ترکیہ میں ناکام فوجی بغاوت، 2016ء

ذرائع ابلاغ کے مطابق 15 جولائی کی شب ترکی فوج کے کچھ باغی دستوں کی سرپرستی میں فوج کے ایک چھوٹے دستے نے رجب طیب اردوغان کی حکومت کا تختہ پلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ ابتدا میں باغی فوجی دستے کی جانب سے کہا گیا کہ ہماری کارروائی کا مقصد ملک میں آئینی و جمہوری انسانی حقوق کی بحالی ہے اور جمہوری قدروں کو استحکام بخشنے کے لیے ہم اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس جزوی بغاوت میں کرنل درجے کے افسران شامل تھے۔ اس گروہ نے استنبول کے فوجی مرکز میں کئی رہنماؤں کو یرغمال بنالیا تھا۔ ترک فوج کے سربراہ جنرل خلوصی آکار سمیت دیگر جرنیلوں کو یرغمال بنایا گیا تھا تاہم ترک حکومت کی حامی فوج نے اس وقت کارروائی کرتے ہوئے باغی فوجیوں کو پیچھے دھکیلا اور یرغمالیوں کو چھڑا لیا۔

2016ء ترکی فوجی بغاوت کی کوشش
ترکیہ میں ناکام فوجی بغاوت، 2016ء is located in ترکی
انقرہ
انقرہ
استنبول
استنبول
ترکیہ میں ناکام فوجی بغاوت، 2016ء (ترکی)
تاریخ15 جولائی 2016ء (2016ء-07-15) – تاحال
مقامانقرہ اور استنبول
حیثیت

جاری

قابلِ ذکر پیش رفت

مُحارِب

ترکیہ کا پرچم ترکش مجلس امن

ترکیہ کا پرچم حکومت ترکی

کمان دار اور رہنما
Unclear[6] رجب طیب اردوغان
بن علی یلدرم
Hulusi Akar
Gen. Umit Dundar (First Army commander)[1]
ہلاکتیں اور نقصانات
1 Sikorsky ہیلی کاپٹر مار گرایا (این ٹی وی)[1]
1 جنرل ہلاک (حکومت کا دعویٰ)[7]
80 فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔[7][8]
754 گرفتار[9]
17 پولیس اہلکار ہلاک (انادولو ایجنسی)[10]
کم از کم 42 شہری ہلاک اور انقرہ میں کئی زخمی[5][11]
کم از کم 6 افراد ہلاک اور 150 استنبول میں زخمی۔کل
60 افراد ہلاک۔[5]

ابتدا میں ایوان صدر اور پارلیمان کا محاصرہ بھی کیا گیا، اتاترک ایئرپورٹ پر تمام پروازیں منسوخ کردی گئیں اور ایئرپورٹ کو بند کر دیا گیا تھا، ملک بھر کے ہوائے اڈے بند کرکے ان پر ٹینک پہنچادیئے گئے تھے۔ اس وقت عوام سے ترک صدر نے سڑکوں پر نکلنے کی اپیل کی جس کے بعد بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ لوگوں نے ٹینکوں پر چڑھ کر ان ٹینکوں کو ایئرپورٹ اور دیگر مقامات میں داخل ہونے سے روکا۔

اس کشیدہ صورت حال میں لوگ گھروں سے نکلے۔ عام لوگوں پر فائرنگ کے واقعات بھی سامنے آئے جن میں متعدد شہری مارے گئے۔ بمطابق 16 جولائی 194 افراد مجموعی طو ر پر اس پوری صورت حال میں ہلاک ہوئے جن میں سے 94 سے زائد باغی فوجی ٹولے سے تعلق رکھنے والے جبکہ باقی عام شہری اور پولیس تھے۔ ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے 16 جون کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بغاوت کو مکمل طور پر کچل دیا گیا ہے اور صورت حال پر اب جمہوری حکومت کو مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ اس واقعے کے بعد 25 کرنل اور 5 جنرلز کو بھی عہدوں سے فارغ کر دیے گئے۔

رد عمل

ترمیم

قومی سطح پر

ترمیم

جیسے ہی ترک صدر کو علم ہوا تو انھوں نے کہا کہ

اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنادیں گے۔ اس نوعیت کا قدم اٹھانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، اور ملک میں کشیدہ صورتحال پر جلد قابو پالیا جائے گا۔ باغی فوجی ٹولہ جلا وطن رہنما فتح اللہ گولن کے حامی ہیں جو امریکا میں مقیم ہیں۔

