سعود بن عبدالعزیز آل سعود

1953ء سے 1964ء تک سعودی عرب کے بادشاہ

ابن سعود کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے سعود بن عبد العزیز آل سعود تخت نشین ہوئے۔ انھوں نے اپنے والد کے شروع کیے گئے ترقیاتی کاموں کو جاری رکھا۔ ان کے زمانے میں تیل سے ہونے والی آمدنی میں مزید اضافہ ہوا جس سے ترقیاتی کاموں کی رفتار میں مزید اضافہ ہوا۔ مکہ میں ایک طاقتور ریڈیو اسٹیشن قائم کیا گیا، مکہ و مدینہ اور دوسرے شہروں کے درمیان پختہ سڑکیں تعمیر کی گئیں۔ صنعتوں کی داغ بیل ڈالی گئی اور دمام اور جدہ کی بندرگاہوں کو جدید طرز پر تعمیر کیا گیا۔

سعود
Saud
سعود 1952ء
شاہ سعودی عرب
9 نومبر 1953ء –
2 نومبر 1964ء
پیشروعبدالعزیز ابن سعود
جانشینفیصل بن عبدالعزیز
مکمل نام
سعود بن عبد العزیز بن عبد الرحمن بن فیصل بن ترکی بن عبد اللہ بن محمد بن سعود
خاندانآل سعود
والدعبدالعزیز ابن سعود
والدہوحدہ بنت محمد
پیدائش15 جنوری 1905(1905-01-15)
کویت شہر
وفات23 فروری 1969(1969-20-23) (عمر  64 سال)
ایتھنز، یونان
تدفینمقبرہ العود، ریاض
مذہباسلام
شاہ سعود بن عبد العزیز

شاہ سعود کے عہد حکومت کا ایک بڑا کارنامہ مسجد نبوی اور حرم کعبہ کی توسیع ہے۔ مسجد نبوی کی تعمیر پر 35 کروڑ روپے صرف ہوئے اور تعمیر کا کام 1955ء میں مکمل ہوا۔ جس سے مسجد فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار بن گئی اور دنیا کی بڑی اورخوبصورت ترین مساجد میں شمار ہونے لگی۔ حرم کعبہ کی مسجد کی توسیع کا کام مسجد نبوی کی تکمیل کے فوراً بعد شروع کیا گیا۔

شاہ سعود کے زمانے میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کی طرف بھی توجہ دی گئی۔ 1957ء میں دار الحکومت ریاض میں عرب کی پہلی یونیورسٹی قائم ہوئی جس میں فنون، سائنس، طب، زراعت اور تجارت کے شعبے قائم کیے گئے۔ 1959ء میں لڑکیوں کے لیے بھی مدارس قائم ہونا شروع ہو گئے۔ مکہ میں شریعت کالج قائم کیا گیا اور 1960ء میں مدینہ میں اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ کے نام سے دینی یونیورسٹی قائم کی گئی جہاں دینی تعلیم کے علاوہ طلبہ کو افریقہ میں اسلام کی کی تبلیغ کے لیے بھی تربیت دی جاتی تھی۔ 1957ء میں شاہ سعود نے امریکا کا دورہ کیا اور ملک کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے امریکا سے اسلحہ کی خریداری شروع کی۔

حالانکہ شاہ سعود کے دور میں سعودی عرب میں تیزی سے ترقی ہوئی لیکن شاہی خاندان کے افراد کی بے قید زندگی اور فضول خرچیوں نے ملک کے لیے بہت سے مسائل پیدا کردیے۔ ان میں سب سے سنگین مسئلہ مالیات کا تھا۔ پٹرول سے ہونے والی کثیر آمدنی کے باوجود سعودی عرب کی مالی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی اور ریال کی قیمت گر گئی تھی۔ اس کے ساتھ شاہ سعود کے زمانے میں عرب دنیا میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں آ رہی تھیں۔ عربوں میں انتہا پسندانہ قوم پرستی، نسل پرستی، مذہب سے بیزاری، بعث پارٹی کے غیر اسلامی افکار اور سوشلزم کا عروج کا یہی دور تھا۔ مشرق کے عرب ممالک جن کا سرخیل مصر تھا، ان نظریات کی وجہ سے سعودی عرب کے دشمن بن گئے اور سعودی حکومت کو امریکہ کا ایجنٹ کہہ کر بدنام کرنے لگے۔ شاہ سعود میں اتنا تدبر اور صلاحیت نہیں تھی کہ وہ ملک کو ان اندرونی اور بیرونی خطرات سے نجات دلا سکتے۔ یہ صلاحیت ان کے دوسرے بھائی فیصل میں موجود تھی جو شاہ سعود کے دور میں حجاز کے گورنر اور ملک کے وزیر خارجہ تھے۔ چنانچہ شاہی خاندان اور علما کے دباؤ کے تحت 24 مارچ 1958ء کو شاہ سعود نے تمام ملکی اختیارات شہزادہ فیصل کے سپرد کردیے اور شاہ سعود کی حیثیت صرف آئینی بادشاہ کی رہ گئی۔

مکمل انتظامی اختیارات سنبھالنے کے بعد شہزادہ فیصل نے جو اصلاحات کیں ان سے ان کی انتظامی صلاحیت کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ انھوں نے شاہی خاندان کے اخراجات پر پابندی عائد کی اور دوسری معاشی اصلاحات کیں جن کی وجہ سے سعودی عرب کی اقتصادی و مالی حالت مستحکم ہو گئی۔

اسی زمانے میں شہزادہ فیصل نے غلامی کی رسم کو جو اب تک سعودی عرب میں رائج تھی، ختم کر دیا۔ شہزادہ فیصل کے بڑھتے ہوئے اثرات سے شاہ سعود نے اپنے لیے خطرہ محسوس کیا اور اپنے بھائی کی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کر دیں۔ آخر ایک مجلس نے جو شاہی خاندان کے ایک سو افراد اور ستر علما پر مشتمل تھی، 29 اکتوبر 1964ء کو شاہ سعود کو تخت سے اتار دیا اور امیر فیصل کو ان کی جگہ بادشاہ نامزد کر دیا۔

اس کے بعد شاہ سعود نے یورپی ممالک میں زندگی گزاری جن میں سب سے پہلے انھوں نے جنیوا، سوئٹزرلینڈ کا انتخاب کیا تاہم نے انھوں نے دیگر شہروں میں بھی قیام کیا اور 23 فروری 1969ء کو 64 سال کی عمر میں ایتھنز، یونان میں انتقال کر گئے۔

پیشرو:
عبدالعزیز ابن سعود
سعودی عرب
1953–1964
جانشیں:
فیصل بن عبدالعزیز
نواب میر عثمان علی خان کے ساتھ

زمرہ'1905ء کی پیدائشیں