پناہ لی،[5] بربروں نے بڑھ کر سبتہ کا محاصرہ کر لیا۔
گورنر اندلس کی بے رُخی
ترمیماندلس پر تب عبد الملک بن قطن فہری گورنر تعینات تھا، جب یہ محاصرہ مسلسل جاری رہا تو بلج نے عبد الملک بن قطن فہری نے اُسے خط لکھ کر بربروں کی سرکشی اور منہ زوری کی شکایت کرتے ہوئے لکھا کہ اب ان (بربروں) جرات اس درجہ بڑھ چکی ہے کہ وہ (دورانِ محاصرہ) اُن کے بیشتر جانوروں کو کھا چکے ہیں۔[9] بلج نے اُس سے اندلس میں داخلے کے لیے محفوظ سمندری رستے کی فراہمی کی درخواست بھی کی مگر ابن قطن نے اسے نامنظور کر دِیا۔[10] وہ شامیوں کے متکبرانہ و حاکمانہ رویے سے بخوبی آگاہ تھا اور سمجھتا تھا کہ اُن کے اندلس چلے آنے کی صورت میں اندلس کے انتظامی معاملات میں اُن کی بے جا مداخلت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اس خطرے کے پیشِ نظر اُس نے بلج کی درخواست مسترد کی تھی اور سبتہ میں محصور شامیوں کی مدد کے لیے کسی قسم کا امدادی سامان روانہ کرنے سے بھی انکار کر دِیا۔
سوداگر کا قتل
ترمیمایک عربی سوداگر تک جب یہ خبر پہنچی کہ سبتہ میں عربوں کا ایک لشکر محصور ہے اور بھوک پیاس سے جاں بہ لب ہے، تو اُس نے اناج کی دو کشتیاں خفیہ طور پر سبتہ روانہ کر دیں مگر گورنر تک یہ خبر پہنچ گئی اور اُس نے کشتیاں ضبط کر کے سوداگر کو گرفتار کر لیا۔ سوداگر کا جرم ثابت ہونے پر اُسے پھانسی دے دی گئی، اس طرح بلج اور اُس کی محصور فوج کی امداد کا آخری سہارا بھی باقی نہ رہا اور وہ ہر لحاظ سے بے یار و مدد گار ہو کر رہ گئے۔[1] [11]
گورنر اندلس کی کڑی شرائط
ترمیملیکن اندلس میں جاری بربری بغاوت اور اُس پر قابو پانے کی کوششوں میں ناکامی نے ابن قطن کو مجبور کر دِیا کہ وہ بلج کو اندلس چلے آنے کی اجازت دے دے، تاہم ابن قطن نے یہ شرط عائد کی کہ بلج اور اُس کی شامی فوج اندلس میں صرف ایک سال تک قیام کر سکے گی اور اس عرصہ میں وہ اندلس میں جاری بربری بغاوت کا خاتمہ کرنے میں اندلسی فوج کی مدد کرے گی اور اس شرط پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے بلج کو مجبور کِیا گیا کہ وہ چند اہم رُتبہ کے افراد یرغمالی کے طور پر والیٔ اندلس کے پاس روانہ کرے۔[9] یہ بڑی سخت شرائط تھیں مگر بلج کو یہ تلخ گھونٹ مجبوراً پینا پڑا تھا چُناں چہ معاہدہ پر دستخط ہونے اور یرغمالیوں کی روانگی کے بعد اوائل 742ء میں شامی فوج نے جبل الطارق کو عبور کر لیا۔
اندلسی بربر باغیوں کی شکست
ترمیماندلس کے تین شہروں مدینۂ شِذُونَہ، قُرطبہ اور طُلَیطُلَہ میں باغی بربروں کی تین بڑی فوجیں موجود تھیں۔ بلج نے سب سے پہلے شِذُونَہ کا رُخ کِیا اور وہاں موجود باغی بربر فوج کو شکست دی، پھر قُرطبہ پر قابض بربروں کو بے دخل کرتے ہوئے طُلَیطُلَہ کا رُخ کِیا اور اُس کے نواحی علاقہ وادیٔ سليط میں باغی بربر فوج کو شکست سے دو چار کِیا۔[10] بربری بغاوت کے خاتمہ پر ابن قطن نے فوری مطالبہ کِیا کہ بلج شامی افواج کے ہمراہ فی الفور اندلس چھوڑ کر افریقا چلا جائے۔ بلج نے اُس سے کشتیوں کا تقاضا کِیا تا کہ وہ مراکش میں موجود بربروں کا سامنا کرنے کی زحمت سے بچ جائے اور اپنی فوج کو بحفاظت افریقا لے جا سکے[12] مگر ابن قطن نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دِیا۔
