خانیت قلات
بلوچستان قیام پاکستان کے وقت یہ مشرقی بنگال، سندھ، پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کی طرح برطانوی راج کا باقاعدہ حصہ نہیں تھا بلکہ سن سینتالیس تک بلوچستان، قلات، خاران، مکران اور لس بیلہ کی ریاستوں پر مشتمل تھا جن پر برطانوی ایجنٹ نگران تھا، ان میں سب سے بڑی ریاست خانیت قلات (Khanate of Kalat) کی تھی۔
قلات پر فوج کشی
ترمیمریاست قلات کے حکمران خان قلات میر احمد یار خان نے قیام پاکستان سے دو روز قبل اپنی ریاست کی مکمل آزادی کا اعلان کیا تھا اور پاکستان کے ساتھ خصوصی تعلقات پر مذاکرات کی پیشکش کی تھی-
خان قلات کے اس اقدام کی دوسرے تمام بلوچ سرداروں نے حمایت کی تھی اور بلوچستان کی علاحدہ حیثیت برقرار رکھنے پر زور دیا تھا-
لیکن پاکستان نے خان قلات کے اس اقدام کو بغاوت سے تعبیر کیا اور پاکستانی افواج نے خان قلات اور ان کی ریاست کے خلاف کارروائی کی آخر کار مئی سن اڑتالیس میں خان قلات کو گھٹنے ٹیک دینے پڑے اور وہ پاکستان میں شمولیت پر مجبور ہو گئے۔ ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ میر عبد الکریم نے البتہ قلات کی پاکستان میں شمولیت کے خلاف مسلح بغاوت کی اور آخر کار انھیں افغانستان فرار ہونا پڑا-
میر نصیر خان
ترمیممیر نصیر خان کا شمار قلات بلوچستان کے ممتاز ہردلعزیز ترین برو ہی سرداروں میں ہوتا تھا، وہ میر عبد اللہ خان برو ہی کا تیسرا چھوٹا بیٹا تھا، اس کی ماں بی بی مریم التازئی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی، نادر شاہ کے وفات کے بعد میر نصیر خان، احمد شاہ ابدالی کے ساتھ قندھار چلا آيا، جب افغانستان کے بادشاہ کے لیے احمد شاہ کا انتخاب ہوا تو میر نصیر خان نے برو ہی سرداروں کی نما ہند گی کی، اسنے احمد شاہ کے حق میں رائے دیکر بالادستی قبول کرلی، کچھ دن بعد نصیر خان کے بھائی محبت خان نے لقمان خان کی بغاوت میں حصہ لے کر احمد شاہ کا اعتماد کھو دیا ،1749ء میں احمد شاہ کے حکم سے میر نصیر خان اپنے بھائی کی جگہ قلات کے ناظم بنے انکا دور حکومت 1751ء سے 1794ء تک رہا،خوانین قلات افغان حکمرانوں کو سالانہ دو لاکھ روپیہ اور فوجی سپاہی بھی مہیا کرنے کے پابند تھے، نصیر خان کا شمار احمد شاہ کے منظور نظر سپہ سالاروں میں ہونے لگا اور اسنے بادشاہ کے ساتھ کئی معرکوں میں حصّہ لیا، ان دنوں میر نصیر خان اؤل قندھار میں تھے احمد شاہ نے انھیں قلات کا خان مقرر کیا اور مالیہ وصولی وغیرہ کا کام سونپ دیا، جب کشمیر میں بغاوت ہوئی ،
آزادی کا اعلان
ترمیم1171ھ کو جب خان قلات میر نصیر خان نے آزادی کا اعلان کیا تو احمد شاہ ابدالی نے فورا" ایک فوجی دستہ روانہ کیا، میر نصیر خان کو جب پتہ چلا تو مقابلے کے لیے نکلے مستونگ کے مقام پر جنگ ہوئی، اس دوران احمد شاہ خود قندھار سے مدد کو پہنچا اور قلات کا محاصرہ کیا، کچھ عرصے بعد دونوں کے مابین مشروط راضی نامہ ہوا جس کی رو سے خان قلات احمد شاہ فوجی معرکوں میں مدد کرینگے اور احمد شاہ نے بھی خان کو کچھ مراعات دیں،اور اس صلح کو مضبوط کرنے کے لیے احمد شاہ نے نصیر خان کی چچازاد بہن سے اپنے بیٹے تیمور شاہ کا نکاح کرد یا، احمد شاہ درانی کی دورے سلطنت ( 1747ء سے 1823ء)تک افغانستان پر رہی۔ 