راشدی خاندان
[1]سندھ کے راشدی خاندان کی سیاست اور علم و ادب کے حوالے بہت زیادہ خدمات ہیں۔ جہاں اس خانوادے میں حسام الدین شاہ راشدی اور پیر علی محمد راشدی جیسی بابغۂ روزگار شخصیات پیدا ہوئیں جن کے علم و ادب کے چراغ سے ایک دنیا منور ہے وہیں صبغت اللہ شاہ راشدی جیسے تحریک آزادی کے مجاہد پیدا ہوئے جنہوں نے انگریز حکومت کے خلاف آزادی کے لیے مسلح جنگ کی جسے حُر گوریلا جنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
برصغیر میں علم حکمت روحانیت سیاست تاریخ ادب و زندگی کےدیگر شعبوں میں شہرت رکھنے والا "راشدی سادات خاندان " حقیقت میں کسی تعارف کا محتاج نہیں اس خاندان نے تین صدیوں میں دنیا کو روحانیت کے علمبردار،حکیم،عالم،محقق،تاریخدان،محدث ،مصنف،شاعر و سیاستدانوں کا اک مکمل باب دیا ہے اس خاندان کے جد اعلیٰ حضرت امام العصر پیر شہید سید محمد بقا شاہ لکیاری قدس سرہ ہیں جبکہ اس خاندان کے مؤرث اعلیٰ تیرہویں صدی ہجری کے مجدد امام العارفین پیر سائیں سید محمد راشد شاہ لکیاری المعروف حضرت روزے دہنی قدس سرہ ہیں آپ ہی کے نام نامی اسم گرامی "راشد" کی نسبت سے سادات کے اس گھرانے کو "راشدی سادات"کہا جاتا ہے، ~راشدی لکیاری خاندان: سندھ میں لکیاری سادات کا گھرانہ قدیم وقت سے مقیم ہے اس خاندان کے مؤرث اعلیٰ حضرت سید شاہ علی مکی اول لکیاری ہیں جوکہ عراق سے ہجرت کرکے سندھ میں تیسری صدی ہجری میں وارد ہوئے آپ نے سندھ کے شہر سیوستان موجودہ سیہون شریف کے قریب اک پہاڑ کے دامن میں رہائش اختیار کی وہاں سے لوگوں کی گزرگاہ تھی جس کو سندھی زبان میں 'لک' کہا جاتا ہے،وہ جگہ آپ کی نسبت سے 'لک علوی' کے نام سے موصوف ہوئی اور بعد میں آپکی اولاد کو "لکیاری سید"کہا جانے لگا حضرت شاہ علی مکی رحمت اللہ علیہ کو اولاد میں چار فرزند تولد ہوئے
1سید محمد شاہ
2سید برخیہ شاہ
3سید مراد شاہ
4سید چھکن شاہ
آپکے چاروں فرزندان کی اولاد کو لکیاری کہا جاتا ہے سندھ و ہند کے مشہور بزرگ حضرت محمداحمد شاہ صدر الدین لکیاری المعروف لکی شاہ صدر آپ ہی کے بڑے فرزند حضرت سید محمد شاہ لکیاری کی اولاد میں سے ہیں (حضرت شاھ صدر قدس سرہ کی بارگاھ میں سلطان الہند خواجہ غریب نواز اپنے مرشد حضرت خواجہ عثمان ہرونی کی معیت میں حاضرہوئےتھے انکے علاوہ حضرت لال شھباز قلندر حضرت غوث العالمین غوث بھاؤالحق ملتانی حضرت بابا فریدالدین گنج شکر اور حضرت جلال الدین بخاری سرخ پوش اچوی رحمہم اللہ اجمعین بھی شاھ صدر قدس سرہ کی بارگاھ میں مؤدبانہ حاضریاں لگاتے رہے ہیں) جبکہ آپکے آخری فرزند حضرت سید شاہ چھکن کی اولاد میں سے حضرت پیر شہید سید محمد بقا شاہ لکیاری رحمت اللہ علیہ ہیں جوکہ راشدی سادات گھرانے کے جد اعلیٰ ہیں،اس سے ثابت ہواکہ راشدی سادات اصل میں لکیاری سادات گھرانے کی اک شاخ ہیں
حضرت شہید پیر سید محمد بقا شاہ لکیاری:آپ حضرت محمد امام شاہ لکیاری رحمت اللہ علیہ کے فرزند تھے،آپکی ولادت 1135ہجری میں ہوئی،جبکہ آپکی شہادت 1198ہجری میں واقع ہوئی آپ کو اولاد میں چار فرزندان پیدا ہوئے 1_حضرت پیر سید عبد الرسول شاہ لکیاری
2_حضرت پیر سید محمد سلیم شاہ لکیاری
3_حضرت پیر سید محمد راشد شاہ لکیاری روزے دہنی