گورنر اندلس کا قتل
ترمیمجب شامی فوج نے ابن قطن کی طوطا چشمی اور بے مروّتی کا یہ عالم پایا تو اُن میں غصّے کی لہر دوڑ گئی اور اُنھوں نے ذو القعدہ 123ھ میں بغاوت کر کے اُسے معزول کر دِیا۔ اب اندلس پر بلج نے اپنی آمرانہ حکومت قائم کر لی تھی۔ ابن قطن کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور موت کے گھاٹ اُتار دِیا گیا، اُس کی لاش کو سُولی پر چڑھایا گیا تو نشانِ عبرت کی غرض سے اُس کے دائیں جانب سؤر اور بائیں جانب کُتّے کی لاش لٹکائی گئی۔[13]
وفات اور جانشین
ترمیمابن قطن کے قتل کے انتقام میں اُس کے دو بیٹوں قطن اور اُمیہ نے اندلسی عربوں کو منظم کر کے اُنھیں شامی فوج کے خلاف بغاوت پر آمادہ کِیا۔ اس طرح اندلس میں بلج اور اُس کی شامی فوج کے خلاف عام بغاوت نے جنم لیا مگر بلج نے قُرطبہ کے نواح میں 6 اگست 742ء کو اندلسی باغی فوج کو شکستِ فاش دی۔[13] اس جنگ میں بلج کو شدید نوعیت کے گہرے زخم آئے اور وہ دو دِن بعد وفات پا گیا۔ اُس کے مرتے ہی اُس کے لیفٹیننٹ ثعلبہ بن سلامہ نے اندلس کے اِقتدار پر قبضہ کر لیا۔[10] بلج کی وفات نیزے کے زخم سے شوال 124ھ میں ہوئی تھی، یہ نیزہ اُسے ناربون (فرانس) کے اندلسی مسلم گورنر عبد الرحمٰن بن علقمه لخمی نے مارا تھا۔[13][14][15]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب دی ہسٹری آف دی محمڈن ڈائناسٹیز اِن سپین (انگریزی ترجمہ)، جلد دوم، صفحہ 41
- ↑ تاریخِ دمشق (عربی)، ابنِ عساکر، جلد 10، صفحہ 395، دار الفکر، دمشق، 1415ھ
- ↑ البيان المغرب (عربی)، جلد 1، صفحہ 52
- ^ ا ب پ البيان المغرب (عربی)، جلد 1، صفحہ 54
- ^ ا ب البيان المغرب (عربی)، جلد 1، صفحہ 55
- ↑ فتوحِ مصر و المغرب (عربی)، جلد 1، صفحات 293-294
- ↑ فتوحِ مصر و المغرب (عربی)، جلد 1، صفحہ 295
- ↑ فتوحِ مصر و المغرب (عربی)، جلد 1، صفحہ 296
- ^ ا ب البيان المغرب (عربی)، جلد 2، صفحہ 30
- ^ ا ب پ البيان المغرب (عربی)، جلد 1، صفحہ 56
- ↑ History of Northern Africa (فرانسیسی)، جلد 1، جین ارنسٹ مرسیئر، صفحہ 234، 2005ء
- ↑ اخبار مجموعہ (عربی)، صفحہ 44
- ^ ا ب پ البيان المغرب (عربی)، جلد 2، ص 32
- ↑ اخبار مجموعہ (عربی)، صفحہ 46
- ↑ نفح الطيب (عربی)، جلد 3، صفحہ 22
کتابیات
ترمیمعربی
ترمیم- فتوحِ مصر و المغرب، ابن عبد الحکم، الہیئۃ العامۃ لقصور الثقافۃ، مصر (1999)
- البيان المغرب في اختصار اخبار ملوك الاندلس والمغرب، ابن عذاری، دار الثقافت، بيروت (1980)
- اخبار مجموعۃ فی فتح الاندلس، تحقیق: ابراہیم الابیاری، دار الکتاب المصری، القاہرہ (1989)
- نفح الطیب من غصن الاندلس الرطیب، ابو العباس احمد المقری، دار صادر، بیروت (1988)
انگریزی
ترمیم- The History of the Mohammedan dynasties in Spain (انگریزی ترجمہ)، المقری، جلد 2، رائل ایشیاٹک سوسائٹی، 1840-43ء
- Muslim Spain and Portugal: A Political History of al-Andalus، ہیو کینیڈی، لوگمان پبلشرز، نیو یارک / لندن، 1996ء
- Muslim Spain and Portugal: A Political History of al-Andalus، عبد الوحید طٰہٰ، روٹلیج پبلشرز، لندن، 1989ء