1765ء کا زمانہ آیا سکھوں نے پنجاب میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔ خان آف قلات میر نصیر خان بھی احمد شاہ ابدالی کے حمرا سکھوں کی سرکوبی کے لیے پنجاب کی طرف روانہ ہو گے۔ میر نصیر خان بارہ ہزار کا لشکر لے کر براستہ گندا وہ احمد شاہ کی مدد کو پنجاب روانہ ہوا، ڈیرہ غازی خان سے سردار غازی خان بھی ایک بلوچ لشکر لے کر میر نصیر خان کی فوج میں شامل ہوا، دریا ے چناب پار کر کے میر نصیر خان کی فوج احمد شاہ کے فوج کے ساتھ شا مل ہوا اور پھر یہاں سے روانہ ہوکر یہ فوج لاہور میں داخل ہوا، میر نصیر خان نے احمد شاہ کے حکم پر آگے بڑھ کر سکھوں کا مقابلہ کیا، شدید لڑائی شروع ہوئی، میر نصیر خان نے بڑھ بڑھ کر سکھوں پر حملے کیے، لڑا ئی میں اس قدر بے خود ہوا کہ سکھوں کے لشکر کے بیچ جا پہنچا سکھوں نے اسے گھیرے میں لے لیا اور قتل کرنا چاہتے تھے اسی دوران ہاتھا پائی میں ان کی پگڑی سر سے گر گئی سکھوں نے جب ان کے لمبے بلوچی بال دیکھے تو ایک سکھ نے آواز لگائی کہ مت مارنا اپنا ہی بھائی ہے، کیو نکہ دھاڑی اور لمبے بالوں کی وجہ سے بلوچ بھی سکھوں کی طرح لگتے تھے، اس معر کہ سے واپسی پر میر نصیر خان نے یہ کہہ کر اپنے بال منڈوا دیے کہ ان کی وجہ سے میں شہادت سے محروم ہوا،
احمد شاہ ابدالی اور بلوچستان
ترمیمافغانستان کے بادشاہ نادر شاہ کے قتل کے بعد احمد شاہ ابدالی جو نادر شاہ کے فوج کے سالار تھے لویہ جرگہ کے ذریعے بادشاہ منتخب ھوئے، یہ جرگہ شیر سرخ بابا کے مزار پر منعقد ہوا تھا، اسی دوران صابر شاہ ملنگ نے ایک گندم کا خوشہ ان کے سر پر بطور تاج کے لگایا اور احمد شاہ کو بطور بادشاہ تسلیم کر لیا گیا، احمد شاہ درانی کو بجا طور پر افغانستان کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ اس وقت سلطنت اٹک سے کابل، کوئٹہ ،مستونگ ،قلات ،سبی، جیکب آباد، شکارپور ،سندھ ،پشین، ڈیرہ اسماعیل خان ،ضلع لورالائی اور تمام پنجاب پر مشتمل تھا، شال کوٹ کوہٹہ قندھار کا ایک ضلع تھا، احمد شاہ درانی کا دورے سلطنت ( 1747ء سے 1823ء) تک افغانستان پر رہی۔ 1765ء کا زمانہ آیا سکھوں نے پنجاب میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔1772ء تک احمد شاہ درانی اور اس کے بعد اس کی اولاد کی حکومت رہی۔ اس کی اولاد میں ایوب شاہ کو1823ء میں قتل کر دیا گیا۔ احمد شاہ ابدالی کی ہمشیرہ کا مزار بھی خواجہ ولی مودودی چستی کرانی کی درگاہ کے احاطہ کے اندر کرانی ،کوئٹہ کے مقام پر واقع ہے ،
شال
ترمیمپنجاب کی مہم سے واپسی پر احمد شاہ ابدالی نے میر نصیر خان کو ہڑند اور داجل کے علا قے بطور انعام دیے۔ اسی زمانے میں جب احمد شاہ کی مشرقی ایران کی مہم سے واپسی ہوہی تو اس نے میر نصیر خان کی والدہ بی بی مریم کوکوئٹہ کا علا قہ یہ کہتے ہوئے دیا کہ یہ آپ کی شال ہے( شال کا مطلب دوپٹہ ہوتا ہے)۔ اسی دن سے کوئٹہ کا نام شال کوٹ پڑ گیا،اور یہ ریاست قلات کا حصہ بن گیا۔ قلعہ میری قلات ( قلعہ کوہٹہ ) کے قریب خواجہ نقرالدین شال پیر بابا مودودی چشتی کا مزار بھی واقع ہے، شال کوٹ کو جو شاہراہ ہندوستان اور ایران سے ملاتی ہے اُسے شال درہ کہتے تھے آج اُس شاہراہ پر اسی نام سے ایک بہت بڑی آبادی قائم ہے، خواجہ ولی مودودی چستی کرانی کا مزار بھی اسی وادی کے اندر بمقام کرانی واقع ہے،
موجودہ بلوچستان
ترمیمبلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے اس کے مغرب میں ایران اور جنوب میں افغانستان ہے جبکہ شمال میں بحیرہ عرب ہے کوئٹہ اس صوبے کا دار الخلافہ ہے یہ صوبہ مون سون زون سے باہر ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر علاقہ صحرا اور پہاڑوں پر مشتمل ہے شہری علاقوں سے باہر رہنے والے قبائلی لوگ مختلف زبانیں بولتے ہیں یہاں پر بلوچوں کی آبادی زیادہ ہے مگر شمال مشرقی علاقوں میں زیادہ تر پٹھان یا پشتون قوم آباد ہے بلوچستان کے کچھ علاقوں میں کپاس کی کاشت کی جاتی ہے میدانی علاقوں میں گندم جبکہ بالائی علاقوں میں پھلوں کے باغات ہیں یہاں کے لوگ جانور بھی پالتے ہیں جیسے بکرے دمبے وغیرہ یہاں کی اہم معدنیات میں کوئلہ جپسم کرومائیٹ چونے کا پتھر سلفر اور فولاد وغیرہ شامل ہیں قدرتی گیس اور تیل بھی اس علاقے میں دریافت ہوا ہے اور استعمال میں لایا جا رہا ہے اور یہاں کی ساحلی تجا رت مچھلی اور نمک پر مشتمل ہے ، بہت سے حملہ آور بلوچستان راستے برصغیر پہنچے ، سکندر اعظم برصغیر سے ایران واپسی بھی بلوچستان کے راستے اختیار کی، ساتویں صدی سے دسویں صدی تک یہ علاقہ عربوں کے زیر حکومت رہا، سترویں صدی کے اوائل میں یہاں پر مغل حکومت قائم ہوئی، اس کے بعد بلوچستان قبائلی سرداروں کے زیر حکومت رہا، جن میں خوانین قلات اہم تھیں، افغان جنگ کے دوران یہاں انگریزوں کا قبضہ ہو گیا، 1876، 1879 اور 1891 کے معاہدوں کے مطابق شمالی علاقہ جن کو بعد میں برٹش کو بلوچستان کہا گیا کو برطانوی کنٹرول میں دے دیا گیا اور کوئٹہ میں ملٹری بیس قائم کر دیا گیا، 1947 میں اس علاقہ کو پاکستان میں شامل کر دیا گیا اور اس کو صوبے کا درجہ 1970 میں ملا، 1976 میں حکومت پاکستان نے سرداری نظام کا خاتمہ کرکے کنٹرول اپنے ہاتھ لیا، جس کے باعث حکومت کے خلاف تحریکوں کا آغاز ہوا، اس علاقہ مین چند چھو ٹی بڑی قبا ئلی شورشیں بھی ہوئیں܂ حکومت اور متحاب گروپوں میں 2004 میں گوریلا جنگ دوبارہ پھوٹ پڑئ، جس کئی وجہ شہر میں ملٹری کی تنصیبات میں اضافہ اور بڑی تعداد پنجابی آبادی میں اضافہ، آبادی میں اضافہ بتایا جاتا ہے مقا می قبا ئل کے آپس میں ذاتی جھگڑے اور مسئلے بھی ہیں 2007 میں اس علاقے میں آنے والے سائکلون نے شدید تباہی پھیلائ اور کم از کم 800،000 لوگوں کو متاثر کیا یہ شہر ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اور اہم تجارتی اور کمیونیکیشن مر کز ے جو وادئ شال کے شمالی حصے میں سطح سمندر سے 5،500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے܂ کوئٹہ کا علاقہ 1876 میں برطانوی کٹر ول میں تھا܂ سر رابرٹ سنڈیمن نے یہاں پر رزیڈنسی قائم کی ܂ شہر یہاں کے مضبوط ملٹری گیریزن کے ارد گرد قائم ہوا اور اسے 1897 میں میونسپلٹی میں شامل کیا گیا܂ یہاں آرمی کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج 1907 میں کھلا܂ مئ 1935 میں آنے والے شدید زلزلے نے کوئٹہ شہر کو تہس نہس کر دیا اور تقریب 20،000 جانوں کا زیاں ہوا܂ اب یہ علاقہ مغربی افغانستان ، مشرقی ایران اور وسطی ایشیا کے کچھ حصوں کے لیے تجارتی مرکز ہے܂ یہاں کے انڈسٹریز میں کاٹن مل سلفر ریفائنری، تھرمل پاور اسٹیشن پھلوں کے باغات شامل ہیں܂کوئٹہ میں جیو فزیکل انسٹی ٹیوٹ، جیو لوجکل سروے، سنڈ یمن لائبریری، دو گورنمنٹ کالجز جو پشاور یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہیں܂ بلوچستان یونیورسٹی