4حضرت پیر سید علی مرتضیٰ شاہ لکیاری رحمہم اللہ اجمعین
آپکے چاروں فرزندان وقت کے جیئد عالم اور روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے جبکہ آپکے تیسرے فرزند حضرت امام العارفین پیر سائیں سید محمد راشد روزے دہنی رحمت اللہ علیہ کو آپکے تمام فرزندان سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی حضرت پیر سید عبد الرسول شاہ:آپ کو اولاد میں اک فرزند پیدا ہوا آپکی اولاد کو حویلیوں والے راشدی پیر کہا جاتا ہے،آپکی اولاد لاڑکانہ کے قریب ریلن گاؤں و دیگر شہروں میں مقیم ہے،حضرت سید عبد الرسول شاہ رحمت اللہ علیہ کی مزار مقدس اپنے والد گرامی کے قریب مقام شیخ طیب ضلع خیرپور میرس میں واقع ہے حضرت پیر سید محمد سلیم شاہ:آپ کو اولاد میں دو فرزند پیدا ہوئے،آپکی اولاد کو کوٹائی راشدی پیر کہا جاتا ہے،آپکی اولاد سب سے پہلے نوڈیرو شہر کے قریب اپنا کوٹ یعنی قلعہ بناکر مقیم ہوئی جسے 'شاہ جو کوٹ'کہا جاتا تھا 1942ع کے سیلاب کے بعد وہ کوٹ زمین بوس ہوگیا اور تمام پیر صاحبان ہجرت کرکے مختلف شہروں و دیہات جیسے کہ گاؤں پیر موھل،پیر جو گوٹھ، لاڑکانہ وغیرہ میں مقیم ہوگئے،آپ کا مزار مقدس بھی اپنے والد گرامی کے قریب مقام شیخ طیب ضلع خیرپور میرس میں واقع ہے، حضرت پیر سید محمد راشد شاہ روزے دہنی: آپکی ولادت 1170ہجری میں ہوئی جبکہ وصال 63سال کی عمر 1233ہجری میں ہوا آپ ولادت کے وقت رمضان شریف کے احترام میں اپنی والدہ کا دودھ نہ پیتے جب مغرب کی آذان ہوتی تب دودھ پیتے اسلئے آپ کو روزے دہنی یعنی روزہ رکھنے والا کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے آپ شریعت و سنت کے پابند اور تیرہویں صدی ہجری کے مجدد تھے آپ ہی کے نام مبارک "راشد"کی نسبت سے آپ کی اور آپکے تینوں بھائیوں کی اولاد کو "راشدی سادات"کہا جاتا ہے آپ کو اولاد میں 18 فرزندان پیدا ہوئے آپکی اولاد کو راشدی پیر کہا جاتا ہے جوکہ سندھ کے مختلف شہروں و دیہات میں مقیم ہیں آپکے وصال کے بعد آپکے بڑے فرزند پیر سید صبغت اللہ شاہ اول راشدی رحمت اللہ علیہ آپکی خانقاہ کے سجادہ نشین ہوئے جن کو 'پیر پاگارا' کہا گیا اس طرح آج تک جو بھی آپکی خانقاہ کا سجادہ نشین ہوتا ہے اس کو پیر پاگارا کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے اس وقت پیر سید صبغت اللہ شاہ راشدی آپکی خانقاہ کے آٹھویں پیر پاگارا ہیں حضرت روزے دہنی رحمت اللہ علیہ کی مزار مقدس درگاہ عالیہ پیران پاگارہ پیر جو گوٹھ میں مرجع خلائق ہے حضرت پیر سید علی مرتضیٰ شاہ:آپ حضرت پیر سید شہید محمد بقا شاہ لکیاری قدس سرہ کے چوتھے آخری فرزند تھے،آپکی والدہ ماجدہ نو مسلم تھیں آپ کا نام علی مرتضی اور مرتضیٰ علی شاہ بھی لکھا جاتا ہے،آپکو 'پکھے والے شاہ'کے خطاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے آپ کو اولاد میں 6 فرزندان پیدا ہوئے، آپ کی اولاد کو شاہانی راشدی پیر کہا جاتا ہے،
آپ نے والد گرامی کی شہادت کے بعد اپنے آبائی گاؤں رحیمڈنہ کلھوڑہ تعلقہ کنگری ضلع خیرپور میرس سے ہجرت کی اور ضلع لاڑکانہ کے شہر نوڈیرو کے قریب رہائش اختیار کی یہ علاقہ آپکی نسبت سے ُ'شاہ جو گوٹھ' کے طور مشہور ہوا جوکہ اب پیر جو گوٹھ کے نام سے مشہور و معروف ہے
