دانیال

اللہ کے ایک برگزیدہ نبی
(حضرت دانیال سے رجوع مکرر)

بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ایک پیغمبر۔ عنفوان شباب میں جنگی قیدی کی حیثیت سے بابل گئے۔ جہاں آپ کو شاہی خدمات پر مامور کیا گیا۔ فقید المثال ذہانت و قابلیت کی بنا پر رفتہ رفتہ بلند ترین مناصب پر پہنچے۔ بادشاہ بیلشضر کے دور میں دیوار پر جو پیشن گوئی نوشتۂ دیوار لکھی گئی تھی، اس کا ترجمہ آپ نے کیا اور بتایا کہ اس کی حکومت تباہ و برباد ہو جائے گی۔ آپ کی کامیابی سے بعض درباری حسد کرنے لگے اور انھوں نے بادشاہ وقت کو آپ سے بدظن کرکے آپ کو تبدیلی مذہب کا حکم دلوایا۔ حضرت دانیال نے انکار کر کیا۔ تو آپ کو شیروں کے پنجروں میں پھینک دیا گیا۔ مگر خدا کی قدرت سے شیروں نے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ آپ فارس کے بادشاہ سائرس اعظم کے ہم عصر تھے۔

دانیال کا مقبرہ

دانیال کی دوبارہ تدفین

ترمیم

البدایہ والنہایہ میں ابن کثیر نے لکھا ہے کہ خالد بن دينار تميمی سے راویت ہے کہ ابو العالیہ نے فرمایا: ”جب ہم نے شہر تستر فتح کیا تو ہم نے ہرمزان(گورنر) کے بیت المقدس کے قریب دیکھا کہ ایک چار پائی رکھی ہوئی ہے اس پر میت رکھی ہوئی تھی اور اس کے سرہانے کے پاس ایک مصحف رکھا ہوا تھا ہم نے وہ مصحف عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے کعب بن زید کو بلوایا۔ تو انھوں نے اس کو عبرانی سے عربی میں منتقل کیا۔ پس عرب میں سے میں نے سب سے پہلے اسے پڑھا۔ میں نے اس کو قرآن کی طرح پڑھا“۔ راوی خالد بن دينار تميمی کہتے ہیں کہ میں نے ابو العالیہ سے پوچھا کہ ”اس میں کیا تھا“ تو انھوں نے کہا ”اس میں تمھارے تمام معاملات، حالات تمھارے کلام (قرآن) کے لہجے اور آئندہ پیش آنے والے حالات اور واقعات تھے۔ خالد بن دينار تميمی نے پوچھا ”آپ نے اس آدمی کے ساتھ کیا کِیا؟“ ابو العالیہ نے جواب دیا ”ہم نے دن کے وقت ”تیرہ“ قبریں الگ الگ کھودیں۔ جب رات ہوئی تو اس کو ہم نے دفن کر دیا۔ اور ان کی قبروں کو برابر کر دیا تاکہ ہم اس کی قبر پوشیدہ رکھ سکیں۔ اور لوگ قبر کھودنے کی کوشش نہ کریں۔ خالد بن دينار تميمی نے پوچھا ”وہ ان سے کیا امید رکھتے تھے“ ابو العالیہ نے کہا ”اگر آسمان ان سے بارش روک لیتا تو وہ اس کی چارپائی سامنے لاتے تو ان بارش برسادی جاتی“ خالد بن دينار تميمی نے پوچھا ” تمھارا ان اس آدمی کے متعلق کیا خیال یے؟“ ابو العالیہ نے کہا ” ان کو دانیال کہا جاتا ہے۔ خالد بن دينار تميمی نے پوچھا ”وہ کب کے فوت ہوئے تھے؟“ ابو العالیہ نے کہا ”(میرے اندازے کے مطابق) تین سو سال“ خالد بن دينار تميمی نے پوچھا ”ان کے جسم کا کوئی حصہ تبدیل ہوا تھا؟“ انھوں نے کہا ” گُدی پر کچھ بال تبدیل ہو گئے کیونکہ زمین انبیا علیہم السلام کے جسم مبارک کو نہیں کھاتی اور ان کے جسموں کو بوسیدہ نہیں کرتی۔ اور درندے بھی ان کو نہیں کھاتے۔[1][2]

تابوت کے ساتھ سے ملنے والی اشیاء

ترمیم

ابن ابی الدنیا نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ ”ابو موسیٰ اشعری نے تابوت کے ساتھ مصحف اور ایک مٹکا بھی پایا۔ جس میں چربی، دراہم اور ایک انگوٹھی تھی ابو موسیٰ اشعری نے امیر المؤمنین عمر بن خطاب کو ان اشیاء کے بارے میں تفصیلی خط لکھا۔ امیر المؤمنین نے جواب میں تحریر فرمایا کہ مصحف اور کچھ چربی ہماری طرف بھیج دو اور اپنے علاقے کے لوگوں کو حکم دو کہ وہ اس چربی کے ساتھ صحت یابی طلب کریں اور دراہم(جو تعداد میں دس ہزار تھے) لوگوں میں تقسیم کردو اور انگوٹھی ہم نے آپی کو نفل کے طور پر دیدی وہ اپنے پاس رکھ لو۔“[1]

