بیبرس دوم
رکن الدین بیبرس ایک مملوک غلام تھا جسے سلطان المظفر الجاشنکیر اور موجودہ تاریخ میں بعض مورخین بیبرس دوم بھی کہتے ہیں- یہ غلامی سے ترقی کرتا ہوا سلطان سیف الدین قلاوون کے دربار تک پہنچا۔ سلطان قلاوون خود بھی مملوک تھا اور بیبرس میں فوجی صلاحتیں بھی موجود تھیں لہذا اسے فوج میں ایک منصب داری دے دی گئی۔ سلطان قلاوون کے بعد اس کا بیٹا الاشرف صلاح الدین خلیل سلطان بنا اس نے دربار میں اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے بیبرس کو ترقی دے کر امیر مقرر کیا۔
| |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
وفات | 5 اپریل 1310ء قاہرہ |
||||||
شہریت | مصر سلطنت مملوک |
||||||
خاندان | بحری مملوک | ||||||
مناصب | |||||||
سلطان مصر | |||||||
برسر عہدہ 1308 – 1309 |
|||||||
سلطان مصر | |||||||
برسر عہدہ اپریل 1309 – 5 مارچ 1310 |
|||||||
| |||||||
دیگر معلومات | |||||||
پیشہ | سیاست دان ، حاکم | ||||||
مادری زبان | مصری عربی | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی ، مصری عربی | ||||||
درستی - ترمیم |
امیری اور نائب سلطانی
ترمیمبیبرس دوم کی خدمات سے سلطان الاشرف صلاح الدین خلیل نے بہت فائدہ اٹھایا اور صلیبیوں کو جن جنگوں میں پے در پے شکستیں دیں۔ ان میں جنگ عقبہ 1291ء بہت اہم ہے۔ عقبہ جو بیت المقدس کی شکست کے بعد صلیبیوں کا عرض مقدس میں سب سے مضبوط ٹھکانہ تھا شکست کے بعد ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ جس کے بعد انھیں پے درپے شکستیں اٹھانا پڑی۔ مشہور ہے کہ جب عقبہ کو فتح کرنے کے بعد سلطان نے ایک چھوٹا سا دستہ امیر سنجر کی قیادت میں قریبی قلعے صور بھیجا تو صلیبی جو اس پر قبضہ کیے بیٹھے تھے اتنے گھبرائے کہ مقابلہ کیے بغیر فرار ہو گئے۔ سلطان الاشرف خليل کی سازشی موت کے بعد اس کے چھوٹے بھائی الناصر ناصر الدین محمد کو سلطان بنایا گیا جو اس وقت صرف آٹھ برس کا تھا۔
سلطان الناصر ناصر الدین محمد کے دوسرے دور حکومت میں بیبرس کو مزید ترقی کا موقع ملا اور وہ سلطان کا نائب مقرر کیا گیا۔ اس دوران ایل خانی مغلوں نے ایک بار پھر شام پر حملہ کرنے کے لیے بڑھے۔ بیبرس جو اس وقت دمشق میں سلطان کی نیابت کر رہا تھا سلطان کو منگول سرگرمیوں کی خبر کردی جس پر وہ ایک بڑی فوج کے ساتھ دمشق کی حفاظت کے لیے پہنچا۔ منگول جو سپہ سالار قتلغ شاہ کی قیادت دمشق کی سرحد پر پہنچ چکے تھے کو جنگ مرج السفر 1303ء میں شکست سے دوچار کیا۔ اس جنگ میں اس نے کھل کر اپنی جنگی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور نتیجتاً نوجوان سلطان اس سے دبنے لگا۔ بیبرس نے تیزی سے امرا اور فوج کے درمیان اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کیا۔ اور ایک وقت آیا کہ سلطان الناصر ناصر الدین محمد کو مصر سے الکرک فرار ہونا پڑا۔ بیبرس تو یہی چاہتا تھا مصر کا تخت خالی ہوتے ہی اس پر قبضہ کر لیا اور 1308ء میں اپنے سلطان ہونے کا اعلان کر دیا۔
سلطان مصر اور انتقال
ترمیمسلطان بنتے ہی اس نے الملك المظفر ركن الدين بيبرس الجاشنكير المنصوری کا لقب اختیار کیا۔ وہ بارھواں مملوک سلطان بنا۔ اس کا مختصر دور تقریباً 11 ماہ زیادہ تر معاشی اور جنگی افراتفری کا شکار رہا- ملک میں غربت بڑھی بے امنی میں اضافہ ہوا اور عوام چند ماہ میں ہی اس سے نفرت کرنے لگے۔ اس نے ان مسائل کا کوئی تدراک نہیں کیا بلکہ عوام پر سختی شروع کی جس کا نتیجہ مزید خراب نکلا۔ اس کے دور میں امرا اور فوجی بھی راشی بن گئے تھے۔ بیبرس نے ان پر بھی سختی کی مگر سوائے اپنی اہمیت کم کروانے کے اور کچھ نہیں کرسکا۔ وہ ایک بے صلاحیت حکمران تھا اور اسی کو دیکتھے ہوئے صلیبی مصر پر حملہ آور ہونے کے لیے ایک بار پھر پر تولنے لگے۔ دوسری طرف اسے منگول دانت دکھانے لگے۔ بیبرس کو آخر کچھ نہ سوجھی اور ایک شب قاہرہ سے فرار ہونے کی کوشش میں پکڑا گیا۔ اس وقت عوام اس کی صورت سے بھی بے زار ہو چکے تھے معزول سلطان الناصر محمود کا نام اب دوبارہ ہر شہری کی زبان پر سنائی دینے لگا۔ سلطان الناصر ناصر الدین محمد نے بڑی شان سے آ کر تیسری مرتبہ تخت سنبھالا۔ بیبرس کو اس کے سامنے پیش کیا گیا اس نے رحم کی درخواست کی مگر سلطان نے اسے موت کی سزا دی۔