غزوہ خندق

مشرکینِ مکہ اور مسلمانوں کے درمیان جنگ جسمیں مسلمانوں نے مدینہ کے ارد گرد خندق کھود لے
(جنگِ خندق سے رجوع مکرر)

شوال۔ ذی القعدہ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔

غزوہ خندق
سلسلہ مسلمانقریش کی جنگیں
تاریخشوال– ذو القعدہ، ہجری سال 5 (قدیم (لوند) عربی تقویم)[1] (پیر، 29 دسمبر عیسوی 626 – ہفتہ، 24 جنوری عیسوی 627 (5 شوال–1 ذو القعدہ)۔
مقاممدینہ کے گرد گھیر
نتیجہ فیصلہ کن مسلم فتح۔
اتحادی قبائل کی واپسی۔
مُحارِب

مسلمان بشمول

غزوہ خندق بشمول

کمان دار اور رہنما
محمد بن عبد اللہ
علی ابن ابی طالب
سلمان فارسی
عبادہ بن صامت[2]
ابو سفیان بن حرب
عمرو ابن عبد ود  
طلیحہ بن خویلد اسدی
طاقت
3,000[3] 10,000[3]
ہلاکتیں اور نقصانات

1~5 لوگ (ممکنہ 4)

معمولی[4]

10 لوگ

بھاری[4]

پس منظر

 
غزوہ خندق کے مقام پر مسجد فتح (اوپر) اور مسجد سلمان فارسی (نیچے)

جنگ احد کے بعد قریش، یہودی اور عرب کے دیگر بت پرست قبائل کے درمیان میں طے پایا کہ مل جل کر اسلام کو ختم کیا جائے۔ اس سلسلے میں پہلا معاہدہ قریش کے سردار ابوسفیان اور مدینہ سے نکالے جانے والے یہودی قبیلہ بنی نضیر کے درمیان میں ہوا۔ اس کے بعد بنی نضیر کے نمائندے نجد روانہ ہوئے اور وہاں کے مشرک قبائل 'غطفان' اور 'بنی سلیم' کو ایک سال تک خیبر کا محصول دے کر مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا۔[5] اسلام کے خلاف اس اتحاد کو قرآن نے احزاب کا نام دیا ہے۔ ان میں ابوسفیان کی قیادت میں 4000 پیدل فوجی، 300 گھڑ سوار اور 1500 کے قریب شتر سوار (اونٹوں پر سوار) شامل تھے۔ دوسری بڑی طاقت قبیلہ غطفان کی تھی جس کے 1000 سوار انینہ کی قیادت میں تھے۔ اس کے علاوہ بنی مرہ کے 400، بنی شجاع کے 700 اور کچھ دیگر قبائل کے افراد شامل تھے۔ مجموعی طور پر تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی جو اس زمانے میں اس علاقے کے لحاظ سے ایک انتہائی بڑی فوجی طاقت تھی۔ یہ فوج تیار ہو کر ابو سفیان کی قیادت میں فروری یا مارچ 627ء میں مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے مدینہ روانہ ہو گئی۔[6][7]
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس سازش کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب سے مشورہ کیا۔ سلمان فارسی نے ایک دفاعی خندق کھودنے کا مشورہ دیا جو عربوں کے لیے ایک نئی بات تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ مشورہ پسند آیا چنانچہ خندق کی تعمیر شروع ہو گئی۔ مدینہ کے اردگرد پہاڑ تھے اور گھر ایک دوسرے سے متصل تھے جو ایک قدرتی دفاعی فصیل کا کام کرتے تھے۔ ایک جگہ کوہِ عبید ہ اور کوہ راتج کے درمیان میں سے حملہ ہو سکتا تھا اس لیے وہاں خندق کھودنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کی کھدائی میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سمیت سب لوگ شریک ہوئے۔ اس دوران میں سلمان فارسی نہایت جوش و خروش سے کام کرتے رہے اور اس وجہ سے انصار کہنے لگے کہ سلمان ہم میں سے ہیں اور مہاجرین کہنے لگے کہ سلمان ہم میں سے ہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ 'سلمان میرے اہلِ بیت سے ہیں'۔ کھدائی کے دوران میں سلمان فارسی کے سامنے ایک بڑا سفید پتھر آ گیا جو ان سے اور دوسرے ساتھیوں سے نہ ٹوٹا۔ آخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود تشریف لائے اور کلہاڑی کی ضرب لگائی۔ ایک بجلی سی چمکی اور پتھر کا ایک ٹکرا ٹوٹ کر الگ ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تکبیر بلند کی۔ دوسری اور تیسری ضرب پر بھی ایسا ہی ہوا۔ سلمان فارسی نے سوال کیا کہ ہر دفعہ بجلی سی چمکنے کے بعد آپ تکبیر کیوں بلند کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا کہ جب پہلی دفعہ بجلی چمکی تو میں نے یمن اور صنعاء کے محلوں کو کھلتے دیکھا۔ دوسری مرتبہ بجلی چمکنے پر میں نے شام و مغرب کے کاخہائے سرخ کو فتح ہوتے دیکھا اور جب تیسری بار بجلی چمکی تو میں نے دیکھا کہ کاخہائے کسریٰ میری امت کے ہاتھوں مسخر ہو جائیں گے'۔ ۔[8] بیس دن میں خندق مکمل ہو گئی۔ جو تقریباً پانچ کلومیٹر لمبی تھی، پانچ ہاتھ (تقریباً سوا دو سے ڈھائی میٹر) گہری تھی اور اتنی چوڑی تھی کہ ایک گھڑ سوار جست لگا کر بھی پار نہ کر سکتا تھا۔[9] مسلمانوں کی تعداد 3000 کے قریب تھی جو پندرہ سال سے بڑے تھے اور جنگ میں حصہ لے سکتے تھے۔[6]