ابن ابی الدنیا نے ایک اور سند سے بیان کیا ہے کہ ”ابو الزناد نے فرمایا: میں نے ابوبردہ بن ابو موسیٰ اشعری کے بیٹے کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی دیکھی جس کے نگینے پر شیروں کی تصویر تھی اور ان دونوں کے درمیان میں ایک شخص ہے اور وہ دونوں شیر اس شخص کے پاؤں چاٹ رہے ہیں۔ ابو بردہ نے کہا کہ یہ انگوٹھی فوت شدہ شخص دانیال علیہ السلام سے منسوب ہے۔“[1]

قصص الانبیاء میں انگوٹھی کا تذکرہ

ترمیم

ابن کثیر اپنی تحریر قصص الانبياء میں لکھتے ہیں کہ

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ انہیں دفن کرتے وقت یہ انگوٹھی ان کے قریب سے حاصل کی تھی۔حضرت ابو موسیٰ اشعری نے اس علاقے کے علماء سے اس انگوٹھی کے نقش کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ”دانیال علیہ السلام جس ملک میں پیدا ہوئے وہاں کے بادشاہ کے پاس نجومی آئے اور کہا کہ ایک بچہ پیدا ہوگا جو تیری بادشاہت کو تباہ وبرباد کردے گا۔ بادشاہ نے کہا کہ خدا کی قسم اس رات جو بھی بچہ پیدا ہوگا اس کو قتل کر دیا جائے گا۔دانیال علیہ السلام پیدا ہوئے تو ان لوگوں نے دانیال کو پکڑ کر شیروں کی کچھار میں پھینک دیا شیرنی اور شیر رات دن دانیال سے پیار کرتے رہے اور ان کو چاٹتے رہے اور ان کو کچھ نقصان نہ پہنچایا ان کی والدہ محترمہ تشریف لائیں تو دیکھا شیر اور شیرنی ان کو چاٹ رہے ہیں“ اس طرح دانیال کو اللہ نے محفوظ رکھا۔ یہاں تک کہ آپ اس مقام ومرتبہ پر پہنچے جو ان کے لیے اللہ نے لوح محفوظ میں لکھا ہوا تھا۔

حلیہ و ہیئت

ترمیم

ابو العالیہ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ” دانیال کی ناک ایک بالشت لمبی تھی“ اسی طرح انس بن مالک سے صحیح سند سے مروی ہے ”ان کی ناک ایک ہاتھ لمبی تھی اس لحاظ سے احتمال ہے کہ دانیال علیہ السلام اس زمانے سے بھی پہلے کسی دور کے انبیا علیہم السلام میں سے ایک نبی ہیں“[1]

محمدﷺ کی دانیال کو دفن کرنے کی ہدایت اور دفن کرنے والے کے لیے خوشخبری

ترمیم
وقد قال أبو بكر بن أبي الدنيا حدثنا أبو بلال محمد بن الحارث بن عبد اللہ بن أبي بردة بن أبي موسى الأشعري، حدثنا أبو محمد القاسم بن عبد اللہ، عن أبي الأشعث الأحمري، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم: إن دانيال دَعا ربہ عز وجل أن تدفنہ أمة مُحمد۔[3]

ترجمہ:
ابو بکر بن ابو الدنیا نے کہا ہے کہ ابو بلال بن حارث بن عبد اللہ بن ابو بردہ بن ابو موسیٰ اشعری نے فرمایا کہ ابو الاشعث الاحمری نے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ: دانیال نے اللہ رب العزت سے دعا کی تھی کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی امت دفن کرے“۔

ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ

جب میں نے شہر تستر فتح کیا تو میں نے دانیال علیہ السلام کو ایک تابوت میں پایا ان کی رگیں بالکل صحیح سالم تھیں ان میں خون جاری تھا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہوا تھا جو حضرت دانیال علیہ السلام کی قبر بنائے گا اس کو جنت کی خوشخبری دو۔[1]

دانی ایل(دانیال) کی قبر کی سب سے پہلے اطلاع حرقوص العنبری نے دی تھی۔ بعد میں ابو موسیٰ اشعری نے امیر المؤمنین عمر بن خطاب کو خط میں دانیال کی اطلاع دی جواب میں عمرِ فاروق نے کہا کہ خبر دینے والے کو میری طرف روانہ کر دیں اور دانیال علیہ السلام کو دفن کر دیں۔[1]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث مصنف: امام حافظ عماد الدین ابو ابوالفداء ابن کثیر، مترجم: مولانا عبد الرشید، ماہتمام: معاذ حسن، اشاعت: اکتوبر 2011ء، کتاب: قصص الانبياء، تابع: گنج شکر پرنٹرز لاہور
  2. البدایہ والنہایہ، حافظ ابن كثير، جلد1 / صفحہ434
  3. أحكام في القبور لأبي بكر بن أبي الدنيا