اسی پیر جو گوٹھ میں آپکی مزار مقدس ہے جبکہ یہاں پر ہی آپکی اولاد بھی مقیم ہے،اسکے علاوہ بھی سندھ کے مختلف گاؤں میں آپکی اولاد مقیم ہے
راشدی خاندان کا شجرہترميم
سب سے پہلے راشدی سادات کا شجرہ جمع کرنے والے اسی خاندان کے عالم و پیر طریقت حضرت سید نورالحق شاہ راشدی رحمت اللہ علیہ وگن والے ہیں،آپ کا جمع کیا ہو شجرہ اک چمڑے پر لکھا ہوا ہوتا تھا اس وقت بھی خاندان میں وہ شجرہ کچھ لوگوں کے ہاں موجود ہے آپکے بعد راشدی خاندان کا شجرہ پیر سید فیض الدین شاہ راشدی رحمت اللہ علیہ چھن والے صاحب نے کتابی صورت میں جمع کیا اور اسے اپنے ذاتی خرچہ پر چھاپ کر پورے خاندان میں مفت تقسیم کیا
جبکہ درگاہ ٹھلاء شریف کے راشدی بزرگ پیر سید محمد مٹھل شاہ راشدی رحمت اللہ علیہ نے بھی کپڑے پر راشدی خاندان کا شجرہ جمع کیا جوکہ چھپائی کے بغیر اصلی صورت میں آپکی اولاد کےہاں محفوظ ہے
حضرت روزے دہنی قدس سرہ کی تصنیفات: حضرت روزے دہنی رحمت اللہ علیہ نے اپنی مکمل حیات طیبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں سنت و شریعت اور دین کی خدمت میں صرف کی لاکھوں لوگوں نے آپکے ہاتھ مبارک پر بیعت کی اور نیک و صالح بن گئے ہندوستان سندھ کے علاوہ کیچ مکران افغانستان عراق لبیا و دیگر ممالک تک آپکے مریدوں کی جماعت پھیلی ہوئی تھی آپکے خلفاء کی تعداد کم و بیش گیارہ سؤ تھی جو خود وقت کے مانے ہوئے روحانی بزرگ تھے حضرت روزے دہنی رحمت اللہ علیہ نے جہاں سفر کرکے لوگوں کو نصیحت و تبلیغ فرمائی وہاں پر آپ نے ہر عام و خاص کی ہدایت کے لئے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی نادر کتابیں بھی چھوڑیں ہیں آپکی تصنیفات میں
- آداب المریدین
- شرح اسماء الحسنیٰ
- جمع الجوامع
- مکتوبات شریف
و ملفوظات شریف قابل ذکر ہیں[1]
نسبترميم
راشدی خاندان کاسلسلہ نسب سید محمد راشد شاہ بن سید محمد بقا شاہ اور ان سے سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتاہے۔ اس طرح آپ حسینی سیدہیں۔
راشدی خاندان کا خاندانی پس منظرترميم
راشدی خاندان اصل میں سیدعلی مکی رحمہ اللہ کی اولاد میں سے ہے۔ چوتھی صدی ہجری میں سیدنا شاہ صدر کے دادا سید علی مکی کاظمین سے ہجرت کرکے تبلیغ اور اشاعت اسلام کے لیے سندھ میں تشریف لائے، سیوستان(موجودہ ضلع دادو) میں بھگے ٹھوڑھے نامی پہاڑی کے دامن میں دریا کے کنارے ایک پر فضا اور خاموشی بستی میں سکونت پزیر ہوئے۔ یہ گاؤں آگے چل کر سید علی مکی کے نام سے ’’ مک علوی‘‘ کے نام سے مشہور ہوا اور ان کی اولاد کو لکیاری سادات کہا گیا۔[2] سادات کا یہ پہلا خانوادہ تھا جو سندھ کے لیے باعث شرف وزینت بنا۔ لکیاری سادات کا خاندان اپنے علم وفضل اور شرافت کے اعتبار سے پورے سندھ میں ممتاز سمجھا جاتاہے۔
- لکیاری سادات خاندان میں سے لکی شاہ صدر در گاہ شریف پیرگوٹھ(ضلع خیرپور) اور " گوٹھ پیر جھنڈہ" (ضلع حیدرآباد) علمی وروحانی لحاظ سے بہت اہمیت کے حامل رہے ہیں ۔
- راشدی خاندان سید خدا بخش شاہ عرف کھٹن شاہ کی پشت میں سے ہے اس بزرگ کی پانچویں نسل میں سید محمد بقا شاہ شہید رحمہ اللہ انتہائی اعلیٰ درجہ کے صالح اور نیک سیرت انسان تھے۔ آپ کے سب سے چھوٹے بیٹے سید محمد راشد شاہ تھے جو راشدی خاندان کے مورثِ اعلیٰ کہلائے۔[3]