جنگ

 
غزوہ خندق کا مقام

اندرونی محاذ

خندق کھدنے کے تین روز بعد دشمن کی فوج مدینہ پہنچ گئی اور خندق دیکھ کر مجبوراً رک گئی۔ ان کی عظیم فوج اس خندق کی وجہ سے ناکارہ ہو کر رہ گئی۔ کئی دن تک ان کے سپاہی خندق کو پار کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

بیرونی محاذ: ایمان کفر کے مقابلے پر

کچھ دن کے بعد عمرو ابن عبد ود کی قیادت میں پانچ سواروں(عمرو بن عبد ود، عکرمہ بن ابو جہل، ضرار بن الخطاب، نوفل بن عبد اللہ اور ابن ابی وھب) نے خندق کو ایک کم چوڑی جگہ سے پار کر لیا۔ عمرو بن عبد ود عرب کا مشہور سورما تھا اور اس کی دہشت سے لوگ کانپتے تھے۔ اس نے سپاہ اسلام کو للکار کر جنت کا مذاق بناتے ہوئے کہا کہ 'اے جنت کے دعویدارو کہاں ہو؟ کیا کوئی ہے جسے میں جنت کو روانہ کر دوں یا وہ مجھے دوزخ میں بھیج دے' اور اپنی بات کی تکرار کرتا رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ 'کوئی ہے جو اس کے شر کو ہمارے سروں سے دور کرے؟'۔ علی نے آمادگی ظاہر کی۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو اجازت نہ دی اور دوسری اور پھر تیسری دفعہ پوچھا۔ تینوں دفعہ علی ہی تیار ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں اپنا عمامہ اور تلوار عطا کی اور فرمایا کہ ' کل ایمان کل کفر کے مقابلے پر جا رہا ہے'۔ ایک سخت جنگ جس کے دوران میں گردو غبار چھا گیا تھا نعرہ تکبیر کی آواز آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ 'خدا کی قسم علی نے اسے قتل کر دیا ہے'۔ عمرو بن عبد ود کے قتل کی دہشت اتنی تھی کہ اس کے باقی ساتھی فوراً فرار ہونے لگے۔ نوفل بن عبد اللہ فرار ہوتے وقت خندق میں گر گیا جسے نیچے اتر کر علی نے قتل کر دیا۔ باقی فرار ہو گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ' روزِ خندق علی کی ضرب تمام جن و انس کی عبادت سے افضل ہے' ۔[10]

احزاب میں پھوٹ

جب محاصرہ طول پکڑ گیا تو بنی قُریظہ، قریش، غطفان اور دوسرے قبائل میں اختلافات نمودار ہونا شروع ہو گئے اور بددلی پھیل گئی۔ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی پیدا ہو گئی اور ایسے لوگ سامنے آنے لگے جو جنگ جاری رکھنے کے حامی نہیں تھے۔ ان اختلافات نے انھیں آپس ہی میں مصروف رکھا یہاں تک کہ خدائی مدد آ گئی۔

خدائی مدد

ایک رات شدید اور سرد آندھی چلی جس نے مشرکین کے خیموں کو اکھاڑ پھینکا اور ان کی روشنیاں بجھا دیں۔ شدید گردو غبار سے فضا تاریک ہو گئی۔۔[11] مشرکین نے فرار ہونے کو ترجیح دی اور مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ 22 ذی القعدہ بدھ کے دن تک لشکرِ کفار میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا اور شدید مالی و جانی نقصان کے بعد ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اجازت دے دی کہ مسلمان محاذ کو چھوڑ کر اپنے گھروں کو چل دیں۔[12]

نتائج

اس جنگ میں مسلمانوں کے چھ افراد شہید ہوئے۔ مشرکین کے آٹھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ مالی نقصان بہت شدید تھا۔ یہ مسلمانوں کی شاندار فتح تھی جس میں خندق کھودنے کی تدبیر بڑی کام آئی۔ مشرکین بہت دیر تک اس جنگ کے اثرات سے سنبھل نہ سکے۔ اس جنگ کے بارے میں سورۃ احزاب میں آیات 9 سے 25 نازل ہوئیں۔

پیش منظر

اس جنگ سے ایک بات واضح ہو گئی کہ یہودیوں پر اعتماد ٹھیک نہیں۔ یہودی قبیلہ بنی قریظہ کی عہد شکنی نے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دیں۔ چنانچہ اس کے بعد مسلمانوں نے بنی قریظہ کو سبق سکھانے کی ٹھانی اور غزوہ خندق کے فوراً بعد خدائی احکام کے تحت ان کے ساتھ جنگ کی جسے غزوہ بنی قریظہ کہتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. Moshe Gil (1997-02-27)۔ Ibn Sa'd, 1(1)، 147 VII(2)، 113f, Baladhuri, Tarikh Tabari, 1 2960, Muqaddasi, Muthir, 25f; Ibn Hisham, 311۔ Cambridge University press۔ صفحہ: 119۔ ISBN 0-521-59984-9۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جنوری 2020 
  2. ^ ا ب
  3. ^ ا ب
  4. تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 566
  5. ^ ا ب السیرۃ النبویۃ از ابن ہشام صفحہ 234
  6. السیرۃ الحلبیہ
  7. تاریخ طبری جلد 2صفحہ 569
  8. تاریخ یعقوبی جلد 2 صفحہ 50
  9. مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 32
  10. تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 578
  11. ابن ھشام جلد 3 صفحہ242