ترکی کے تمام حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔

بین الاقوامی

ترمیم

مختلف ممالک سے اس کارروائی پر رد عمل آیا اور اس کی مذمت کی گئی۔

تجزیہ

ترمیم

ناکامی کے اسباب

ترمیم

ترکی میں صدر اردوغان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ترک عوام نے ناکام بنا کر سب کو حیران کر دیا۔ ناکام فوجی بغاوت کے حوالے سے سوشل اور مین اسٹریم میڈیا پر بحث شروع ہو گئی۔ اس حوالے سے جتنے منہ اتنی باتیں سامنے آتی رہی۔ اس بات پر بحث ہونے لگی کہ اگر پاکستان میں ایسی کوشش ہوتی ہے تو عوامی رد عمل کیا ہوگا۔ حالانکہ پاکستان سے موازنہ کرنے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آخر وہ کیاوجوہات تھیں جنھوں نے ترک عوام کو رات کے اندھیرے میں سڑکوں پر آکر فوجی بغاوت کو کچلنے پر آمادہ کیا۔ آئیے زرا چند نکات میں ان وجوہات پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سینئر صحافی عارف الحق عارف صاحب نے فیس بک پر اپنے ایک اسٹیٹس میں ترکی میں فوجی بغاوت ناکام ہونے کی وجوہات کا زکر کیا۔ چند وجوہات پر غور کر لیا جائے تو اندازہ ہو جائے گا کہ ترک قوم اپنے لیڈر کے لیے دیوانہ وار باغیوں کے ٹینکوں سے سامنے دیوار کیوں بن گئے تھے۔ ترکی میں جب طیب اردوغان نے حکومت سنبھالی تو 2002سے 2012 کے درمیان میں ترکی کے جی ڈی پی میں 64فیصد اضافہ ہواانفرادی سطح پر اقتصادی ترقی کی شرح میں 43فیصد اضافہ ہوا۔ اس ترقی نے نہ صرف ترک عوام بلکہ عالمی سطح پر اردوغان کی پسندیدگی میں اضافہ کیا۔ اردوغان کے 2002 میں اقتدار سنبھالتے وقت ترکی کو بھی آئی ایم ایف نے اپنے پنجوں میں جکڑا ہوا تھا اور ترکی 5۔23 بلین ڈالر کا مقروض تھا۔ اردوغان نے حکومت سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف کی سازشوں میں نہ آنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مزید قرضہ لینے سے انکار کرددیا اور پرانا قرضہ ادا کرنا شروع کر دیا۔ 2012میں یہ قرضہ صرف 9۔0بلین ڈالر رہ گیا تھا۔ جس کی ادائیگی کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے ترکی کے قرضہ ادا کردینے کا اعلان کر دیا گیا۔ اور اسی سال طیب اردوغان نے اعلان کیا کہ اگر آئی ایم ایف کو قرضہ درکار ہو تو وہ ترکی سے رجوع کر سکتا ہے۔ 2002 میں ترکش سینٹرل بینک کے پاس زر مبادلہ کے زخائر 5۔26ملین ڈالر تھے جو 2011میں بڑھ کر 2۔92بلین ڈالر ہو چکے تھے اور ان میں کامیاب اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اسی طرح ترکی میں طیب اردوغان کے حکومت سنبھالنے کے بعد صرف ایک سال میں ہی مہنگائی میں 23 فیصد کمی ہوئی جس سے ترک عوام کو براہ راست فائدہ ہوا۔ اسی طرح 2002 میں ترکی میں ہوائی اڈوں کی تعداد میں 26 تھی جو اب بڑھ کر 50 ہو چکی ہے۔ 2002سے 2011کے درمیان میں ترکی میں 13500کلومیٹر طویل ایکسپریس وے تعمیر کی گئی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایکسپریس وے کی تعمیر کے ٹھیکے اپنے رشتہ داروں یا پارٹی رہنماؤں کو دینے کی بجائے کے میرٹ پر بین الاقوامی سطح پر اچھی شہرت کے حامل اداروں کو دئے گئے۔ ترکی کی تاریخ میں پہلی بار تیز ترین ریلوے ٹریک بچھایا گیا اور 2009 میں تیز ترین ٹرین ترکی میں متعارف کرائی گئی۔ عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے ان 8 سالوں کے دوران میں تیز رفتار ٹرین کے لیے1076کلومیٹر ریلوے ٹریک بچھایا گیا جبکہ 5449کلومیٹر طویل ٹریک کی مرمت کرکے اسے تیز ترین ٹرین کے معیار کے مطابق بنایا گیا۔ اردوغان نے عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے شعبہ صحت میں بڑے پیمانے پر کام کیا۔ گرین کارڈ پروگرام متعارف کرایا گیا جس کے تحت غریب افراد کو صحت کی مفت سہولیات فراہمی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ صحت کی طرح تعلیم کے شعبہ پر بھی خصوصی توجہ دی گئی اور تعلیم کا بجٹ2002میں 5۔7بلین لیرا سے بڑھا نا شروع کیا اور 2011میں تعلیمی بجٹ 34 بلین لیرا تک پہنچا دیا۔ قومی بجٹ کا بڑا حصہ وزارت تعلیم کو دیا گیا اور قومی جامعات کا بجٹ ڈبل کر دیا گیا۔ اسی طرح 2002 میں ترکی میں جامعات کی تعداد 86 تھیں۔ اردوغان حکومت نے ملک میں جامعات کا جال بچھایا اور 2012 تک ترکی میں 186معیارت جامعات تدریس کا عمل جاری رکھے ہوئے تھیں۔ ترکی معیشت کا اندازہ صرف اس نقطہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 1996میں ایک ڈالر، 222لیرا تھا جبکہ اردوغان حکومت کی کامیاب اقتصادی پالیسیوں کے بعد آج ایک ڈالر 94۔2 لیرا کا ہے۔ ۔[12]

