جے این دیکشت
بھارتی سفارت کار اور مشیر۔ پورا نام جیتیندر ناتھ منی دیکشت تھا۔ دیکشت ہندوستان کی جنوبی ریاست کیرالا میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں وہ گاندھیائی نظریات اور ادب کے زیر سایہ وہ پروان چڑھے۔ پنڈت نہرو کی حکومت میں انھیں دفتر خارجہ کے دفتر میں کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ نہرو کے نظریات اور ان کی پالیسیوں سے کا فی متاثر تھے۔ لیکن ہندوستان کی جدید خارجہ پالیسی کا انھیں معمار کاجاسکتا ہے۔
جے این دیکشت | |
---|---|
مناصب | |
بھارتی خارجہ سیکرٹری (18 ) | |
برسر عہدہ 1 دسمبر 1991 – 31 جنوری 1994 |
|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 8 جنوری 1936ء [1] چنئی |
وفات | 3 جنوری 2005ء (69 سال)[1] نئی دہلی |
وجہ وفات | دورۂ قلب |
طرز وفات | طبعی موت |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | دہلی یونیورسٹی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی |
پیشہ | صحافی ، سفارت کار ، سیاست دان |
شعبۂ عمل | بین الاقوامی تعلقات |
اعزازات | |
درستی - ترمیم |
جے این دیکشت ایک اچھے کالم نگار تھے اور مختلف امور پر تاحیات ان کا قلم چلتا رہا خارجی امور کے متعلق انھیں کافی مہارت تھی۔ خاص طور پر پاکستان اور امریکا کے ساتھ ان کی حکمت عملی کو ان کے مخالفین نے بھی سراہا تھا۔
انھیں اندرا گاندھی کے ساتھ بہت قریب سے کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ بنگلہ دیش کی آزادی میں حکمت عملی تیار کرنے میں وہ پیش پیش تھے اور جنگ کے خاتمے کے فوراً بعد وہ بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر مقرر کیے گئے تھے ۔
ہندوستان نے جب 1987 میں ایل ٹی ٹی ای کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت سری لنکا میں اپنی امن فوج بھیجی تھی تو اس وقت مسٹر دیکشت سری لنکا میں ہندوستان کے ہائی کمشنر تھے۔ اور وہاں کے لیڈروں کے ساتھ ان کے بڑے گہرے تعلقات تھے۔ بھارت نے بغیر کسی عالمی ادارے کی منظوری کے پہلی بار ملک کے باہر (سری لنکا کو) اپنی فوج بھیجی تھی۔ تامل باغیوں سے لڑائی میں سینکڑوں فوجی ہلاک ہلاک ہوئے اور اس کے لیے راجیو گاندھی حکومت پر بھی شدید نکتہ چینی ہوئی تھی۔
انھیں افغانستان میں بھی اس وقت ہندوستان کا پہلا سفیر بنایا گیا تھا جب مجاہدین اور روسی افواج کے درمیان میں کابل میں گھمسان کی لڑائی جاری تھی ۔
اسلام آباد میں بھی انھوں نے ہائی کمیشنر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں تھیں۔ اسی زمانے میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں تشدد اور دہشت گردی عروج پر تھی او ر کچھ فیصلوں کے لیے مسٹر دیکشت پر شدید نکتہ چینی بھی ہوئی تھی۔
نرسماراؤ کی حکومت میں مسٹر دیکشت خارجہ سیکریٹری تھے۔ اسی زمانے میں بابری مسجد کی مسماری کے بعد 1993 میں ممبئی میں زبردست بم دھماکے ہوئے۔ وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے صلاح و مشورے سے انھوں نے اسرائیل کا تاریخی دورہ کیا۔ اس دورے کے بعد ہندوستان نے تقریباً 45 برس بعد تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ آج اسرائیل ہندوستان کو ہتھیار دینے والا روس کے بعد دنیا کاسب سے بڑا ملک ہے۔
مسٹر دیکشت کو من موہن حکومت میں یو پی اے یعنی متحدہ ترقی پسند محاذ حکومت نے برجیش مشرا کی جگہ سلامتی کا مشیر مقرر کیا۔ حکومت میں ان کا عہدہ بطور وزیر مملکت کے رہا۔ اس طرح انھوں نے اس دور میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان میں تعلقات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے دہلی میں انتقال ہوا۔
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/J-N-Dixit — بنام: J N Dixit — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017