درد لوگ زیادہ تر شمالی پاکستان ،شمال مغربی بھارت اور مشرقی افغانستان میں آباد ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر درد زبانیں بولتے ہیں۔ ان کی بڑی آبادی پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں آباد ہیں جبکہ لداخ بھارت میں انھیں برقپا ( پہاڑی لوگ) کہتے ہیں اور یہ وہاں بھی موجود ہیں۔

Dardic people
کالاش in traditional dress
گنجان آبادی والے علاقے
Northern پاکستان (گلگت بلتستان, خیبر پختونخوا)
Northwestern بھارت (جموں و کشمیر (یونین علاقہ))
Eastern افغانستان
زبانیں
داردی زبانیں
مذہب
اسلام (اہل سنت, اہل تشیع and نوربخشیہ) ہندو مت,[1] تاریخی ویدک مذہب/روحیت (کالاش)[2]
متعلقہ نسلی گروہ
Other Indo-Aryan peoples

رد لفظ کو فارسی میں دارد بھی لکھا جاتا ہے یہ وہ اقوام ہیں کہ جن کا تعلق آریائی قوم سے ہے اور انھیں انڈو آریائی اقوام بھی کہا جاتا ہے  ان قوام کی سب سے بڑی آبادی وکی پیڈیا انگلش و فارسی کے مطابق پاکستان کے شمال میں واقعہ گلگت بلتستان کے علاقے میں ہیں جبکہ یہ اقوام کشمیر ،ہندوستان ،افغانستان اور چین میں بھی آباد ہیں۔ 

شینا زبان درد اقوام کی زبانوں میں سے ایک بڑی زبان ہے جو پاکستان کے گلگت بلتستان کے گلگت اکثرحصہ استور،چلاس،داریل تانگر ،جبکہ بلتستان کے کھرمنگ کا کچھ حصہ خاص کرگلتری، ترکتی ،روندوجبکہ ہندوستان میں لداخ ،دراس ،گورز میں بولی جاتی ہے  مختلف پہاڑی سلسلوں میں آباد ہونے کے سبب درد قبائل کی زبان میں بھی میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور موجو دہے خاص کر لہجوں اور ادائیگی میں لیکن اس کے باوجود اس زبان میں موجود اشتراکات اتنے زیادہ ہیں کہ ایک دوسرے کو سمجھنا کوئی مشکل کام دکھائی نہیں دیتا ۔ شینا زبان کے گلگت بلتستان میں رائج لہجوں میں گلگتی ،استوری،پونیالی،چلاسی ،گورزی،گلتری اور ترکتی و برسل ،روندوی لہجے شامل ہیں ۔ خوواری زبان بھی ان زبانوں میں سے ایک ہے جو درد اقوام سے تعلق رکھتی ہے جو  چترال،یاسین،گوپس،اور افغانستان وپاکستان کے سرحدی علاقوں میں زبان بولی جاتی ہے  گلگت بلتستان میں جہاں درد اقوام آباد ہیں وہیں پر دیگر قومیں بھی موجود ہیں کہ جن میں سرفہرست بلتی وکشمیری اقوام ہیں ۔