پس منظر

ترمیم

جب 1923ء میں جدید ترکی ریاست قائم ہوا، اس کے بعد فوج نے تین مرتبہ اقتدار پر قبضہ کیا، یعنی 1960ء،1971ء اور 1980ء میں۔ تاہم 2016ء کی اس کوشش کی پیچھے فوج کا موقف ہے کہ ملکی سرحدات کی حفاظت کے لیے ایسے اقدامات کر رہی ہے۔ مئی 2016ء میں ترکی وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو کو ہٹایا گیا تھا اس وجہ سے کہ ان کے ترکی صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ اختلافات تھے۔ اسی طرح کردستان ورکرز پارٹی کے باغیوں کے ساتھ بھی حکومت کے تنازعات تھے۔ یوں پورے ملک میں سیاسی طور پر بہت سے تنازعات تھے۔

فوجی تاخت کی کوشش سے چند دن قبل طیب اردگان نے ایک بل منظور کرایا تھا جس میں فوجی اختیارات اندرونی سیکیورٹی معاملات میں کم کرائے گئے۔ اس بل کے مطابق فوجی کمانڈروں کے خلاف بھی کیس کرائے جا سکتے ہیں صدر کی منظور کے بعد اور نچلے سطح کے سپاہیوں پر بھی مقدمات چلائے جا سکتے ہیں۔

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ "The Latest: Parliament speaker says lawmakers safe"۔ Associated Press۔ 15 جولائی 2016۔ 10 اپریل 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2016 
  2. "Ankara parliament building 'bombed from air' – state agency"۔ RT۔ 15 جولائی 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016 
  3. "FOX HABER on Twitter"۔ twitter.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016 
  4. "Ömer Çelik on Twitter"۔ twitter.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016 
  5. ^ ا ب پ "Shootout with mass casualties reported in central Ankara, over 150 injured in Istanbul"۔ rt.com۔ Russia Today۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2016 
  6. Tumult in Turkey: What We Know and What We Don't Know، نیو یارک ٹائمز (15 جولائی 2016)۔
  7. ^ ا ب
  8. Tens of Turkish soldiers in attempted coup surrender to police: Reuters witness، Reuters (15 جولائی 2016)۔
  9. Turkish president wants U.S. to send rival cleric home - CNN
  10. "Gölbaşı Savcılığı: Ankara'da 42 kişi öldü"۔ sol.org.tr۔ 16 جولائی 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2016 
  11. Dunya News: دنیا:-ترکی: فوجی بغاوت کے بعد