بلتی زبان کا تعلق قدیم تبتی زبان سے ہے جبکہ یہاں ایک اور زبان بروشسکی بھی بولی جاتی ہے کہ تاریخی اعتبارسے جس کا تعلق کس زبان ہے ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے ۔ افغانستان کے شمال مشرقی علاقے میں درد قوم آباد ہے جو اب افغانستان میں مسلسل جاری جنگ و جدال کے سبب دیگر شہروں کی جانب سفر کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں  افغانستان میں پشہ ای ھا اور کوہستانی ھا قبیلہ کا تعلق درد اقوام سے ہے  پاکستان میں درد اقوام کی اکثریت مسلمان ہے جبکہ چترال کے کیلاش میں موجود کچھ قبائل اب تک اسی قدیم مذہب کو مانتے آ رہے ہیں ۔ درد یا دارد اقوام کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ان میں سے ایک تحریر یہ ہے جو ویکی پیڈیا ہی میں شائع ہوئی  شینازبان ایک قدیم زبان ہے۔ وادیٔ سندھ سے آریائی تہذیب کے ایک قبیلہ ’’درد‘‘ اپنے ساتھ اس زبان کو لے کر وادیٔ سندھ سے ہجرت کرکے شمالی مشرق کی طرف کوچ کرگیا۔ زمانے کے ہاتھوں دھکے کھاتے کھاتے اوربھٹکتے بھٹکتے یہ قبیلہ آخرکار دردستان (شمالی علاقہ جات) میں پھیل گیا۔ دورانِ سفر اس کا بہت سارے لوگوں سے ملنا جلنا ہوا ہوگا اور آہستہ آہستہ کچھ لوگ تو نئے لوگوں میں ہی گھل مل گئے ہوں گے اور جو بچے کھچے شمالی علاقہ جات میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے وہاں پر نئے سرے سے زندگی شروع کی۔ اس دوران انھیں اپنی زبان کوتحریری طور محفوظ رکھنے کا خاص خیال نہیں رہا اور یہ زبان سے بولی بن کر رہ گئی۔ حالانکہ یہ زبان کافی اہم اور مشہور زبان ہے۔ اس میں سنسکرت اور فارسی کے اکثر الفاظ موجود ہیں جس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس زبان میں سنسکرت کا اثر زیادہ رہا ہوگا۔ چونکہ قدیم زمانے میں سنسکرت ہی زیادہ مشہورزبان رہی ہے اور اس کے بعد فارسی کا دور دورہ شروع ہوا۔

شینا زبان اب زیادہ تر شمالی علاقہ جات یا گلگت بلتستان میں ہی رائج ہے  ۔ یہ قوم سندھ سے ہجرت کے بعد دریائے سندھ کے بالائی حصوں ،اس کے معاون دریائوں کے کناروں ،کشن گنگا ،دراس، استور، گلگت، ہنزا، نگر میں آباد ہوئے۔ شینا کا تمام علاقہ بشمول گلگت ،ہنزا، نگر، دریل ،استور، اسکردو وغیرہ پاکستان کے زیر انتظام ہیں۔ کشن گنگا، دراس، تلیل ،گریز اور لداخ کے بروکشت قبیلے ہندوستان کے زیر انتظام ہیں۔ ڈاکٹر بدرس کے مطابق ڈوماکی (سازندوں کی زبان)کی تکمیل وتشکیل میں بھی ایک ایسی ہی زبان استعمال ہوئی ہے جو اب صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہے۔ ان کے بقول شینا اور بروشکی دونوں میں اس معدوم زبان کے الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے۔ ڈاکٹر گریرسن پساچ کی زبان کو درد اقوام کے آبا واجداد کی زبان قرار دیتاہے۔ ڈاکٹر بدرس کے بقول شینا زبان کے ذخیرہ الفاظ کا ستّرفیصد سنسکرت سے ماخوذ ہے۔

حالیہ ترقیاتی منصوبوں سے درد لوگوں کے منتشر ہونے کا خطرہ

ترمیم

2015ء میں بھارت کے کشن گنگا پروجیکٹ کی تعمیر کو گریزوادی کو تباہ کرکے اسے جہنم بنانے کا الزام لگاتے ہوئے دردی لوگوں نے سرکار سے اپیل کی ہے کہ وہ یہاں سے منتقل کیے جانے والے لوگوں کو ایک ہی جگہ بسانے کے لیے اقدامات اٹھائیں تاکہ درد شنیا قبیلے کے لوگ ایک ہی جگہ رہ کر اپنی تہذیب اور زبان کو بچا سکیں ۔[3]

حوالہ جات

ترمیم

{{حوالہ جات

بیرونی روابط

ترمیم

=

  1. "آرکائیو کاپی"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 دسمبر 2015